قربانی کا موسم

Nawaz Sharif

Nawaz Sharif

12 اکتوبر 1999ء اور 23 جون 2014ء میں ایک مماثلت ہے دونوں ادوار میں میاں نواز شریف وزیراعظم اور میاں شہباز شریف وزیر ِ اعلیٰ۔۔۔شاید تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے 15 سال پہلے جنرل پرویز مشرف کا جہاز ائیر پورٹ پر لینڈنگ کیلئے چکر لگارہا تھا اور آج شیخ الاسلام پروفیسرطاہرالقادری اسلام آباد اترنے کیلئے بے چین۔۔

ائیر پورٹ کے اوپر 9 چکر لگانے کے باوجود لینڈنگ کی اجازت نہ ملی بالآخر ایمریٹس طیارے کا رخ لاہورکی جانب موڑ دیا گیا اس دوران اسلام آباد میں عوامی تحریک کے ہزاروں کارکنوں اور پولیس کے درمیان آنکھ مچولی ہوتی رہی اکا دکا جھڑپیں بھی ہوئیں شکرہے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا حکومت کے حامی کہتے ہیں 12اکتوبر1999ء کو جمہوریت کی بساط لپیٹ دی گئی اور آج پھر ایسا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس کیلئے شیخ الاسلام آلہ ٔ کار بنے ہوئے ہیں احتجاجی سیاست کے ذریعے غیر جمہوری قوتیں اپنی من مانی کرنا چاہتی ہیں جو ملک،قوم اور جمہوریت کیلئے ہرگز نیک شگون نہیں ہے جس کو تبدیلی کا شوق ہے۔

وہ سیاست آئے، ووٹ کے بل بوتے پر پارلیمنٹ میں آئے اکثریت ہے تو حکومت بنالے کسی کو جمہوریت پر ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ یہ سب باتیں بجا لیکن اس بات کا کیا کیجئے کہ طاہر القادری کے” انقلاب” کو خود حکومت نے ایک درجن سے زائد بے گناہوںکا خون مہیا کر کے آسان بنادیاہے۔۔۔حکومت مخالف سب جماعتیں عوامی تحریک کے ساتھ ہیں ۔۔۔سانحہ ٔ لاہورکے باعث عوام کے دل میں طاہر القادری کیلئے نرم گوشہ پیدا ہو گیاہے اورپھر نظام بدلنے کی جو باتیں تواترسے شیخ الاسلام کررہے ہیں یہ عوام کی محرومیوںکو زبان ملنے والی بات ہے۔

واقعی اس سسٹم سے کوئی بہتری آہی نہیں سکتی عوام کے وہی مسائل ، وہی محرومیاں اور آہ و بکا ہے تھانہ ، کچہری اور عدالتوںمیں انصاف کی صورت ِ حال سب کے سامنے ہے عام آدمی کی کہیں شنوائی نہیں ، حد ہے جمہوریت میں بھی لوگوں کے بنیادی حقوق صلب ہوں اور بہتری کی کوئی امید نہ ہو ۔۔ یہ تمام تر عوامل ایسے ہیں جس سے جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک کبھی نہیں پہنچے اگر طاہرالقادری اس کرپٹ نظام کو تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں تو عام آدمی کی ہمدردیاں یقینا ان کے حصہ میں آرہی ہیں لوگ تو متاثر ہورہے ہیں۔

یہ الگ بات کہ طاہر القادری بھی عوام کی امیدوں اور توقعات پر پورے اترتے ہیں یا نہیں یہ بہت بعد کی بات ہے ابھی تو وہ خود یا ان کی جماعت کا پارلیمنٹ میں کوئی وجود ہی نہیں۔وہ تبدیلی کیسے لائیں گے اس کی کوئی وضاحت نہیں کیا وہ مڈٹرم الیکشن چاہتے ہیں یا ان کے پاس کوئی اور فارمولا ہے درمیانی مدت کے الیکشن کیسے ہوں گے؟ کوئی نہیں جانتا ۔۔پھر سب سے بڑھ کر شیخ الاسلام جس انقلاب کی بات کرتے ہیں اس کا ناک نقشہ کیا ہے ۔۔وہ کیسے آئے گا ؟ یہ بھی وضاحت طلب ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں عوام موجودہ نظام سے عاجز آئے ہوئے ہیں جس میں گذشتہ نصف صدی سے صرف چہرے تبدیل ہوتے ہیں سسٹم وہی رہتا ہے۔

ہر آنے والے حکمران کے دور میں عوام کا استحصال جاری رہتاہے در حقیقت عوام کو کسی نجات دہندہ کی تلاش ہے جو بھی لیڈر خوشنما باتیں، بلند و بانگ دعوے اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر پروگرام پیش کرتاہے ہم آوے ای آوے کے نعرے لگاتے اس کے پیچھے لگ جاتے ہیں اس حالات وواقعات میںیہ الگ داستان ہے کہ مسلم لیگ ن کے نادان دوستوں کی پے در پے غلطیوں نے پارلیمنٹ میں نہ ہونے کے باوجود طاہر القادری کو لیڈر بناڈالا اب تک کے واقعات کے مطابق طاہر القادری ن لیگ کے بھاری بھرکم مینڈیٹ اور وفاق اور پنجاب میں حکمرانی پر بھاری ثابت ہوئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بات خوش آئندہے کہ میاں صاحب کے اتحادی اب تلک ان کے ساتھ ہیں حالانکہ سنا ہے۔

