حالت اور حالات

Condition

Condition

تحریر: ایم سرور صدیقی
آدھی رات کا وقت تھا لوگ گھروںمیں آرام کررہے تھے ماحول پرایک ہو کا عالم طاری تھا اندھیرا اتنا کہ ہاتھ کو ہاتھ سجائی نہ دے رہاتھا بیشتر گھروں میں تاریکی تھی غالباً زیادہ تر لوگ سو گئے تھے اکا دکا گھروںمیں زردی مائل روشنی بکھری ہوئی تھی اس عالم میں ایک باوقار شخص ،نورانی صورت ،چہرے پر سختی نمایاں، شکل و صورت ایسی کہ انہیں دیکھ کر ایمان تازہ ہو جائے وہ مختلف گلیوں اور بازاروںسے ہوتے ہی ایک مکان کے آگے رک گئے روشندان سے باہر جھانکتی روشنی سے محسوس ہورہاتھا کہ دیا ٹمٹا رہاہے کھڑکی سے باتیں کرنے کی مدہم مدہم آوازیں آرہی تھی نورانی صورت والے نے کان کھڑکی کے ساتھ لگا دئیے کوئی لڑکی اپنی والدہ سے کہہ رہی تھی ”ہم کب تک فاقے کرتے رہیں خلیفہ کو اپنا حال بتانے میں کیا امر مانع ہے؟ ” میں عمر کو کیوں بتائوں؟ بوڑھی عورت استکامت سے بولی وہ خلیفہ بنے ہیں تو انہیں ہماری خبرہونے چاہیے لڑکی اپنی والدہ کو پھر سمجھانے لگ گئی۔۔۔ان کی باتیں سن کر کھڑکی سے کان لگائے نورانی صورت والا کانپ کانپ گیا ۔۔۔اس نے بے اختیار دروازے پر دستک دیدی ۔۔۔ اس وقت۔۔ کون ؟ اندر سے ڈری۔۔ سہمی آواز میں کسی نے پوچھا
گبھرائیں مت۔۔۔

نورانی صورت والے نے بڑی متانت سے جواب دیا میں عمر کی طرف سے آیا ہوں۔۔۔دروازہ کھلاخاتون نے اسے اندر آنے کی اجازت دی اس نے خاتون کی خیریت اور حال احوال دریافت کیالڑکی کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اس نے فرفر انہیں اپنے فاقوںکااحوال کہہ ڈالا ” عمر کی طرف سے میں معذرت چاہتاہوں ۔نورانی صورت والے نے بڑے رقت آمیز لہجے میں خاتون کو کہا۔۔ لیکن اسلامی سلطنت بڑی ہے وہ کہاں کہاں توجہ دیں ؟جواب میں خاتون نے وہ بات کہہ ڈالی جس کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی ۔۔۔” عمر اگر توجہ نہیں دے سکتا تو اتنی فتوحات کیوں کئے جارہا ہے؟رب کو کیا جواب دے گا؟ ”ماںجی ! ۔نورانی صورت والا کہنے لگا ” عمر کو معاف کردیں ”کیوں۔۔۔معاف کردوں ؟خاتون نے جواب دیا وہ کون سامیری خبر گیری کو آیا ہے”ماںجی ۔۔ نورانی صورت والے نے مضطرب ہوکر پہلو بدلا۔۔اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس نے اٹک اٹک کرکہا میں ہی عمر ہوں۔۔۔۔ وہ شخصیت جس کے نام سے قیصرو کسریٰ جیسی عالمی طاقتیں تھر تھر کاپتی تھیں ایک عام خاتون کے سامنے جوابدہ اندازمیں کھڑے تھے خاتون کے چہرے پر قوس قزح کے کئی رنگ بکھر کئے بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھ کھڑی ہوئی بولی اگر تم عمر ہو تو مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں دیر سے آئے ہو لیکن کوئی بات نہیں مسلمانوںکا خلیفہ ایسا ہی ہونا چاہیے جو راتوں کو جاگ جاگ کر لوگوںکی خبر گیری کرتا رہے۔۔۔

اسی جلیل القدر کا ایک قول ہے ” اگر دجلہ کے کنارے کتا بھی بھوکا مر جائے تو قیامت کے روز خدا کے حضور عمر جوابدہ ہوگا” دنیا آج تک حکمرانی کا ایک دعویٰ۔ ایسا منشوراور ایسی مثال پیش کرنے سے قاصرہے پانچویںمغل بادشاہ شہاب الدین محمدشاہ جہاں کو۔۔۔ کون نہیں جانتا دنیا کے سات عجائب میں شامل ایک عجوبہ تاج محل اسی نے تعمیر کروایا تھا لاہورکا شالامارباغ ،جامعہ مسجد اور لال قلعہ دہلی بھی اسی کے شاہکارہیں شاہ جہاں اپنے بڑے بیٹے داراشکوہ کو اپنا جانشین بنانا چاہتا تھا لیکن دوسرے بیٹے اورنگ زیب عالمگیر نے اپنی فہم و فراست ،بہتر منصوبہ بندی اور جنگی حکمت ِ عملی سے نہ صرف اپنے حریف داراشکوہ کو شکست سے دوچارکردیا اس جنگ میں داراشکوہ مارا گیا بلکہ اورنگ زیب عالمگیر نے اپنے والدشاہ جہاں کو گرفتارکرکے گوالیارکے قلعہ میں قید کردیا اورنگ زیب عالمگیرہرماہ اپنے باپ کی خبر گیری کیلئے اس سے ملنے جایا کرتا تھا ایک مرتبہ ملاقات کے دوران شاہ جہاں نے اپنے بیٹے سے کہا”اس قید ِ تنہائی سے میں تنگ آگیاہوں وقت ہے کہ گذرتاہی نہیں کچھ بچے قلعہ میں بھیج دیں میں ان کو پڑھا لکھا کر دل لگا لوں گا۔۔۔

