خدشات ، حادثات اور نیا سال

Calendars

Calendars

کہنے کو تو دیواروں پر آویزاں کیلنڈروں سے لے کر جیب میں پڑے سیل فونز تک کی تاریخ نے ٢٠١٣ کے کپڑے اتار پھینکے ہیں ۔٢٠١٤ کا بنائو سنگھار کرتے ہوئے تاریخ نے دیکھنے والوں کو کئی سبز باغ دکھائے اور سننے والوں کو امید کے سُروں میں ڈوبے ہوئے راگ سنائے۔جہاں تاریخ نے اپنی ذمہ داری پوری کی وہاں عوام نے بھی خوب نبھائی۔سال کے بدلتے لمحوں میں کئی چینلز نے شو ز دکھائے، احباب سے لے کر محبوب تک کو Happy New Year کے میسجز کئے، فیس بک پر سٹیٹس دیے اور ٹوئٹر پر ٹوئٹ بھی کر ڈالیں ۔غرض یہ کہ نئے سال کی تشریف آوری کے لیے ہر رسم ادا کر دی گئی ۔ صبح ہونے کو آئی ٢٠١٤ کا سورج دھند میں جھانک جھانک کر اہلِ شہر کو دیکھتا رہا ۔ حیرانگی کیسی؟ شہر والے بھی تو حیران تھے۔

وہ تو نہ جانے کون کون سے حسین خواب دیکھ کر سوئے تھے مگر کیا کیجئے دھند کے باعث ان کے وہ سارے خواب بھی آخر کو دھندلا گئے ۔خواب سرا ب ہوئے اور سراب عذاب ۔ہوا وہی جو ہوتا آیا ہے ۔ وہ نہ ہوا جو شہر والوں کے خیال میں تھا، سوالی کے سوال میں تھا ۔ تاریخ بھی پاکستان کی جمہوریت کی طرح نکلی جس میں نام اور چہرے کے سوا کچھ نہیں بدلتا۔کیلنڈر میں ٣ کا ہندسہ ٤ ہوا، لوگوں کی ضروریات اور خواہشات ٦ ہوئیں مگر ہاتھ میں جمی میل ٣ کی ٣ ہی رہی۔یوں تو٢٠١٤ ء کے کیلنڈر کی تاریخ اور دن ١٩٤٧ء کے کیلنڈر کے ہوبہو ہیں مگراہلِ پاکستان کے لیے فرق صرف اتنا سا ہی ہے کہ ١٩٤٧ء میں یہ بکھرے اور بے سمت لوگ ایک قوم تھے وہ بھی با مقصد جبکہ ٢٠١٤ء میں یہ قوم نہیں بلکہ بقول حسن نثار یہ وہ ہجوم میں ہے جس میں سانپ چھوڑ دیا گیا ہو۔confusion اور illusion کی تعریف پر پوری اترتی اس عوام پر خدا کرے ٢٠١٤ء کا کیلنڈر کچھ اثر ڈالے۔ اب حادثات ہی کو لے لیجئے ۔

World War

World War

پہلی جنگِ عظیم کو ظہور ہوئے ایک صدی ہونے کو ہے مگر حادثہ ہے کہ مسلسل رواں ہے ۔ابھی ٢٠١٤ نے چند سانسیں ہی لیں تھی کہ اسلم، اعتزاز اور نہ جانے کتنے ایسے چل بسے جن کا نام بھی ہمیں معلوم نہیں۔نہ جانے تاریخ اور کتنے حادثے اپنی آغوش میں لے گی۔ نئے سال کے پُر امید خواب اپنی جگہ مگر انسان خدشات کو بھی کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتا۔ خدشات صرفِ نظر کے بعد ہی حادثات کا رو پ دھارتے ہیں ۔٢٠١٤ کے چند خدشات پنجاب یونیورسٹی کی ثمن مصطفی نے اپنی نظم میں یوں سمیٹے ہیں کہ جسے کسی بھی طرح اگنور نہیں کیا جا سکتا۔ مجھے اس لڑکی کی شاعری میں سعادت حسن منٹوبولتا نظر آتا ہے لیجیے ثمن مصطفی کی ”Happy New Year ”۔
مجھ کو ذرا بتلائو تو !
کیا نئے سال کی صبح پر بھی
پرانے سال کی وحشتوں کی
اور لہو رنگ کالی راتوں کی
پر چھائیاں ہوں گی
کیا تم کو ایسا لگتا ہے کہ
اب بھی سارے شہر جنگل ہوں گے
جن میں سماجوں کی
رواجوں کی
اور مذہب کی آڑ میں
درندے دندنائیں گے
سانپ پھن پھیلائیں گے
فاختائوں کے
بلبلوں کے
پثرمردہ جسم گدھ نوچ کھائیں گے
لرزتے استخوانی ہاتھ یا معصوم ننھے ہاتھ
کچرے کے ڈھیر ٹٹولیں گے
اور بدبو دار روٹی کے ٹکڑے کی جھلک پر
ان کی آنکھیں چمکیں گی
اور دوسری طرف
میزوں پر کھانے مہکیں گے
اور ایوانِ امیراں میں لوگ
شراب کی بوتل ہاتھوں میں لئے
پری پیکر جسموں کی حدت سے
اپنی عقل کو مفتور کیے
گھڑی کی سمت نظروں کو کیے
پرجوش کھڑے ہوں گے
اور پھر رات کے بارہ بجتے ہی
بوتل کے ڈھکن ٹھس س س س کی
آواز سے کھولیں گے
اور چلائیں گے۔
”Happy New Year ”

Umar Saleem

Umar Saleem

تحریر:عمر سلیم