نرگسیت کے شکار خلیل الرحمٰن قمر کی بدکلامی قابلِ مذمت کہ عورت ماں ہو یا بیٹی، بہن ہو یا بیوی، ہر حوالے سے قابلِ احترام۔ آفرین مگر بات کا بتنگڑ بنانے والے الیکٹرانک میڈیا پر کہ تقریباََ سبھی اہلِ مذہب، اہلِ قلم اور اہلِ سیاست بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے بیٹھ گئے۔ ٹی وی سکرینیں جنگ کا سا منظر پیش کرنے لگیں، سوشل میڈیا پر طوفان بپا ہو گیا اور ریٹنگ کے حریص اینکرز کی چاندی ہو گئی۔ کسی کو یاد نہیں رہا کہ عذابِ الٰہی کی صورت نمودار ہونے والا کورونا وائرس ننانوے ممالک میں پھیل چکا، لگ بھگ ساڑھے تین ہزار اموات ہو چکیںاور ایک لاکھ افراد اِس تیزی سے پھیلتے وائرس میں مبتلاء ہو چکے۔ اسی وائرس کے خوف سے عمرے پر پابندی عائد کر دی گئی اور سعودی عرب میں بسنے والوں پر بھی حرمِ پاک اور مسجدِ نبویۖ کے دَر بند ہو چکے۔۔۔۔ کسی کو آتشِ چنار سے آتشِ فشاں میں ڈھلتا کشمیر یاد رہا نہ دِلی میں دَر دَر بچھی صفِ ماتم۔ اگر کچھ یاد رہا تو فقظ ”عورت مارچ” یا پھر ”میرا جسم میری مرضی”۔
خلیل الرحمٰن قمر کی بَدکلامی قابلِ مذمت ضرور مگر لائقِ تعزیر صرف وہی کیوں، ماروی سرمد کیوں نہیں جس نے اِس جھگڑے کا آغاز کیا؟۔ خلیل الرحمٰن قمر نے اپنی بات شروع کرنے سے پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ اُس نے کسی کو ٹوکا نہیںاِس لیے ازراہِ کرم اُسے بھی اپنا نکتۂ نظر بیان کرنے دیا جائے لیکن ماروی سرمد نے ابتداء ہی میں اُسے ٹوکنا شروع کر دیاجس پر وہ چلااُٹھا۔ خلیل الرحمٰن قمر کے چلانے پر ماروی سرمد نے اُسے ”شٹ اپ” کہا جس پر وہ ذہنی توازن کھو بیٹھا۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں خلیل الرحمٰن قمر نے اعتراف کیا کہ اُس کی زبان سے نا زیبا الفاظ استعمال ہوئے جن پر وہ دَس مرتبہ معافی مانگنے کو تیار ہے لیکن پہلے ماروی سرمد معذرت کرے جس نے جھگڑے کی ابتداء کی۔ اگر معافی تلافی ہو جاتی تو الیکٹرانک میڈیا کی ریٹنگ کیسے بڑھتی؟۔ اِس لیے تاحال یہ معاملہ مسموم ہواؤں کی زَد میں ہے اور ہر کوئی ”بقدرِ ہمتِ اُو” اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ سوال مگر یہ کہ آخر ”عورت مارچ” کیوں؟۔
عورت اگر اپنے حقوق کے لیے ”مارچ” کرنا چاہتی ہے تو اِس پر شاید کوئی فاترالعقل مرد ہی اعتراض کرے لیکن کون سے حقوق؟۔ کیا زندگی کے ہر شعبے میں عورت مرد کے شانہ بشانہ نہیں؟۔ کیا عورت پر حصولِ علم کے دَر بند ہیں؟۔ کیا عورت پر حصولِ ملازمت کی پابندی ہے؟۔ کیا عورت انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی (اِس معاملے میں عورت کو مرد پر اِس لحا ظ سے فوقیت حاصل ہے کہ وہ نہ صرف عام انتخابات میں حصہ لے سکتی ہے بلکہ مرکز اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں اُس کا کوٹہ بھی مقرر ہے)۔کیا جماعت اسلامی سمیت سبھی دینی وسیاسی جماعتوں نے صدارتی انتخاب میں ایوب خاں کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کا ساتھ نہیں دیا تھا؟۔ کیا محترمہ بینظیر بھٹو دو دفعہ ملک کی وزیرِاعظم نہیں رہیں؟۔
