پاکستان میں نصف سے زیادہ آبادی کو صحت کی عام سہولتیں بھی میسر نہیں ہیں۔ صحت اور سلامتی کو درپیش خطرات اب ماضی کے مقابلے میں بڑی تیزی سے بڑھتے چلے آ رہے ہیں۔ صحت کے شعبے میں پاکستان کی صورت حال ابتر ہے۔ پاکستان میں اب بھی ملک بھر کے ہسپتالوں میں بستروں کی سہولیات ڈاکٹرز اور نرسوں کی تعداد کل آبادی کی ضروریات کے لحاظ سے بہت کم ہے۔ پاکستان میں ادویات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔سرکاری ہسپتالوں میں تعینات ڈاکٹر”پیسہ کمانے کی غرض سے مریضوں کو شام کو اپنے کلینک پر بلاتے ہیں۔ مریضوں کے لواحقین کو سخت ذہنی صدمے سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ دیہات کے اکثر سرکاری ہسپتالوں میں عملہ ہی نہیں ہوتا اگر ڈاکٹر موجود ہو تو ادویات نہیں ملتیں۔ مہنگائی کے اس دور میں غریب عوام کے لئے پرائیویٹ ڈاکٹر کے پاس جانا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ملک میں کچھ ایسے ادارے بھی کام کر رہے ہیں جو صرف اللہ کی رضا کے لئے غریبوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ دور دراز علاقوں میں جا کر میڈیکل کیمپ لگا کر مریضوں کا مفت علاج اور پھر ادویات جبکہ آپریشن بھی مفت کئے جاتے ہیں۔
ایسے ادارے ان عوام کے لئے ایک نعمت سے کم نہیں۔ ایسے اداروں میں سے ایک ادارہ فلاح انسانیت فائونڈیشن بھی ہے۔ گزشتہ روز فلاح انسانیت فائونڈیشن کے تحت لاہور میں ایک میڈیکل کانفرنس میں شرکت کا موقع ملا۔ کانفرنس سے امیر جماعة الدعوة پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید، جماعة الدعوة کے مرکزی رہنما حافظ عبدالرحمان مکی، پروفیسر ڈاکٹر عامر عزیز، پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال چوہدری، پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم، پروفیسر ڈاکٹر محمود شوکت، ہیومن رائٹس فار جسٹس اینڈ پیس کے چیئرمین حافظ محمد مسعود، فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف، پروفیسر ڈاکٹر خالد مسعود گوندل، پروفیسر ڈاکٹر منصور علی خاں، پروفیسر ڈاکٹر خالد قریشی، ڈاکٹر عمر علی خان، ڈاکٹر محمد اعجاز، ڈاکٹر ناصر ہمدانی، انجینئر محمد حارث ودیگر نے خطاب کیا۔ کانفرنس میں سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سے وابستہ ڈاکٹرز، پروفیسرز، سرجنز اور میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ طلباء نے شرکت کی۔ اس موقع پرمختلف سیشنز میں شعبہ طب سے متعلق کرنٹ افیئرز’آرتھو پیڈک کے پیچیدہ مسائل، بیسک لائف سپورٹ اوردیگر اہم موضوعات پر سائنٹیفیک سیشنز کا انعقاد کیا گیا۔ میڈیکل کانفرنس میں خواتین ڈاکٹرز کی بھی بڑی تعداد نے شرکت کی جن کیلئے پردہ کے الگ سے انتظامات کئے گئے تھے۔
Hafiz Mohammad Saeed
حافظ محمد سعید کا کہنا تھا کہ امریکہ ویورپ ریلیف سرگرمیوں میں حصہ لینے والے مسلمانوں کو بھی اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ جھوٹے اور بے بنیاد پرو پیگنڈہ سے مسلمانوں کے کردار کو مسخ کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ مسلمانوں کی قربانیوں کے نتیجہ میں دنیا کے حالات تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ مغرب کا دور ختم اور اسلام کا دور واپس آرہا ہے۔ ڈاکٹرز معاشرے کا اہم طبقہ ہیں۔ وہ افراد کی اسلامی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ہیں۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن اورمسلم میڈیکل مشن کے ڈاکٹرز پورے ملک میں امدادی سرگرمیوں کو وسعت دیں۔ دکھی انسانیت کی خدمت سے بلوچستان اور سندھ میں قومیت پرستی کی سوچیں ختم ہو رہی ہیں۔ ایک وقت تھا کہ مغرب کے پاس سب کچھ مسلمانوں سے جاتا تھا لیکن پھر اس کے بعد مغرب کہاں جا پہنچا ہے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں۔ ہم نے مغربی غلامی کا طوق گلے سے اتارنا ہے۔ میڈیکل کے شعبہ میں اسلامیت کو نمایاں کرنا ہے۔ جو رہنمائی ہمیں اسلامی شریعت سے ملتی ہے ہم نے اس کے مطابق کام کرنا ہے۔ ہمیں ایسے ادارے قائم کرنے چاہئیں جن سے ہم نوجوان نسل کی ذہن سازی کر سکیں۔ پورے معاشرے میں اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔
