تحریر : سید انور محمود کیوبا امریکہ کے قریب ایک جزیرہ ہے۔ اس کے دارلحکومت کا نام ہوانا ہے، سرکاری زبان ہسپانوی ہے۔ 25 نومبر 2016 کی رات کیوبا کے سابق صدر اور انقلاب کی علامت سمجھے جانے والے رہنما کامریڈ فیڈل الیہاندرو کاسترو 90 سال سے زیادہ کی عمر میں انتقال کرگئے۔فیڈل کاسترو 1959 سے 1976 تک کیوبا کے وزیراعظم رہے اور پھر 1976 سے 2008 تک ملک کے صدر رہے۔ 2006 میں طبیعت کی خرابی کے بعد وہ منظر عام سے غائب ہو گئے تھے، اور پھر 2008 میں انہوں نے ملک کی باگ دوڑ اپنے بھائی راول کاسترو کے سپرد کردی۔ فیڈل کاسترو 13 اگست 1926کو کیوبا کے ایک جاگیردارگھرانے میں پیدا ہوئے۔ کاسترو نے جب ہوش سنھبالہ تو وہ ایک آرام دہ زندگی گذار رہے تھے لیکن ان کے ارد گردعام لوگ غربت اورمفلسی کا شکار تھے، سماجی تفریق اور دوسرئے مسائل نے ان کو بہت متاثر کیا اور ان وجوہات نے ان کو ایک انقلابی بنادیا۔ 1960 سے قبل کیوبا میں امریکا نوازحکومت قائم تھی اور کیوبن ڈکٹیٹر فلجینسیو بتیستا پر امریکی اس لیے مہربان تھے کہ اس نے پورئے ملک کو امریکی کالونی بنا رکھا تھا۔ بتیستا کی حکومت میں بدعنوانی، تنزلی اور عدم مساوات عام تھا۔ کاسترو اس کے خاتمے کے لیے پرعزم تھے۔
فیڈل کاسترو نے جب 1953 میں مونکاڈا ملٹری بیرکس پر حملے میں شرکت کی تھی تو تب کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ نوجوان ملکی تاریخ کی ایک اہم سیاسی شخصیت بن کر ابھرے گا۔ تب چھبیس سالہ وکیل کاسترو کو اس ناکام حملے میں ملوث ہونے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ ان کے کئی باغی ساتھیوں کو ہلاک کردیا گیا تھا لیکن کاسترو کیوبا کے آمرحکمران بتیستا کی فورسز سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔اس واقعہ کے چھ برس بعد جلا وطنی کی زندگی ترک کرتے ہوئے کاسترو ایک مرتبہ پھر ہوانا میں داخل ہوئے، وہ اس وقت صرف بارہ گوریلا جنگجوؤں کے ساتھ ایک بڑے مشن پر تھے۔ کمیونسٹ کاسترو پہلی مرتبہ اس وقت منظر عام پر آئے، جب انہوں نے موجودہ گوانتاناموبے کے جنوب میں واقع سیراما اسٹیا نامی پہاڑوں میں موجود اپنے اڈے سے بڑے پیمانے پر گوریلا کارروائی کے ذریعے بتیستا اور اس کی اسی ہزار فوج کو شکست سے دوچار کردیا۔
جنوری 1959میں کارل مارکس کے تصور انقلاب سے متاثر فیڈل کاسترو اور ان کے حامی انقلابیوں نے ملک میں کیمونسٹ انقلاب کےلیے جدو جہد شروع کی اور وہ ملک میں کیمونسٹ انقلاب لانے میں کامیاب ہوگئے اور امریکی ایجنٹ بتیستا کو فرار ہوکر جان بچانا پڑی۔فیڈل کاسترو نے 1959 میں کیوبا کا اقتدار حاصل کیااور پچاس سال تک اقتدار میں رہے۔سرد جنگ کے عروج کے زمانے میں کیوبا میں کاسترو کی اس اچانک اور غیر متوقع کامیابی نے کمیونزم کو امریکا کے سر پر لا کھڑا کیا تھا۔ اسی خوف کے باعث امریکی خفیہ ایجنسی اور کیوبا کے جلا وطن شہریوں کے ایک حلقے نے کاسترو کو ہلاک کرنے کے کئی منصوبے بنائے لیکن تمام ناکام رہے۔ امریکی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ فابیان ایسکلانتے کے مطابق کاسترو کو کم ازکم 634 مرتبہ قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ فیڈل کاسترو خود کو امریکی سلطنت کے ایک سخت حریف قرار دیتے تھے۔ بی بی سی کے مطابق کیوبا میں فیڈل کاسترو کےسوگ کے دوران ان کی باقیات کو ان راستوں پر لے جایا جائے گا جن پر سے گزر کر ان کے ساتھیوں نے بتیستا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔
Comrade Fidel Castro
