بغداد (جیوڈیسک) عراق کی سکیورٹی فورسز نے شمالی شہر موصل کے مغربی حصے کو بازیاب کرانے کے لیے داعش کے خلاف لڑائی عارضی طور پر روک دی ہے اور اس نے یہ فیصلہ شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے پیش نظر کیا ہے۔
عراق کی وفاقی پولیس کے ترجمان نے ہفتے کے روز ایک بیان میں کہا ہے کہ ’’ موصل کے قدیم شہر میں شہریوں کی ہلاکتوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر ہم جنگی کارروائیوں کو روکنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ نئے جنگی منصوبوں اور حربوں پر غور کیا جائے۔فی الحال (داعش کے خلاف) کوئی جنگی کارروائیاں نہیں کی جارہی ہیں۔
ترجمان کا کہنا ہے:’’ ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ داعش کو قدیم شہر سے نکال باہر کرنے کی کارروائی میں شہریوں کی ہلاکتیں نہ ہوں۔ہمیں داعش کو ٹھیک ٹھیک ہدف بنانے کے لیے سرجیکل کارروائیوں کی ضرورت ہے تاکہ مکینوں کا بالکل بھی ضمنی جانی نقصان نہ ہو‘‘۔
مغربی موصل سے جانیں بچا کر راہ فرار اختیار کرنے والے مکینوں نے بتایا ہے کہ عراقی طیاروں اور امریکا کی قیادت میں اتحاد کے فضائی حملوں میں بہت زیادہ عمارتیں اور مکانات ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں اور ان میں شہریوں کی سیکڑوں کی تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا ہے کہ داعش کے جنگجو شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کررہے ہیں اور اگر وہ ان کے زیر قبضہ علاقوں سے بھاگ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو انھیں گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔
مقامی حکام اور شہر کے مکینوں نے جمعرات کے روز بتایا تھا کہ داعش کے خلاف ایک فضائی حملے میں متعدد عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن گئی تھیں اور زوردار دھماکے ہوئے تھے جس کے نتیجے میں بیسیوں افراد ہلاک ہوگئے تھے اور ابھی تک تباہ شدہ عمارتوں کے ملبوں سے لاشیں نکالی جارہی ہیں۔ امریکی اتحاد کا کہنا ہے کہ اس فضائی حملے میں تباہ کاریوں کی تحقیقات کی جارہی ہے۔
عراقی فوج نےسرکاری روزنامے الصباح میں شائع شدہ ایک بیان میں کہا ہے کہ اب موصل کے مغربی حصے میں مزید کارروائیاں اعلیٰ تربیت یافتہ زمینی دستے کریں گے اور شہریوں کے جانی تحفظ کو یقینی بنایا جائے گا۔موصل کی تنگ وتاریک گلیوں میں عراقی فورسز کو داعش کی سخت مزاحمت کا سامنا ہے۔
دریں اثناء امریکی فوج کے بریگیڈئیر جنرل جان رچرڈسن نے برطانوی خبررساں ادارے رائیٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ شہریوں کی ہلاکتوں سے بچاؤ’’ جنگی حربے میں تبدیلی ہی میں مضمر ہوسکتا ہے۔عراقی فوج قدیم شہر کو الگ تھلگ کرنے کے لیے داعش کے خلاف ایک اور جنگی محاذ کھولنے پر غور کررہی ہے‘‘۔
دریائے دجلہ کے مغربی کنارے میں واقع موصل کے غربی حصے میں اس وقت چھے لاکھ کے لگ بھگ شہری موجود ہیں اور ان کی وجہ سے عراقی فورسز کو گنجان آباد علاقوں میں داعش کے خلاف کارروائی میں دشواری کا سامنا ہے۔شہر میں صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔مکینوں کو پانی ،بجلی اور خوراک کی عدم دستیابی کا سامنا ہے اور ہر دم موت ان کا تعاقب کررہی ہے۔
قدیم شہر میں داعش کے مضبوط گڑھ نوری مسجد کے ارد گرد کی عمارتوں کی چھتوں پر ماہر نشانہ بازوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔حالیہ دنوں میں وہ چھتوں سے عراقی فورسز کی جانب فائر کرتے رہے ہیں جبکہ عراقی اور امریکی اتحاد کے لڑاکا طیارے انھیں فضائی حملوں میں نشانہ بناتے رہے ہیں جن میں داعش کا کم اور عام شہریوں کا زیادہ جانی نقصان ہوا ہے۔
عراقی رصدگاہ برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ مغربی موصل میں داعش کے خلاف 19 فروری کو مہم کے آغاز کے بعد سے غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق سات سو کے لگ بھگ شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔وہ عراقی فورسز اور داعش کے درمیان لڑائی میں مارے گئے ہیں یا پھر اتحادی فوج کے فضائی حملوں میں ہدف بنے ہیں۔
نوری مسجد کو داعش کے لیے ایک بڑی علامتی حیثیت حاصل ہے۔اگر اس مسجد پر عراقی فورسز کا قبضہ ہوجاتا ہے تو یہ داعش کے لیے بڑا دھچکا ہوگا اور ایک طرح سے اس کی شکست کا مظہر بھی ہوگا کیونکہ یہیں سے داعش کے خلیفہ ابوبکر البغدادی نے جون 2014ء میں اپنی خلافت کا اعلان کیا تھا اور پھر داعش کے جنگجوؤں نے آناً فاناً عراق اور شام کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کر لیا تھا۔ابوبکر البغدادی مبینہ طور پر اپنے قابل اعتماد ساتھیوں کے ساتھ موصل سے فرار ہوچکے ہیں اور وہ عراق اور شام کے درمیان واقع علاقے میں کہیں چھپے ہوسکتے ہیں۔