Aurangzeb

Aurangzeb

یہ سن کر اورنگ زیب عالمگیر مسکرایا اور شاہ جہاں کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر جو الفاظ کہے وہ تاریخ بن گئی ۔۔ اورنگ زیب نے کہا ”قید میں بھی بادشاہت کی خو نہیں گئی اب آپ بچوں پر حکومت کرنا چاہتے ہیں”۔۔ تاریخ کے سینے میں دفن یہ دو مثالیں بتاتی ہیں حکمرانی کا انداز کیساہوتاہے ۔ حقیقتاً حکومت ہے ہی ایسی چیز جس سے دل بھرتا ہی نہیں ۔۔حکومت کے حق اور مخالفت میں لوگ ہی نہیں سوچیں بھی تقسیم ہو جاتی ہیں ہر گھر میں بحث،مباحثہ ہر گھر میں اپوزیشن۔۔۔ پاکستان میں یہی کچھ ہوتا آیاہے اور یہی کچھ ہونے والا ہے محرومیاں عوام کا مقدر ہیں ۔۔حکمران جماعت سے وابستہ لوگ اپو زیشن کی اس طرز ِ سیاست کے سخت خلاف ہیں ان کا خیال ہے کہ حالات جو بھی ہوں جمہوری نظام چلتے رہنا ہی سسٹم کی کامیابی ہے پاکستان میں اب تلک درجن بھر صدور اور وزارت ِ عظمیٰ پر فائز ہوچکے ہیں ہر حکمران کو یہ” کریڈٹ ”حاصل ہے کہ اس کا کبھی کوئی غیرملکی دورہ ناکام نہیں ہوا۔۔۔

ہر حکمران کا دعوےٰ ہے کہ اس نے عوام کیلئے اپنے اچھے اچھے کام کئے ہیں کہ ان کا نام تاریخ میں امر ہوگیا۔۔۔تقریباً ہرحکمران کا کہنا ہے اس نے اتنے تاریخی اقدامات کئے ہیں کہ اب ملک میں غربت ختم ہوہی جائے گی۔۔۔اتنے دعوے۔۔ سارے وعدے۔۔۔اورہزارہا منصوبے تقریروں، خطابات اور کاغذوںمیں دفن ہوگئے۔۔حکمرانوںکے اثاثے،عوام کی محرومیاں ، ہوشربامہنگائی، اذیت ناک بیروزگاری اور نفرتیں بڑھتی ہی چلی گئیں کسی نے بھی مربوط حکمت ِ عملی یا ٹھوس منصوبہ بندی نہیںکی۔ڈھیلے ڈھالے اقدامات،بااثر شخصیات اور کرپشن نے قانون کو مفلوج کرکے رکھ دیابھٹوکو عوام نے فخر ِ ایشیا،ضیاء الحق کو مرد ِ مومن مرد ِ حق۔۔میاں نواز شریف کو قائد ِ اعظم کا جانشین، شیرشاہ سوری،صدر زرداری کو سب پہ بھاری کا خطاب دیا اور میاں شہباز شریف کومرد ِ آہن اور نہ جانے کون کون سے القاب دے ڈالے۔۔۔

ملک کی تقریباً ہر سیاسی جماعت کو اقتدار دیکر ازمایا لیکن مسائل حل ہوئے نہ عوام کی حالت بدلی حالانکہ ہر رہنما خودکو پارس سمجھتاہے۔۔ہر سیاستدان اپنے آپ کو پاکستان کیلئے ناگزیر قرار دیتاہے۔۔ہر پارٹی کے پاس لمبے چوڑے منشور ہیں۔۔ہرحکمران کی جیب میں اعدادوشمار سے عوام کو ریلیف دینے کا جادو موجودہے پھر ہر چہرہ مایوس،ہر دل افسردہ اورہرشخص پریشان کیوں ہے؟ اب سوال یہ ہے کہ عوام نے جن کو اپنا رہبر و رہنما بنایاہے ان کی بدولت عام آدمی کی حالت کیوں نہیں بدلتی؟ غربت عوام کا مقدر ،بے بسی ان کی تقدیرکیوں بن گئی ہے؟۔ اس سوال کا جواب جس دن حکمرانوں سے تلاش کرنے کی جستجوکی عوام کی حالت اور ملکی حالات بہترہوجائیں گے۔

M Sarwar Siddiqui

M Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی

Aurangzeb Âlamgir

Aurangzeb Âlamgir