تحریر: سید انور محمود جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کے والد مولانا مفتی محمود(1980-1895) ایک مذہبی رہنما اور سیاستدان تھے۔وہ کانگریس پارٹی کے سابقہ رکن اور جمیعت علمائے اسلام کے بانی رکن تھے، بڑئے فخر سے کہا کرتے تھے کہ وہ اور انکے ساتھی پاکستان بنانے کے گناہ میں شامل نہیں تھے۔ مفتی محمود کی 1980 میں وفات کے بعد جمعیت علمائے اسلام کی قیادت کے معاملے پر جھگڑا ہوگیا اور جمعیت کے دو گروپ بن گئے جس میں سے ایک کے سربراہ مفتی محمود کے صابزادے مولانافضل الرحمان بنے اور دوسرئے گروپ کے سربراہ مولانا سمیع الحق بنے۔ اب جمعیت علمائے اسلام کا ایک گروپ فضل الرحمان گروپ (ف)اور دوسرا سمیع الحق گروپ(س) کہلاتا ہے۔ ان دونوں گرپوں کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ دونوں دہشتگردوں کے حامی ہیں۔ آج تک دہشتگرد طالبان کے ہاتھوں پاک فوج کے افسروں اور اہلکاروں سمیت شہید ہونے والے 70 ہزار معصوم اور بے گناہ پاکستانیوں کو مولانا فضل الرحمن نے کبھی بھی شہید نہیں سمجھا اور نہ کہا۔ نومبر 2013 کے اوائل میں دہشت گرد طالبان کا سرغنہ حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تو جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن نے اْسے ’’شہید‘‘ قرار دیا۔ مولانا فضل الرحمن سے پوچھا گیا کہ ’’کیا آپ بھی حکیم اللہ محسود کو شہید سمجھتے ہیں؟‘‘ تو مولانا فضل الرحمن نے جواب میں کہا تھا کہ ’’اگر امریکہ کے ہاتھوں کوئی کْتا بھی مارا جائے تو میں اْس کْتے کو بھی ’’شہید‘‘ کہوں گا۔
مفتی محمود ایک انتاہی خود غرض سیاستدان تھے، مخالف پاکستان تھے لیکن سارئے فائدئے اسی پاکستان سے اٹھائے۔ ان کے سپوت مولانا فضل الرحمان ان سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے بارئے میں صاف کہا جاتا ہے کہ وہ ایک ابن الوقت سیاستدان ہیں، سیاسی گھٹ جوڑ اور مفادات کے حصول میں مولانا کا کوئی ثانی نہیں۔ مولانا کی سیاست مصلحت اور اقتدار کا دوسرا نام ہے، کسی زمانے میں انہوں نے افغان طالبان کے ساتھ اپنے تعلق کو بڑھا چڑھا کر پاکستان میں اپنی سیاست کو چمکانے کے لئے استعمال کیا اور کسی زمانے میں پاکستانی عسکریت پسندوں سے متعلق نرم رویہ رکھ کر مخالفین کو دھمکاتے رہے۔ مولانا کو پیپلز پارٹی سے لے کر مسلم لیگ(ن) تک ہر جماعت کے اقتدارسے اپنا حصہ وصول کرنے کا ہنر آتا ہے۔ مولانا ایک طرف تو آصف علی زرداری سے اپنی دوستی کا دم بھرتے ہیں تودوسری طرف نواز شریف کی حکومت میں وہ کشمیر کمیٹی کے چیرمین ہیں جس کی مراعات ایک وفاقی وزیر کے برابر ہیں، انکی پارٹی کے جنرل سکریٹری مولانا عبدالغفورحیدری سینٹ کے چیرمین ہیں اور بھی سرکاری پوسٹوں پر جمعیت علمائے اسلام (ف) کا قبضہ ہے۔
بیس اپریل کو پانامہ لیکس کا فیصلہ یہ آیا ہے کہ ابھی نوازشریف کی پانامہ لیکس کے گنہاوں سے جان نہیں چھوٹی ہے۔ نواز شریف جب سے پانامہ لیکس میں پھنسے ہیں انکے سارئے درباری وزرا اور انکی پارٹی کے بڑئے بڑئے ہمدرد سارئے کام چھوڑ کر یہ ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں کہ وہ معصوم ہیں ، لیکن ابھی تک وہ کامیاب نہیں ہوپارہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن بھی اپنے مفادات کو سامنے رکھ کرپوری طرح سے نواز شریف کا ساتھ دئے رہے ہیں۔ آنے والے 6 جون کو نواز شریف اپنے اقتدار کے 4 سال مکمل کرلینگے۔ 2018 انتخابات کا سال ہے اس لیے نواز شریف اور مولانا دونوں کو عوام کے پاس جانا ہے، دونوں ہی ابھی سے انتظام کررہے ہیں کہ پہلے سے زیادہ عوام کو بیوقوف کیسے بنایا جائے۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس انتخابات میں عوام کو اپنی طرف راغب کرنے کا کوئی پروگرام نہیں ہوتا ہے، انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں کہ پاکستان کے مزدور اورکسان زندگی کیسے گذار رہے ہیں، انکے بچے اسکول جاتے ہیں یا نہیں، انہیں اس بات سے بھی غرض نہیں پاکستان کے کتنے فیصد عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگئی گذار رہے ہیں۔ وہ مسافر بس کے اس دوکاندار کی طرح سے ہیں جو بس میں بہت ساری چورن کی پڑیاں لیکر آتا ہے جسکو وہ ہاجمولہ کا نام دیتا ہے اور سارئے مرض کا علاج اس چورن کی پڑیا کو بتاتا ہے ، اس کا کہنا ہوتا ہے کچھ بھی کھالو اس کے بعد میرا یہ ہاجمولہ کھالو سب ہضم ہوجائے گا، ساری بس تو نہیں لیکن کچھ بیوقوف ضرور اس پڑیا کو خریدتے ہیں اور دوکاندار کی دوکانداری کامیاب رہتی ہے، کہتے ہیں کہ عقلمند جب تک بھوکا نہیں مرتا جب تک بیوقوف زندہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کی سیاست کا کاروباربھی مسافر بس کے اس دوکاندار کی طرح ہے جو لوگوں کو اپنا ہاجمولہ بیچ کر کامیاب رہتا ہےاسی طرح مولانا اور مولانا کی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) مذہب کا چورن بیچتے ہیں، 2002 کے انتخابات سے اب تک مولانا کی جماعت کا انتخابی نشان ’’کتاب‘‘ ہے جس سے مولانا عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان کا انتخابی نشان ’’قران شریف‘‘ ہے، ایک مرتبہ الیکشن کمیشن نے اس کتاب کے نشان میں کچھ تبدیلی کی تو مولانا نے اسقدر شور کیا کہ الیکشن کمیشن کو اپنی تبدیلی واپس لینی پڑی۔ہر انتخابات سے پہلے مولانا مذہب کی دوکانداری شروع کردیتے ہیں، مولانا اپنی ہوشیاری اور چالاکی سے یہ تو پہلے ہی جانچ لیتے ہیں کہ اگلی مرتبہ اقتدار کے سنگھاسن پر کون سی جماعت بیٹھے گی، لہذا ان کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ اس جماعت سے انتخابی اتحاد کرلیں جو عام طور پر نہیں ہوتا، لہذا پھر مولانا اپنی مذہب کی دوکانداری شروع کرتے ہیں، مولانا کی دوکانداری کا خاص حدف صوبہ خیبر پختونخواہ اورصوبہ بلوچستان ہوتے ہیں، جہاں تعلیم یافتہ افراد کی تعداد بہت کم ہے، مولانا کی جماعت مذہب کے نام پر مختلف عنوانوں سے کانفرنس کرتی رہی ہے۔ 2001 سے 2017 تک جمعیت علمائے اسلام (ف) نے مندرجہ ذیل کانفرنسں کروائی ہیں:۔ اپریل 2001 ’’عالمی دیوبند کانفرنس‘‘ ہدف 2002 کے انتخابات تھے۔ دسمبر 2007 ’’اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ ہدف 2008 کے انتخابات تھے۔ مارچ 2013 ’’اسلام زندہ باد کانفرنس‘‘ ہدف 2013 کے انتخابات تھے۔ اپریل 2017 ’’صد سالہ جمیت کانفرنس‘‘ ہدف 2018 کے انتخابات اور بھی بہت کچھ۔
اگلے سال چونکہ انتخابات ہونے ہیں اس لیےاپریل 2017 میں جمعیت علمائے اسلام (ف) نے 7 تا 9 اپریل ایک تین روزہ سیاسی میلے کاانعقادصوبہ خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ میں کیا ،اس سیاسی میلے کو جمعیت علمائے اسلام(ف) نے ’’صد سالہ جمیت کانفرنس‘‘ کا نام دیا، اس تین روزہ اجتماع کو ’’صد سالہ جمیت کانفرنس‘‘ کے نام دینے پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہے کیونکہ تاریخ سے باعلم لوگ جانتے ہیں کہ 28دسمبر 1919 کو امرتسر میں مولانا عبدالباری فرنگی محل کی صدارت میں علماء کا ایک اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں جمعیت علمائے ہندکی بنیاد رکھی گئی ۔ اس کے بعد شاید 1941 میں پاکستان مخالف علما ء کی سیاست کو کنڑول کرنے کےلئے مولانا شبیر احمد عثمانی کی قیادت میں جمعیت علمائے اسلام نامی ایک اورمذہبی جماعت کی بنیاد ڈالی جو تحریک پاکستان کے حامی تھی۔ 28دسمبر 1919 کو بنے والی جمعیت علمائے اسلام کی عمر ابھی 98 سال ہے، جبکہ مولانا شبیر احمد عثمانی کی جمعیت علمائے اسلام کی عمر 76 سال ہے اوررہی بات مولانا مفتی محمود اور مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام کی تو وہ سو سال سے بہت دور ہیں، اب اگر مولانا یہ کہیں کہ ہجری کلینڈر سے سو سال ہوگے تو مولانا کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان میں انگلش کلینڈر چلتا ہے اور وہ بھی تمام کام انگلش کلینڈر کے مطابق کرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود جمعیت علمائے اسلام (ف) سوسال کی ہوگئی یہ زیادہ بہتر طریقے سے مولانا فضل الرحمن ہی بتا سکیں گئے کیونکہ مولانا سے زیادہ کون جانتا ہے کہ اپنے مفاد کے لیے کب کیا کرنا چاہیے۔