تحریر : امتیاز علی شاکر اَن پڑھ بیوی نے شوہر سے سوال کیا کہ بیوی، وائف اور بیگم میں کیا فرق ہے شوہر نے جواب دیا، کچھ خاص نہیں یہ بھی انڈیا، بھارت اور ہندئو ستان کی طرح ایک ہی دشمن کے تین نام ہیں۔ لطیفے کی حد تک تو یہ بات مزے کی ہے پر حقیقت میں ہمیں ہمسایہ ملک ہمسایہ کا امن و سلامتی بھی اُسی طرح عزیز ہیں جس طرح بیوی، بیگم اور وائف۔ ہمسائے کے گھر آگ لگی ہوتواختلافات کے باجود بیٹھ کردیکھا نہیں جاتا بلکہ یہ سوچ کر کہ ہمسائے کا گھر جلتا رہا تو پھر اپنے گھر کو آگ لگنے میں دیر نہیں لگے گی فوری طور پر اُس آگ کو بجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہمسایہ کسی مذہب ،فرقے یا قبیلے سے تعلق رکھتا ہو،اُس کی سیاسی ہمدردیاں کسی بھی جماعت کے ساتھ ہوں۔ہمسایہ ہونے کے ناطے اُس کا سلوک انتہائی بُرا ہو۔خراب تعلقات کی بدولت دل خیال آتا ہے کہ اس گھر جل ہی جائے تو بہترہے پر جب آگ کی لپٹیں ہمسائے کے گھر ہوتی ہوئی اپنے گھر کی طرف بڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں تو سب اختلافات ایک طرف رکھتے ہوئے ہر کوئی ہمسائے کے گھر لگی آگ بجھانے کی کوشش کرتاہے۔کوئی دشمن بھی اپنے ہمسائے کے گھر کو آگ میں نہیں جھونک سکتا۔
وجہ بڑی سیدھی سی ہے کہ جب ہمسائے کا گھر جلے گا تو اپنا گھر بھی جل سکتا ہے۔آپ کے سامنے افغانستان کے حالات نے ہمسایہ ممالک کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔امریکہ ،افغان جنگ نے پُرامن پاکستان کو دہشتگردی کے حوالے کردیا ہے۔پچھلی ڈیڑھ دیہائی سے ہم تمام تر توانائیاں بروئے کار لانے کے باجود ابھی تک حالت جنگ میں ہیں ۔ہمارے کچھ جذباتی دوست بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں سے دل برداشتہ ہوکر دونوں طرف کے عوام کو ایک دوسرے کا دشمن قرار دے رہے ہیں جبکہ حقیقت مختلف ہے ۔سرحدکے اس پار اور اُس بسنے والے دشمن نہیں آپس میں بہن بھائی ہیں ۔مفاد پرست حکمران اس لئے سرحدوں پر کشیدگی پیدا کئے رکھتے ہیں کہ عوام کے جذبات سے کھیل سکیں ورنہ پُرامن بھارت پاکستان کیلئے اور پُرامن پاکستان بھارت کی سلامتی اور ترقی کیلئے ناگزیرہے۔میں سمجھتاہوں کہ پاک،بھارت تمام مسائل مل بیٹھ کر حل کئے جانے چاہئے۔
جہاں تک بات ہے مسئلہ کشمیر کی تو وہ کوئی بے جان گُڑیا نہیں ۔عالمی میڈیا کے سامنے کشمیری عوام کی رائے جان لی جائے اور اُن کو دنیا میں آزاد اور خود مختار زندگی گزارنے کا حق دے دیا جائے ،جو اُن کا قدرتی حق بھی ہے ۔وسائل پر جھگڑا کرنے کی بجائے مل کر نئے وسائل تلاش کئے جانے چاہئے ۔جو سرمایہ دونوں اطراف سے خطرناک ہتھیاروں کی خردوفروخت پر خرچ کیا جاتا ہے وہی سرمایہ جب انسانی فلاح و بہبود پر خرچ ہوگا تو دونوں اطراف کے عوام کا معیار زندگی بلند ہوگا۔خوف کے سائے میں زندگی گزارنے سے کہیں بہتر ہے کہ دشمنی چھوڑ دوستی کا چلن اختیار کیا جائے ۔جیت ،ہار کے دائرے سے نکل کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جنگ سے صرف تباہی حاصل ہوتی ہے۔پاکستان کی طرح ہمسایہ ملک بھارت بھی افغانستان میں اپنی جارا داری قائم کرنے کی بجائے پُرامن اور ترقی کرتاافغانستان بنانے کی کوشش کریں تو نہ صرف پاکستان،بھارت ،چین بلکہ پوری دنیا کیلئے بہتر ہوگا۔گزشتہ ڈیڑھ دیہائی سے افغانستان میں لگی آگ کی لپٹیں ہمسایہ ممالک کے چہروں کو جھلسا رہی ہیں۔افغان ،امریکہ جنگ میںپاکستان سب سے متاثر ہواتو بھارتی معشیت پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔پاکستان کے مقابلہ غربت،مہنگائی ،ناانصافی ،کرپشن ،لوٹ مار،غنڈہ گردی ،عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی سمیت دیگر بہت سے جرائم بھارت میں کہیں زیادہ ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ پاکستان کا میڈیا آزاد جبکہ بھارتی میڈیا کی حیثیت کٹ پتلی جیسی ہے۔