اس کیلئے ڈاکٹرز حضرات کو مل بیٹھ کر سوچنا چاہیے اور سینئر ڈاکٹرز کی ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہیے کہ ہم نے اسلامیت کو اس شعبہ میں لانے کیلئے کیا کردار اداکر نا ہے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے ڈاکٹرز اپنے شعبہ سے وابستہ ہر فرد میں ایک سچے مسلمان کا کردار اجاگر کریں۔ مجھے خوشی ہے کہ آج کی میڈیکل کانفرنس میں رسمی باتیں نہیں ہو رہیں بلکہ یہاں موجود ڈاکٹر ز میں احساس کی روشنی اور امید کی جھلک دکھائی دے رہی ہے۔ شورش زدہ علاقوں میں بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور میڈیکل مشن کے ذریعہ دعوت کا کام ہی موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ اسلام دشمن قوتیں مسلمانوں کے خدمت خلق کے جذبہ سے بھی خوفزدہ ہیں۔ مسلم میڈیکل مشن کے ڈاکٹرز اپنی ذمہ داریوں کو نبھائیں۔
Medical Conferences
لاہور کی طرح پاکستان کے دیگر شہروںمیں بھی اسی طرح کی میڈیکل کانفرنسیں اور سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا۔بلوچستان میں فلاح انسانیت فائونڈیشن اور مسلم میڈیکل مشن کی امدادی سرگرمیوں کے انتہائی دوررس اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ آپ لوگوں کی ریلیف سرگرمیوں سے غریب و مستحق افراد کی زندگیاں سنور رہی ہیں اور قومیت پرستی کی سوچیں ختم ہو رہی ہیں۔ بلوچستان کے سرداروں نے ہمیں مختلف علاقوں میںریلیف کا کام کرنے کو کہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگرچہ ہمارے پاس وسائل محدود ہیں لیکن ہم مصائب ومشکلات میں مبتلا اپنے بھائیوں کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ بلوچستان میں تعلیم و صحت کے منصوبہ جات کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ پاکستان کے نامور آرتھو پیڈک سرجن ڈاکٹر عامر عزیز نے کہا کہ ڈاکٹرز کو اپنے مریضوں کے ساتھ مخلص ہونا چاہئے۔
کسی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہونا چاہئے اللہ کا ڈر ہمارے دلوں میں ہونا چاہئے تا کہ مریضوں کو آپ پر اعتماد ہو۔ آپ اس سے ہمدردی دکھائیں اور مریضوں کے لئے کچھ کرنے کی کوشش کریں۔ انہوں نے کہا کہ مغرب کی ہر برائی ہم یہاں لا رہے ہیں مگر اچھائی نہیں، اسلام جن چیزوں سے منع کرتا ہے بد قسمتی سے وہ ہمارے ملک میں عام ہو رہی ہیں۔ ہمیں بہت زیادہ اصلاح کی ضرورت ہے۔ حافظ محمد مسعود اور فلاح انسانیت فائونڈیشن کے چیئرمین حافظ عبدالرئوف نے کہا کہ آج میڈیکل سائنس کے لئے ہم مسجد میں جمع ہیں جب مسلمانوں کا رشتہ مسجد سے جڑ جائے تو ساری دنیا مل کر بھی انہیں شکست نہیں دے سکتی۔ ڈاکٹرز علاج میں خیر خواہی کو شامل کر لیں، اچھے اخلاق کے ساتھ ڈاکٹر کو دین کی دعوت بھی دینی چاہئے۔ بلوچستان، سندھ سمیت ملک بھر میں جماعت کام کر رہی ہے۔ بلوچستان کے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں 900 گھر مکمل ہو چکے ہیں۔
مسلم میڈیکل مشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ظفر اقبال چوہدری نے کہا کہ بلوچستان، شمالی علاقہ جات و دیگربہت سے علاقوں میں لوگ ابتدائی طبی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ ڈاکٹرز اپنے دلوں میں خدمت خلق کا جذبہ پیدا کریں۔ یہ ہماری اسلامی ذمہ داری ہے۔ ہمیں کسی کو حقیر نہیں سمجھنا چاہیے۔ ڈاکٹر ناصر ہمدانی نے کہاکہ فلاح انسانیت فائونڈیشن کے ملک بھر میں چھ ہسپتال چل رہے ہیں۔ پونے دو سو سے زائد ڈسپنسریاں چل رہی ہیں جہاں ایک لاکھ سے زائد مریضوں کا ہر ماہ علاج معالجہ کیا جاتا ہے۔ بلوچستان میں ہم تعلیم و صحت کے بڑے منصوبہ جات پر کام کر رہے ہیں۔ ہم پورے ملک میں امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری رکھیں گے۔میڈیکل کانفرنس میں بلوچستان کے زلزلہ متاثرہ علاقے آواران کی ایک ویڈیو بھی دکھائی گئی جہاں کے لوگ آج اس ترقی یافتہ دور میں بھی بہت پیچھے ہیں، وہاں لوگوں کے پاس رہنے کے لئے کچے مکان ہیں، آواران کے باسیوں نے صرف ڈاکٹر کا نام سنا تھا۔ آواران بلوچستان کا ایک ضلع ہے، جہاں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال تو موجود تھا مگر ڈاکٹر نہیں تھا۔ ڈاکٹر ناصر ہمدانی نے بتایا کہ جب آواران میں ہم نے میڈیکل کیمپ لگایا تو قریب کے تمام گائوں سے لوگ جوق در جوق آرہے تھے لیکن ان میں مریض کوئی نہیں تھا جب ہم نے علاقے کے سردار سے پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ آج لوگ ڈاکٹر کو دیکھنے کے لئے آرہے ہیں۔
آج بھی آواران کی حالت نہیں بدلی۔ حکومت کو بلوچ بھائیوں کی محرومیاں دور کرنی چاہئے۔ فلاح انسانیت فائونڈیشن آواران میں مستقل بنیادوں پر وہاں ایجوکیشنل و ہیلتھ کمپلیکس تعمیر کر رہی ہے۔ جو لوگ اپنے دلوں میں دکھی انسانیت کا غم رکھتے ہیں ایسے مخیر حضرات کو بڑھ چڑھ کو ایسے اداروں کی مدد کرنی چاہئے جون کا مقصود اقتدار یا کرسی و ذاتی مفاد نہیں بلکہ رب کی رضا ہے،اسی سے ہی ہماری کامیابی ممکن ہے۔