Democracy

Democracy

برے وقت میں سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتاہے پھر مرد ِحرآصف زرداری کا کیوں اصرارہے کہ وہ آخر وقت تک میاں نوازشریف کا ساتھ دیتے رہیں گے اندرکی کہائی کیاہے فی الحال یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جا سکتا اس کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا کہ یہ ان کی جمہوریت کیلئے قربانی ہے ۔۔۔کوئی سیاسی چال یا پھر مسلم لیگ ن سے مک مکا؟۔بہرحال میاں نوازشریف کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیاست میں کوئی چیز حرف ِ آخر نہیں ہوتی آصف زرداری ضروری نہیں جو وعدہ کریں ایفا بھی کریں ان کے نزدیک وعدہ۔۔ وعدہ ہے کوئی قرآن و حدیث تھوڑی ہے۔

ان دنوں بارش کی رم جھم میں موسم کا درجہ حرارت تو قدرے کم ہوگیا ہے لیکن شیخ الاسلام پروفیسرطاہرالقادری کی وطن واپسی نے سیاسی ٹمپریچر میں اضافہ کردیا جس سے حکمرانوںکو بخار چڑھ گیاہے ۔شاید پھر تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے تاریخ میں ایسا ہوتا رہتاہے لیکن بدقسمتی سے اس سے کوئی سبق حاصل کرنا پسند نہیں کرتا کچھ لوگوںکا کہناہے ایک بات دل کو لگتی ہے شیخ الاسلام کی ہنگامہ خیز واپسی اس انداز سے ہوئی ہے جیسے ٹارزن کی واپسی ہوتی ہے ۔۔۔ لیکن ایک بات عوام میں یہ بھی گردش کررہی ہے کہ نئے لندن پلان کے تحت تمام سیاسی یتیم، اینٹی نواز شریف پارٹیاں، مایوس سیاستدان اور جن کے پاس تانگے کی بھی سواریاں نہیں ہیں وہ سب کے سب طاہر القادری کے ارد گرداکھٹے ہونا شروع ہوگئے ہیں یہ لوگ ہر ڈکٹیٹر کے ساتھی رہے ہیں۔

یہ لوگ اس کی آڑمیں اپنی دم توڑتی سیاست چمکانا چاہتے ہیں اس وقت ملک نازک صورت ِ حال سے گذررہاہے یہ خیال بھی گردش کررہا ہے چونکہ دہشت گردوں کے خلاف فوجی اپریشن کیا جارہا ہے اس لئے اس سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ ٹوپی ڈرامہ رچایا جارہاہے دوسری طرف ناکام سیاستدان احتجاجی سیاست کے ذریعے ملکی حالات خراب کرنا چاہتے ہیں۔۔۔بہرحال موجودہ سیاسی منظر نامہ میاں نوازشریف کی حکومت کیلئے امتحان ہے جس میں ابتدائی طورپر موجودہ حکمران ناکام ہوگئے ہیںفی الوقت ملکی سیاست، بحث و مباحثے اورہر محفل کا مرکزو محور شیخ الاسلام ہیں جو بڑی خوبصورتی سے حکومت، سیاست، معیشت ،پارلیمنٹ الغرض ہر چیزپر حاوی ہوگئے ہیں جس انداز سے لاہور میں ان کے درجن بھر کارکنوں کو بیدردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا اخلاقی طورپر ان کی برتری ہے۔

ذہنی طورپر حکمران بھی ان سے مرعوب ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے اسلام آباد سے ایمریٹس کا رخ لاہورکی جانب موڑ دیا گیا لگتا ہے پہلے روزے تک ہلا گلا ہوتا رہے گا یہ بات قابل ِ ذکرہے کہ طاہر القادری ابھی وطن واپس بھی نہیں پہنچے تھے کہ میاں شہباز شریف کو اپنے دو چہیتے قربان کرنا پڑے شنیدہے ابھی اوربھی قربانیاں ہوں گی جس کے باعث حکومتی حواریوںکی ہوایاں اڑی ہوئی ہیں اور وہ ڈرے ڈرے ۔سہمے سہمے پھرتے ہیں اپنے شیخ رشید بھی کچھ عرصہ سے قربانی کی بات تواتر سے کررہے ہیں عیدالاضحی میں تو کئی ماہ پڑے ہیں شاید سیاسی قربانی کا موسم آن پہنچاہے کیوں شیخ صاحب کیا خیال ہے آپ کا؟

Sarwar Siddiqui

Sarwar Siddiqui

تحریر: ایم سرور صدیقی