Pakistan Poverty
بھارتی میڈیا بھی مفاد پرست حکمرانوں کی زبان میں بات کرتا اور کوئی ایسا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا جہاں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کی گنجائش نکلتی ہو۔پاکستان نے نہ صرف ہمیشہ اپنے ہمسایہ ممالک اور دنیا پھر میں قیام امن کی کوششوں میں بھر پور حصہ لیا ہے بلکہ اب تک سب سے زیادہ قربانیاںبھی پاکستانیوں کا مقدر بنی ہیں۔وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے مشیر برائے خارجہ امور و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ چین اور پاکستان مضبوط ،محفوظ اور پُرامن افغانستان دیکھنا چاہتے ہیں،اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف دہشتگردی کیلئے استعمال نہیں ہونے دے گا،پاکستان اور ایران کے درمیان بہتر بارڈر مینجمنٹ کیلئے رابطے جاری ہیں ،پاک چین انسیٹیوٹ کے زیر اہتمام سہ ملکی سیمینار کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان سمیت خطے کے ممالک کے معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر کار بند ہے ،انہوں نے اُمید ظاہر کی خطے کے دیگر ممالک بھی اسے پالیسی پر کار بند رہیں تو بہتر ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف افغانستان میں استحکام چاہتے ہیںاور ملکی معیشت کی مضبوطی سمیت افغانستان میں بھی معاشی بہتی کے خواہاں ہیں۔وزیراعظم کے مشیر امور خارجہ و سلامتی سرتاج عزیز کی گفتگوسے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں لگی دہشتگردی کی آگ نے پاکستان کو جو نقصان پہنچا آئندہ اُس سے بچنے کا بہتر طریقہ یہی ہے کہ ہمسائے کے گھر میں لگی آگ کو دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے آگے بڑھ کر آگ بجھاناچاہئے تاکہ ہمسائے کا گھر خاکسترہونے تک کہیں اپنا آشیانہ نا جل جائے ۔جبکہ دوسری جانب بھارتی حکمران کسی پنجابی فلم کے ہیرو کی طرح بڑکیں مار رہے ہیں۔
بھارتی حکمران بھی پاکستان کی طرح لہجے میں نرمی پیدا کریں تومسائل کے حل میں مدد مل سکتی ہے۔راقم ایک محب وطن پاکستانی ہے،راقم بھی تمام ہم وطنوں کی طرح اپنے پیارے پاکستان کی خودمختاری اور سلامتی کے حوالے سے انتہائی جذباتی ہے پر جذبات میں آکر کوئی ایسا قدم اُٹھانے کا حامی نہیں جو ہمسائے کے گھر لگی آگ پر تیل کا کام کرے۔بھارتی حکمرانوں کی کھوکھلی بڑکیں اور پاکستان کا نرم لہجہ یہ بات واضع کررہا ہے کہ انتہاپسند کون ہے۔ خیرمیں سمجھتا ہوں کہ اہل قلم کو جلتی پر تیل ڈالنے کا کام چھوڑ آگ بجھانے میں اپنا قلمی کردار ادا کرنا چاہئے ۔قومی سلامتی اور خودمختاری کے فیصلے کبھی بھی جذبات میں آکر نہیں کئے جاتے لہٰذا کشمیرسمیت دیگر تمام مسائل کے حل کیلئے پاک بھارت مذاکرات ناگزیر ہیں ۔بھارت بھی پاکستان کی طرح ایک قدم آگے بڑھائے تو بہت جلد تمام معاملات پر اتفاق رائے کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف کے عوام کا معیار زندگی بہتر ہونا شروع ہوجائے گا۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر imtiazali470@gmail.com.03154174470