یہ بجا کہ ماضی میں عورت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا رہا، اُسے کمتر اور ناقص العقل قرار دے کر استحصال کیا جاتا رہا۔ اُس پر تشدد اور اُسے ”پاؤں کی جوتی” قرار دیا جاتا رہا۔ یہ بھی بالکل درست کہ قرونِ اولیٰ میں بچیوں کو زندہ دفن کیا جاتا رہالیکن دورِ جدید میں یہ طے ہو چکا کہ عورت کسی بھی لحاظ سے کمتر نہیں۔ اُسے ہر حوالے سے مرد کی برابری کا درجہ حاصل ہے۔ تسلیم کہ آج بھی دوردراز علاقوں میں عورت کے ساتھ یہی استحصالی رویہ روا رکھا جا رہا ہے لیکن پاکستان کے شہروں میں صورتِ حال یکسر مختلف ہے۔ یہاں عورت اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑی ہے اِس لیے اگر محترم خواتین عورت مارچ کرنا چاہتی ہیں تو اُن علاقوں میں کریں جہاں آج بھی عورت کو ووٹ تک دینے کا حق حاصل نہیںلیکن وہاں جاتے ہوئے تو شاید اِن کے پَر جلتے ہیں۔ جہاں پہلے ہی عورت کو تمام حقوق حاصل ہیں وہاں عورت مارچ چہ معنی دارد۔ اِس کے باوجود بھی اگر خواتین عورت مارچ کرنا چاہتی ہیں تو اُنہیں اِس کا حق حاصل ہے ۔ یہ الگ بات کہ ایسی پریکٹس بے مقصد ہی رہے گی کیونکہ جس مقصد کے حصول کے لیے وہ مارچ کر رہی ہیں، وہ مقصد تو اُنہیں پہلے ہی حاصل ہے۔
جن خواتین کا نعرہ ”میرا جسم، میری مرضی” ہے اُن کی خدمت میں عرض ہے کہ مرضی صرف اللہ کی ۔ زمین کا یہ ٹکڑا اللہ کے نام پر حاصل کیا گیا اِسی لیے اِس مملکتِ خُدا داد کا نام” اسلامی جمہوریہ پاکستان” رکھا گیا اور آئین کے ابتدائیہ میں اللہ تعالےٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تسلیم بھی کیا گیا۔ اِس لحاظ سے حاکمیتِ اعلیٰ صرف اللہ کی، ہمارے پاس صرف اُس کی نیابت۔ اب سوال یہ ہے کہ اللہ کی مرضی کیا ہے؟۔ سورہ الا حزاب میں درج ہے ”اپنے گھروں میں ٹِک کر رہواور سابق دَورِ جاہلیت کی سج دھج نہ دکھاتی پھرو”۔ حکمت کی عظیم الشان اِسی کتاب میں یہ حکم بھی دے دیا گیا کہ غیر مردوں سے دَبی زبان میں گفتگو کی جائے لیکن یہاں معاملہ یکسر مختلف کہ عورتیں سج دھج کے باہر بھی نکلتی ہیں، بڑے بڑے شاپنگ مالز میں خریداری بھی کرتی ہیں، اپنی استطاعت کے مطابق بلاروک ٹوک اپنی پسند کا لباس بھی منتخب کرتی ہیں اور ضرورت پڑنے پر غیرمردوں پر چلاتی بھی نظر آتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ”میرا جسم،میری مرضی” کا وہ سطحی مطلب نہیں جو تصور کر لیا گیا۔ ایک ٹی وی ٹاک شو میں معروف لکھاری محترم یاسر پیرزادہ نے فرمایا کہ یہ دراصل عوامی شعور کی کمی ہے جو اِس نعرے کا غلط مطلب لیا جا رہا ہے۔ بجا ارشاد ! تو پھر ایسی صورت میں کیا یہ ضروری نہیں ہو جاتا کہ اہلِ علم و فکر اور صاحبانِ بصارت وبصیرت عوامی سطح پر اُتر کر بات کریں کیونکہ بظاہر اِس نعرے کا وہی مطلب لیا جائے گا جو عوامی سطح پر لیا جا رہا ہے۔ اگر عوامی شعور کی کمی ہے تو پھر کیا اِس نعرے کا کوئی متبادل نہیں؟ یا پھر نعرہ بدلنے سے عورت کی انانیت کو ٹھیس پہنچتی ہے؟۔ شاید اِسی انانیت کے زیرِاثر ٹاک شو میں ماروی سرمد بار بار نعرہ زَن تھی ”میرا جسم، میری مرضی”۔