فیڈل کاسترو دس امریکی صدور کو بدلتے ہوئے دیکھنے والی تاریخ ساز شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔انہیں اکیسویں صدی کی عالمی سیاست کا ایک اہم ستون قرار دیا جاتا ہے۔ امریکی ریاست فلوریڈا سے صرف 90 کلومیٹر کی دوری پر واقع کیوبا نے ایک طویل مدت تک اشتراکی نظام کا ساتھ دیا۔ امریکا اور کیوبا کے درمیان سفارتی تعلقات 1959 میں کیوبا میں فیڈل کاسترو کی قیادت میں برپا ہونے والے کیمونسٹ انقلاب کے بعد ختم ہو گئے تھے۔ اس کے بعد امریکا نے کیوبا پر ہر قسم کی تجارتی پابندیاں عاید کیں۔ ان پابندیوں کی وجہ سے کیوبا کو معاشی طورپر دیوالیہ کردیا مگر فیڈل کاسترو کی کیمونسٹ حکومت نے امریکیوں کا سفارتی میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کیا۔فیڈل کاسترو ہمیشہ امریکی پالیسیوں اور حکمرانوں کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے، امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے 2004 میں امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کی پالیسیوں کو فراڈ اور دوغلی قرار دیا جبکہ 2011 میں انہوں نے امریکی صدر براک اوباما کو بے وقوف کہا۔فیڈل کاسترو کے دور صدارت میں کیوبا اور امریکا کے تعلقات میں تناؤ رہا لیکن ان کی صدارت چھوڑنے کے کچھ ہفتوں بعد ہی امریکا اور کیوبا میں سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔ دونوں ملکوں کے درمیان سرد جنگ کے خاتمے کا کریڈٹ امریکی صدر باراک اوباما کو جاتا ہے جنہوں نے جولائی 2015 میں کیوبا کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنےکا اعلان کیا۔فیڈل کاسترو نے اس حوالے سے اپنے بیان میں کہا کہ وہ ریاستی فیصلے کی حمایت کرتے ہیں لیکن انہیں امریکی پالیسیوں پر بالکل بھی اعتبار نہیں ہے۔
کامریڈ فیڈل کاسترو کے الفاظ میں ’’ہم امریکی عوام کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی کیوبائی عوام کی تعلیم وتربیت جنونی شدت پسندوں کے طور پر ہوئی ہے بلکہ ان کی تربیت درست اور مناسب نظریات سے ہوئی ہے، اگر ہم سچے نہیں ہوتے تو ایک دن بھی زندہ نہیں رہ پاتے۔ آپ ایک انقلاب کو اپنے نظریات کے بل بوتے پر ہی قائم و دائم رکھ سکتے ہیں‘‘۔اپنے دور اقتدار میں کاسترو نے لاطینی امریکا میں بائیں بازو کے گوریلا فائٹرز کی بھرپور حمایت کی۔ انہوں نے ایسے ملکوں میں بھی جنگجو روانہ کیے، جہاں سرد جنگ کے اثرات شدید ہو گئے تھے۔ اس دور میں کاسترو نے کمیونزم کی حمایت کی خاطر انگولا، ایتھوپیا، کانگو، الجزائر اور شام میں مجموعی طور پر تین لاکھ چھیاسی ہزار دستے روانہ کیے تھے۔ کاسترو ساٹھ کی دہائی میں ہی دنیا بھر کی انقلابی تحریکوں اور انفرادی سطح پر مزاحمت کرنے والوں کے ہیرو بن چکے تھے۔ اکتوبر 2005 میں پاکستان میں آنیوالے بدترین زلزلے کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کےلیے کیوبا کے 2558 ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملے نے مسلسل 8 ماہ تک کشمیر اور پختونخوا کے دور دراز علاقوں میں مصیبت زدہ عوام کو طبی امداد فراہم کی تھیں۔
اپنی ریلیوں میں’سوشلزم یا موت‘ کا نعرہ لگانے والے فیڈل کاسترو ایک طویل مدت تک اپنے نظریاتی عزم پر ڈٹے رہے جب کہ اس دوران چین اور ویت نام جیسے ممالک سوشلسٹ نظام کو چھوڑ کرسرمایہ دارانہ نظام میں داخل ہوچکے ہیں۔ عالمی سربراہان اور اہم شخصیات کی جانب سے فیڈل کاسترو کے انتقال پر تعزیتی پیغامات بھیجے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون کا کہنا ہے کہ فیدل کاسترو کو کیوبا میں تعلیم، ادب اور صحت جیسے شعبوں میں بہتری لانے کے لیے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔فیڈل کاسترو سگار پینے کا خاصا شوق رکھتے تھے، اپنی طویل العمری اور صحت کے مسائل کی وجہ سے فیڈل کاسترو نہ صرف سگار پینا ترک کر چکے تھے بلکہ وہ عوامی منظر نامے پر بھی کم ہی نظر آتے تھے، اس سال اپنی 90 ویں سالگرہ کے موقع پر وہ جب کیوبن عوام کے سامنے آئے تو عوام نے انکا والہانہ استقبال کیا اور انکی سالگرہ کی مناسبت سے کیوبا کے ہنرمندوں نے انکو نوے ہی میٹر کا لمبا سگار تحفے میں دیا۔فیڈل کاسترو نہ صرف اپنی قوم کےلیے بلکہ پوری دنیا کےلیے بھی ایک عظیم اور نظریاتی رہنما تصور کیے جاتے تھے اور کیے جاتے رہیں گئے۔ کامریڈفیڈل کاسترو کا سوشلسٹ کیوبا اکیسویں صدی میں انقلاب کی سب سے بڑی علامت اور اس عہد کا سب سے بڑا سچ ہے، جسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں جھٹلا سکتی۔