اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) حالیہ ہفتوں میں پاک بھارت کشیدگی کم کرنے کے لیے دونوں جانب سے مثبت بیانات دیے گئے ہیں جس کے باعث دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ملاقات کی امید کی جارہی تھی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی پیر کو تاجکستان کے شہر دوشنبے میں ‘ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں شرکت کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ اس کانفرنس کا مقصد افغانستان پر علاققئی تعاون ہے۔ بھارت بھی اس کانفرنس کا حصہ ہے۔
تاہم دوشنبے روانہ ہونے سے قبل پاکستانی وزیر خارجہ نے صحافیوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فی الحال ان کی وہاں بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ نہ ان کی کوئی ملاقات طے ہے اور نہ ہی اس کی درخواست کی گئی ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی طرف سے ابھی اس پرکوئی واضح بیان سامنا نہیں آیا۔
دونوں ملکوں کے تعلقات میں حالیہ پیش رفت کے تناظر میں خیال کیا جا رہا تھا کہ شاید ہارٹ آف ایشیا‘ کانفرنس میں شرکت کے دوران دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ ملاقات کریں گے۔ ان اطلاعات کو دفتر خارجہ کے اس بیان سے بھی تقویت ملی تھی جس میں اس نے کہا تھا کہ اس اہم کانفرنس کے دوران شاہ محمود قریشی ”اہم علاقائی اور بین الاقوامی پارٹنرز سے مشاورت کریں گے۔”
بھارت نے ابھی دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ کے درمیان ممکنہ ملاقات کے حوالے سے کوئی بیان نہیں دیا ہے۔ 26مارچ کو نئی دہلی میں انڈیا اکنامک کانکلیو میں جب بھارتی وزیر خارجہ سے پوچھا گیا کہ آیا وہ دوشنبے میں شاہ محمود قریشی سے ملاقات کریں گے تو ایس جے شنکر نے کوئی واضح جواب دینے کے بجائے کہا کہ ”میرا پروگرام ابھی تیار ہورہا ہے۔ابھی تک میں نہیں سمجھتا کہ اس طرح کی کوئی میٹنگ طے ہوئی ہے۔”
جے شنکر سے جب مزید سوال کیا گیا کہ دونوں ملکوں کی افواج کے درمیان معاہدہ اور سندھ طاس کمشنروں کی بات چیت کو کیا وہ باہمی تعلقات میں بہتری کی علامت سمجھتے ہیں تو بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ ”میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ملکوں کے ڈائریکٹر جنرل آف ملٹری آپریشنز (ڈی جی ایم او) کے درمیان معاہدہ کافی حساس معاہدہ ہے۔”
بھارت اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کی آخری ملاقات شنگھائی تعاون تنظیم کی بشکیک میں مئی 2019میں ہوئی تھی۔ اس وقت آنجہانی سشما سوراج بھارتی وزیر خارجہ تھیں۔ لیکن پھر اگست 2019میں مودی حکومت نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کردی تھی، جس کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔ دونوں ممالک نے اپنے ہائی کمشنروں کوواپس بلالیا تھا اور سفارتی عملے کی تعداد بھی نصف کردی تھی۔
تاہم گزشتہ ماہ پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی کی بحالی پر معاہدہ اور پھر وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجودہ کی طرف سے امن کے حوالے سے بیانات کے بعد دونوں ملکوں میں کشیدگی میں کمی کی امیدیں پیدا ہوگئیں۔ جنرل باجوہ نے کہا تھا ”اب ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنے کا وقت ہے۔”
دوسری طرف بھارتی آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے گزشتہ جمعرات کو کہا تھا کہ ایل او سی پر اس وقت سکون ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا گزشتہ پانچ چھ برسوں میں پہلی مرتبہ ہوا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں ایک پاکستانی ٹیم دہلی سے ملحق نوئیڈا میں منعقدہ بین الاقوامی نیزہ بازی ورلڈ کپ مقابلے کے کوالیفائنگ میچ میں شرکت کے لیے آئی تھی جبکہ دونوں ملکوں کے سندھ آبی کمیشن کی 116ویں میٹنگ ”خوشگوار ماحول” میں منعقد ہوئی۔
تاہم اسٹریٹیجک امور کے ماہرین دونوں ملکوں کے ان اقدامات کو باہمی تعلقات میں ایک’پیٹرن‘ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بھارت او رپاکستان کو اس بات کا ادراک ہے کہ مذاکرات کا فقدان دونوں کے لیے مہنگا ثابت ہوگا۔
انڈین کاونسل آف ورلڈ افیئرز کے ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان میں بھارت کے سابق سفیر ٹی سی اے راگھون کا کہنا ہے کہ ”بھارت اور پاکستان کے تعلقات میں ایک پیٹرن ہے۔ یہ پچھلے ستر برسوں سے زیادہ عرصے سے چلا آرہا ہے۔ میرا خیال ہے کہ دونوں حکومتیں یہ دیکھیں گی کہ انہیں ان کوششوں کو کیسے آگے لے جانا ہے۔” راگھون کا کہنا تھا کہ ”کشمیر بہرحال ایجنڈے میں ہمیشہ موجود رہے گا۔”