رَبّ ِ علیم وخبیر نے مرد کو عورت کا نگران ومحافظ مقرر کیا ہے۔ ارشادِ ربی ہے ”مرد عورتوں پر قوام ہیں (النسائ)۔ لیکن اِس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مرد کو عورت کے استحصال کا حق دے دیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح کسی ملک میں سربراہِ مملکت کے بغیر امورِ مملکت سرانجام نہیں دیئے جا سکتے، اُسی طرح خاندان کا ایک سربراہ ہونا بھی ضروری ہے جس کے لیے اللہ تعالےٰ نے مرد کا انتخاب کیا۔ جزاء ، سزا، اور اجر کے معاملے میں مرد اور عورت برابر ہیں۔ جو پابندیاں عورت پر عائد کی جاتی ہیں، وہی پابندیاں مرد پر بھی ہیں۔ سورۂ النور میں درج ہے ”اے نبی ! مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظر نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے۔ جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے با خبر رہتا ہے”۔
سورہ النور میں ہی یہ حکم عورتوں کو یوں دیا گیا ”اے نبی ! مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں ، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریںمگر بجز اِس کے کہ خود ظاہر ہو جائے اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں۔ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر نہ کریںمگر اُن لوگوں کے سامنے: شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، بھائی، بھائیوں کے بیٹے، بہنوں کے بیٹے، اپنے میل جول کی عورتیں، اپنے مملوک، وہ زیردست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں۔ وہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی نہ چلا کریں کہ اپنی جو زینت اُنہوں نے چھپا رکھی ہو ، اُس کا لوگوں کو علم ہو جائے(سورہ النور ٣١)۔ جب ربِ کائینات نے حکمت کی عظیم الشان کتاب میں تفصیلاََ سب کچھ درج کر دیا تو پھر کیا مسلم مرد وخواتین کے لیے ضروری نہیں ہو جاتا کہ وہ اِن احکامات کی پابندی کریں۔
اِن احکامات کی پابندی کرنے والوں کے لیے یوں خوشخبری دی گئی ” یقیناََ جو مرد اور عورتیں مسلم ہیں، مومن ہیں، فرماں بردار ہیں، راست باز ہیں، صابر ہیں، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں، اللہ نے اُن کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے (سورہ الاحزاب ٣٥)۔ اِسی سورہ میں یہی خوشخبری یوں دی گئی ”جو نیک عمل کرے گا خواہ وہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو، ایسے سب لوگ جنت میں داخل ہوں گے جہاں اُنہیں بے حساب رزق دیا جائے گا”۔ رَبِ لَم یزل نے تو راہیں متعین کر دیں اور حکمت کی عظیم الشان کتاب کو مکمل ضابطۂ حیات بنا کر بھیج دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ حضورِ اکرم ۖ نے اپنے آخری خطبے میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے فرمایا کہ وہ اُن کے درمیان اللہ کی کتاب چھوڑے جا رہے ہیں جسے اگروہ مضبوطی سے تھامے رکھیں گے تو قیامت تک گمراہ نہیں ہوںگے۔ ۔۔۔۔ مسلمانوں کے نزدیک تو قرآنِ مجید وفرقانِ حمید مکمل ضابطۂ حیات ہے۔ یہ الگ بات کہ یہی بات جب لبرل اور سیکولر بھائیوں کے سامنے کہی جاتی ہے تو اُن کی جبینیں شکن آلود ہو جاتی ہیں۔