آج اتوار صدر مملکت آصف علی زرداری کی ایوان صدر سے رخصتی کا دن ہے اور کل سے وہ سابق صدر بن جائیں گے عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار رہنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت نے ملک میں غربت اور مہنگائی کو خطرناک حد تک بڑھا دیا تھا اور ایک غریب انسان اپنی گذر بسر کے لیے گداگر بن بیٹھا پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمہ کے ستھ ہی لوگوں نے سکھ کا سانس لیا تھا کہ اب انکی قسمت بدل جائے گی اور ملک میں خوشحالی کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔
مگر چند دنوں میں ہی ہوشربا مہنگائی نے عوام کے رہے سہے ہوش بھی اڑا دیے اب تو یہ حال ہے کہ کھانے کو روٹی نہیں اور بیمار کو دوا نہیں رہنے کو گھر نہیں اور سونے کو بستر نہیں آخر اس ملک کے غریب کہاں جائیں اور وہ بھی ایسے سفید پوش جو نہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا سکتے ہیں اور نہ ہی کھل کر رو سکتے ہیں اور ابھی تو اس حکومت کو آئے ہوئے سو دن بھی مکمل نہیں ہوئے اور عوام سو سال پیچھے چلے گئے ہیں ملک میں لوڈ شیڈنگ کنٹرول سے باہر ہوچکی ہے۔
غربت کے ہاتھو ں عوام خودکشیوں پر مجبور ہورہے ہیں اور حکومت ہے کہ باتوں کی گولی دیکر عوام کو بے وقوف بنا رہی ہے کہیں سے کوئی سکھ کی خبر نہیں ہے کس کام کی یہ جمہوریت جہاں حق دار اپنے حق سے محروم رہ جائے اور سفارشی اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کا بھی حق لے اڑے کیا اسی لیے عوام نے اپنے نمائندے چنے تھے کہ ان میں سے کوئی ایوان صدر جا کر چھپ جائے کوئی وزیراعطم ہاس کے حصار میں پناہ لے لے اور باقی کے تمام اپنی اپنی لوٹ مار میں لگ جائیں۔
ہمارا اسلام تو ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ اپنے ہمسائے کا خیال رکھو مگر ہم نے تو اپنے ہمسایوں کے گھروں میں ہی نقب لاگر انہیں لوٹنا شروع کررکھا ہے اور اگر موجودہ حکومت نے مہنگائی ،بے روزگاری اور غربت کو قابوکرنے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی نہ اپنائی تو ہو سکتا ہے کہ ابھی جو سٹریٹ کرائم کی وارداتیں ہو رہی ہیں وہ ان حکمرانوں کے گھروں تک بھی پہنچ جائیں اس لیے پانی کو سر سے گذرنے سے پہلے ہی روک لیں موجودہ حکومت نے اے پی سی کے انعقادکا اعلان کیا ہے۔
Taliban
یہ شاندار اقدام ہے کراچی میں امن و امان بحال کرنے کی اچھی سوچ ہے اس کے ساتھ ساتھ حکومت اب طالبان سے بھی مذاکرات چاہتی ہے لیکن طالبان سے مذاکرات سے پہلے اے پی سی کے ایجنڈے میں یہ شامل کر لیں کہ انڈیا افغانستان میں قونصل خانے کھول کر کیا کھیل کھیل رہا ہے؟ سربجیت سنگھ نے درجنوں پاکستانیوں کو قتل کیا مگر جب اس کی لاش بھارت گئی تو اسے ترنگے میں لپیٹ کر اکیس توپوں کی سلامی دی گئی مگر افسوس کی یہاں سے آواز نہیں اٹھائی گئی۔
جبکہ آج متحدہ مجلس عمل کی طرف سے اسلام آباد میں علامہ سید عارف حسین الحسینی کی یاد میں ایک خصوصی سیمینار کا اہتمام کیا گیا ہے جنہیں اس دنیا سے رخصت ہوئے 25 برس ہو چکے ہیں مگر انکی شخصیت کا سحر ابھی تک موجود ہے یہاں پر میں اپنے ایک دوست کا بھی ذکر کرتا چلوں کہ موت کیسے کیسے خوبصورت جوانوں کو پلک جھپکتے ہی دبوچ لیتی ہے اور وہ بھی ایسے دوست جن کے ساتھ آپکی زندگی کے خوشگوار پل گذرے ہوں۔
جنکی موجودگی آپ کو اس بات کی تسلی دیتی رہے کہ میں اکیلا نہیں ہوں میرے ساتھ میرے دوست موجود ہیں اور وہ بھی ایسے دوست جو آپ کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہوئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار رہتے ہوں ایسے ہی ایک دوست ملک ساجد جو راولپنڈی پولیس میں تھے اور جن سے تعلق کو ایک لمبا عرصہ گذرچکا ہوں جو میرے بڑے بھائی کا کلاس فیلو بھی تھا اور پھر بڑے بھائی کی وفات کے بعد وہ بڑے بھائیوں کی طرح ہی رہا اچانک دل کے دورہ سے موت کی وادی میں چلا گیا۔
ایسے ہنس مکھ انسان کا چلے جانا کسی بہت بڑے صدمہ سے کم نہیں ابھی تو اسکے بچے بھی چھوٹے چھوٹے ہیں اور ابھی تو اسکی زندگی کا مقصد بھی پورا نہیں ہوا تھا اور تو اور منتوں مرادوں سے مانگا ہوا بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا وہ اور اسکے جانے کے بعد ہم جیسے لاپراہ قسم کے لوگوں کوجو صدمہ محسوس ہوا وہ اتنا شدید تھا اور ان بہنوں کا کیا حال ہوا ہوگا اپنے اکلوتے بھائی کے چلے جانے سے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ان بہنوں کو صبر جمیل عطا فرمائے اور ملک ساجد کی بیوی اور بچوں کو ہمت اور جرائت عطا فرمائے جبکہ محکمہ پولیس کو بھی ہدایت دے کہ جو اس محکمہ سے چلے جاتے ہیں انکے واجبات بھی انہیں جلدی جلدی ادا کردیں۔