پچھلے ہفتے انتہائی نجی دورے پر لاہور جانا ہواتو میٹرو بس پر سفر کرنے کا بھی اتفاق ہوا۔ کلمہ چوک سے گجو متہ تک اس بڑے سائز کے بس میں سفر کیا۔یہ سفر چند خامیوں کے ساتھ انتہائی دلچسپ اور خوشگواررہا۔ اور میں اس بات کو ضرور یہاں تحریر کرنا چاہوں گا کہ جو لوگ اس روٹ کو جنگلہ بس سروس اور دوسرے القابات سے نوازتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ یہ سروس بلاشبہ عوام الناس کے لئے بہت سود مند ہے۔سیاسی بازیگری اپنی جگہ مگر جہاں عوام کے لئے اچھے کام ہوں تو اسے سراہنا بھی سیاست کا حصہ ہونا چاہیئے۔
بیس روپے کے ٹوکن میں شروع سے آخر تک کا سفر انتہائی آرام دہ ہے۔ نئے لوگ جو اس بس میں سفر کرتے ہیں انہیں ایک تو کسی سے اپنی مطلوبہ جگہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں رہتی وہ خود ہی اپنی منزلِ مقصود پر پہنچ جاتا ہے۔خامیوں کا اگر ذکر کیا جائے تو سب سے پہلی خامی تو ٹوکن کا جلدی جلدی جاری نہ ہونا ہے۔ لوگ گھنٹوں قطار میں کھڑے رہتے ہیں پھر یہ آواز آتی ہے کہ ٹوکن ختم ہوگیا ہے انتظار کریں۔ یہ امر نہایت تکلیف دہ بھی ہے اور حکومتی نقصان کا پیش خیمہ بھی۔ ٹوکن کے لئے ایک سے زائد کاؤنٹر ہونے چاہئیں تاکہ جلدی جلدی ٹوکن جاری ہو سکے۔ دوسری خامی یہ ہے کہ بسیں رات ساڑھے دس بجے کے بعد دستیاب نہیں ہوتیں جسے کم از کم رات بارہ بجے تک چلنی چاہیئے۔
میٹرو بس کوریڈور بھی شاندار بنائے گئے ہیں۔ بسیں واقعی ہر تین منٹ بعد دستیاب ہو جاتی ہیں۔ بس میں الیکٹرانک ٹکٹ کا نظام اچھا ہے اور بس میں کوئی کنڈکٹر نہیں ہے ۔گجو متہ سے شاہدرہ تک کا ٹریک غیر ملکی کمپنی کے سروے کی روشنی میں تعمیر کئے گئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابع گجو متہ سے شاہدرہ تک سب سے زیادہ لوگ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کرکے شہر کے وسط تک پہنچتے ہیں۔ ابھی مزید روٹوں پر بھی اسی طرح کے تیز رفتار ٹریک تعمیر کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ وزیراعظم سے امید ہے کہ وہ اس طرح کی ٹرانسپورٹ سروس کو پاکستان کے دل میگا سٹی کراچی میں بھی جلد متعارف کرائیں گے۔سنا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے لاہور شہر موہن جو دڑو کا نقشہ پیش کر رہا تھا مگر اب اس بس سروس کی افتتاح کے بعد شہر خوبصورت منظر میں تبدیل ہو گیا ہے۔
یعنی کہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کچھ عرصے کی تکلیف کے بعد ہی راحت ملتی ہے۔ویسے خامیوں میں یہ بھی ہے کہ گرمیوں میں ان بسوں کے اے سی بند ہو جاتے ہیں ۔ ایک خبر یہ بھی پڑھا گیا تھا کہ ان بسوں کے انجن گرم ہوجاتے ہیں اور اس میں الارم بھی بجنے لگتے ہیں۔ اس صورتحال پر مسافروں کی طرف سے دم گھٹنے کے شکایت کے باعث ڈرائیوروں کے ساتھ بدتمیزی کے واقعات بھی رونما ہو چکے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث میٹرو کمپنی البیراک کی انتظامیہ سر پکڑ کر بیٹھ گئی تھی۔ اس لئے گرمیوں میں ان تکالیف کا ازالہ کیا جائے تاکہ مسافروں کو آرام دہ سفر مہیاہو سکے۔ذرائع سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ میٹرو بسیں چالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے زائد گرمی کی شدت میں اے سی نہیں چلا سکتی ہیں۔
میٹرو بس سروس بلاشبہ ترقی کے سفر میں اچھا قدم ہے مگر حکومت کو صحت اور تعلیم کے علاوہ بے روزگاری پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے انسانی وسائل کی ترقی پر ابھی تک توجہ نہیں دی۔ پاکستان صحت، تعلیم ، بے روزگاری اور کم آمدنی کے اعتبار سے خطے کا غریب ترین ملک بن گیا ہے۔ انسانی ترقی سے متعلق اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت کے شعبے صوبائی حکومتوں کے پاس ہیں، جن کی ترقی کے لئے خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے گئے، اور انسانی ترقی کے انڈیکس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، رپورٹ کے مطابق دنیا کے دو ارب بیس کروڑ افراد کو انتہائی غربت، تعلیم اور صحت کے بنیادی مسائل کا سامنا ہے، اور مالی بحران ان کے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔
Karachi
کراچی میں بحریہ ٹاؤن والے بھی پچیس ارب روپے کی خطیر لاگت سے کراچی میٹرو بس سروس (Bus Rapid Transit System) متعارف کرا رہی ہے۔ جس کے تمام اخراجات بحریہ ٹاؤن خود برداشت کرے گا اور حکومت کا کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوگا۔ ان میٹرو بس کا روٹ بحریہ ٹاؤن کراچی سے ایئرپورٹ اور ٹاور تک رکھنے کا پلان ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کب تک یہ منصوبہ مکمل ہوتا ہے اور کب عوام الناس اس سفر کے قابل ہو نگے۔
وزیراعظم نے کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کا اندازہ کرتے ہوئے وفاقی حکومت کی طرف سے پندرہ ارب روپے کی لاگت سے گرین لائن بس پراجیکٹ کا اعلان کیا تھا۔ یہ سروس سرجانی ٹاؤن سے صدر کے درمیان پچیس کلو میٹر طویل چلائی جائے گی۔ شرکاء سے خطاب میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ گرین لائن بس سروس منصوبہ وفاقی حکومت خود بنا کر دے گی اور منصوبے کی مانیٹرنگ بھی کرے گی، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جس تیزی سے لاہور میٹرو بس پر کام ہوا، اسی تیزی سے کراچی میں بھی کام ہوگا جس میں روزانہ ساڑھے تین لاکھ افراد سفر کر سکیں گے، مگر یوں لگتا ہے کہ وہ اعلان صرف اعلان ہی تھا۔ اس پر مقررہ روٹ کے ارد گرد ابھی تک سناٹا ہے ۔ ابھی تک اس پر کام ہی شروع نہیں ہوا ہے ۔ تو مکمل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اب یہ خبر بھی گردش میں ہے کہ میٹرو بس سروس شاہدرہ سے کالا شاہ کاکو تک بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس توسیعی منصوبے پر ساٹھ کروڑ روپے سے زائد لاگت آئے گی۔ لاہور میں داخلی اور خارجی راستہ شاہدرہ پر ٹریفک کا بوجھ بڑھنے کی وجہ سے شہریوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس کے پیشِ نظر ایل ڈی اے نے شاہدرہ سے کالا شاہ کاکو تک ایکسپریس وے بنانے کے ساتھ ساتھ میٹرو بس سروس روٹ میں توسیع کا فیصلہ کیا ہے تاکہ شاہدرہ میں ٹریفک رش کو کسی حد تک کالا شاہ کاکو تک منتقل کیا جا سکے اور جو لوگ لاہور آ رہے ہیں وہ شاہدرہ اتر کر بسوں ویگنوں کے دھکے کھانے کی بجائے میٹرو بس پر بیٹھ کر گجو متہ اور اس کے راستے میں آنے والی جگہوں پر بغیر رکاوٹ جا سکیں۔
میٹرو بس منصوبے کے مطابق اس سے یومیہ پچاس ہزار افراد نے استفادہ کرنا تھا مگر مسافروں کی کثرت کے باعث مزید بیس میٹرو بسیں منگوانا پڑیں اور اب روزانہ اوسطاً دیڑھ لاکھ افراد میٹرو بس سے سفر کرتے ہیں۔ اس طرح کی سفری سہولیات ملک کے ہر بڑے شہروں میں لاؤنج کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے شہروں کے مکین جب کبھی لاہور جاکر یہ سفر کرتے ہونگے تو ان کے دل سے یہی آہ نکلتی ہوگی کہ کیا سب ترقیاتی منصوبے لاہور کا ہی مقدر ہیں؟ لیکن اس امید پر صبر کا دامن نہیں چھوڑتے کہ چلو لاہور بھی تو اپنا ہی دل ہے، اسے سنورنے اور نکھر جانے دیں آخر کبھی تو کراچی، حیدرآباد، سکھر اور دیگر شہروں کی باری بھی آئے گی۔ برق رفتار میٹرو سے شاید معاشرتی سوچ کا دھارا تو نہ بدل سکے مگر ان سفید پوشوں کی تقدیر ضرور بدل گئی ہے جنہیں جانوروں کی طرح ویگنوں اور بسوں میں ٹھونسا جاتا تھا۔ کولمبیا کے میئر نے کیا خوب کہا تھا کہ ترقی یافتہ ملک وہ نہیں ہوتا جہاں ہر غریب آدمی کے پاس کار ہو بلکہ ترقی یافتہ ملک وہ ہوتا ہے جہاں امیر پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کریں۔