کمپرومائز

Compromise

Compromise

تحریر : بائو اصغر علی

ہماری زندگی میں اکیلا پن کیوں ہوتا ہے دنیا میں لڑائی جھگڑے کیوں بڑتے جا رہے اس کی مین وجہ ہے کمپرومائز،ہم کمپرومائز نہیں کرتے انسان خود قصور وار ہونے کے باوجود اپنا قصور نہیں مانتا قصور وار دوسرے کو ہی ٹھہراتا ہے،ہم یہ ہی سمجھتے ہے کہ سب کچھ ہم ہی ہیں دوسرا کچھ بھی نہیں اسی وجہ سے ہمارے سارے رشتے سب دوست حباب ہم سے دور ہونا شروع ہوجاتے ہیں ان کے ساتھ کمپرومائزنہ کرنے کی وجہ سے ہم ایک دن اکیلے راہ جاتے ہیں اور جب انسان کو اکیلا پن محسوس ہوتا ہے تو اس کا دماغ چیرچرا سا ہو جاتا ہے اس کی زبان سے مٹھاس ختم ہو جاتی ہے پھر وہ جب بھی کسی سے بات کرتا ہے سامنے والے کو ایسا لگتا ہے کہ یہ انسان مجھ سے بات نہیں کرنا چاہتا اس لیئے یہ مجھ سے کرخت لہجے میں بات کر رہاہے اس کے لہجے میں مٹھاس نہیں اخلاق نہیں چاہت نہیں ایسیصورتِ حال کو دیکھتے ہوئے وہ بھی اسے نظر انداز کر دیتا ہے کمپرومائزوہ بھی نہیں کر تا ،ضرا سوچیئے ؟ ہم کمپرومائز نہ کر کے کتنے رشتوں کو کھو دیتے ہیں۔

زندگی کے صرف وہ پل خوبصورت ہوتے ہیں جو اپنوں میں گزرے اپنوں کے بغیر زیدگی ویران بن جاتی ہے اپنوں کے بغیر جینے کا کوئی مقصد ہی نظر نہیں آتا ،آپ کبھی غور کر کے دیکھے جب کوئی اپنا کو ئی چاہنے والا نہ ہوں تو بننے سنورنے کو بھی دل نہیں چاہتا انسان عجیب و غریب احساس کمتری محسوس کرتا ہے،میرے معزز دوستوں اگر آپ اپنی زندگی سے لڑائی جھگڑا اکیلا پن ختم کرنا چاہتے ہیںتو کمپرومائزکرنا سیکھ لوجب ہم کمپرومائز کرنا شروع کر دے گے تو کوئی بھی رشتہ ہم سے دور نہیں ہو گا وہ چاہے بہن بھائی کا ہو یا بھائی بھائی ، ماں بیٹے کا ہو ں یاماںبیٹی کا ، باپ بیٹے کا ہو یا چاچے بھتیجے کا ہوں، مامے بھانجے کا ہوںیاپھپھی بھتیجے کا ہوں، ماسی بھانجے کا ہو ں ،میاں بیوی کا ہوں ،لوّ دوست کاہو یا سجن بیلی کا ہو، کمپرومائزکرنے سے کوئی بھی رشتہ ٹوٹ نہیں سکے گا۔

کمپرومائز کا مطلب ہے کچھ اپنی منانی اور کچھ سامنے والے کی ماننی اور حق کی بات کو مان لینا ،اگر ہم سب اپنی ہی منوائے گے اور حق کو نہیں مانے گے تو اس کا مطلب ہو گا” میں ” یانہی غرور وتکبر جو کہ اللہ پاک کو بھی پسند نہیں ، تکبر کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص جنت میں نہ جائے گا جس کے دل میں رتی برابر بھی تکبرو غرور (گھمنڈ )ہو گا۔ ایک شخص بولا کہ ہر ایک آدمی چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اور اس کا جوتا (اوروں سے) اچھا ہو، (تو کیا یہ بھی غرور اور گھمنڈ ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جمیل ہے اور جمال خوبصورتی پسند کرتا ہے۔

غرور اور گھمنڈ یہ ہے کہ انسان حق کو ناحق کرے (یعنی اپنی بات کی پچ یا نفسانیت سے ایک بات واجبی اور صحیح ہو تو اس کو رد کرے اور نہ مانے) اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔(صحیح مسلم کتاب الایمان ) ،ایک حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تکبر (گھمنڈکرنے والے) لوگوں کو قیامت کے دن میدان حشر میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے مانند لوگوں کی صورتوں میں لایاجائے گا ، انہیں ہر جگہ ذلت ڈھانپے رہے گی ، پھر وہ جہنم کے ایک ایسے قید خانے کی طرف ہنکائے جائیں گے جس کا نام بولس ہے ، اس میں انہیں بھڑکتی ہوئی آگ ابالے گی ، وہ اِس میں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پئیں گے جسے طین آلخبال کہتے ہیں’،حضرت جابر سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کرتے تھے’قیامت کے روز خدا کچھ لوگوں کو چیونٹیوں کی شکل میں اْٹھائے گا۔ لوگ انہیں اپنے قدموں تلے روندیں گے۔

پوچھا جائے گا یہ چیونٹیوں کی شکل میں کون لوگ ہیں؟ انہیں بتایا جائے گا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو تکبر کرتے تھے۔” (ترمذی) ۔’ اگر فقرا کاملین کی تعلیمات کو پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ انہوں نے بھی غرورو تکبر کو ناپسند کیا ہے اور عجز و انکسار کو پسند کیا ہے بلکہ تکبر کو معرفتِ الٰہی کے راستے کی رکاوٹ قرار دیا ہے،تو پھر ہم کیوں تکبر و غرور کرتے ہیں ہمیں کس بات کا گھمنڈہے ہم اپنے خوبصورت رشتے نبھانے کیلئے کیوں کمپرومائزنہیں کرتے،آئو سب غفلت کی نیند سے بیزار ہو جائوںاور کمپرومائز کرنا شروع کر دوں ،میں دعوے سے کہ سکتا ہوں کہ اگر آپ کمپرومائزکرنا شروع کر دو تو ں آپ کی زندگی خوشیوں سے بھر جائے گی سب روٹھے رشتے دار سجن بیلی آپ کی زندگی میں واپس بہار بن کر آجائے گے اور ہمارا خدابھی ہم سے راضی ہو جائے گا،اللہ ہم سب کواپنے پیاروں سے کمپرومائز کرنے کی ہدایت دے ،آمین،۔

Bao Asghar Ali

Bao Asghar Ali

تحریر : بائو اصغر علی