آج اگر عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت اور ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگا کر حلوے کی پلیٹ سیاست دانوں اور مولوی ملاوں کے سا منے سے چھین کر دوسرے کو دے دی ہے توکہا جارہاہے ، نہ خود کھا ئیں گے ، نہ کسی کو کھا نے دیں گے، افسوس کی بات ہے ہمارے یہ کیسے مفاد پرست سیاست دان ہیں؟جو ستر سال سے میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو کرکے اپنا دال دلیہ چلاتے آئے ہیں۔مگر اَب جب کہ مُلکی تاریخ کے پہلے بڑے اور مہنگے ترین انتہائی صاف و شفاف انتخابات ہوگئے ہیں،اور نئی حکومت بننے کو ہے تو آج جمہوریت کے نام پر ہمیشہ اپنی جیت کے عادی سیاستدانوںاور مولوی ملاوں کو اپنی شکست برداشت نہیں ہورہی ہے۔
بہرکیف،مخمصوں ، خدشات اور تحفظات سے بھرپور انتخابات پُر امن اور مُلکی تاریخی اعتبار سے صاف و شفاف ہونے کے بعد اختتام کو پہنچ چکے ہیں،یوں اَب تک کی اطلاعات کے مطابق الیکشن2018ءکے غیر حتمی اور غیر سرکار ی نتائج کی روشنی میں پاکستان تحریک انصاف قومی اسمبلی کی 272 نشستوں میں سے 119 نشستیں لے کرواضح اکثریت کے ساتھ ایم کیو ایم پاکستان اور آزاد و دیگر کو ملا کر وفاق ، خیبر پختونخوا اور ممکنہ طور پر پنجاب میں بھی ن لیگ کے مقابلے میں دال، چنے کی ذراسی برتری والے فرق سے حکومت بنا نے کی پوزیشن میں ہے ۔
یہاں یہ امر قابل غور اور حوصلہ فزاءہے کہ اِس بے مثال الیکشن کے نتائج کی روشنی میں پاکستان تحریک انصاف وفاق اور کے پی کے کی واحد پارٹی بن کر اُبھری ہے جو اِن مقامات کے ساتھ پنجاب میں بھی حکومت بنا لے گی اور سندھ میں دیگر جماعتوں کی عددی اکثریت کے ساتھ مضبوط اپوزیشن کے روپ میں موجود ہوگی۔ جبکہ اِن سطور کے رقم کرنے تک صوبہ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی ماضی کے مقابلے میں زائد نشستوں کے ساتھ واضح اکثریتی جماعت بن کر سامنے آئی ہے جو پہلے کی طرح آج بھی تنہا حکومت بنا نے کی حالت میں متحرک ہوچکی ہے اِسی طرح بلوچستان میں بھی برتری رکھنے والی مقامی جماعت حکومت سازی کے لئے سرگرم ہو گئی ہے۔
اِس سے اِنکار نہیں ہے کہ حالیہ انتخابات ضرورت سے زیادہ صاف وشفاف ہوئے ہیں،یقینا جس کا سہرا الیکشن کمیشن، عدلیہ اور پاک افواج کے سر ہے، مگریہاں یہ بڑے دُکھ کی بات ہے کہ اتنی شفافیت کے باوجود بھی شکست خوردہ سیاسی جماعتوں مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی ،متحدہ مجلس عمل، تحریک لبیک، ایم کیو ایم کے تمام گروپس اور پاک سرزمین پارٹی سمیت دیگر نے تحفظات کے ساتھ اپنے ایجنٹوں کو فارم 45اور46کی عدم فراہمی پرنتائج میں دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے انتخابی نتائج یکسر مسترد کردیئے ہیں۔بات یہیں ختم نہیں ہوئی ہے، ہر حکومت میں اقتدار کا مزہ لوٹنے والے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمان نے انتخابی نتائج کے خلاف میدان میں نکل کر PNAکی طرز پر تحریک چلانے کا اعلان کابھی اعلان کردیاہے اور واہ شگاف انداز میں کہا ہے کہ مُلک میں جھرلو پھیرا گیا، خود آرام سے بیٹھیں گے نہ کسی کو بیٹھنے دیں گے“ کا عزم اشتعال بھی کردیاہے اور کہا ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس بلا کر مُلک گیر احتجاج کی کال دے دی ہے جس کے تحت پشاور سمیت صوبہ خیبرپختونخوا کے تمام اضلاع میں احتجاجی ریلیاں ، مظاہرے اور جلوس ہوں گے۔تاہم مولانا فضل الرحمان کی بلا ئی گئی اے پی سی کانفرنس میں میزبان مولانا فضل الرحمان، اسفندیار ولی، سراج الحق اور دیگر نے تجویز دی کہ حلف کا با ئیکاٹ کیا جا ئے گا جس کے لئے تمام جماعتوں کے شرکا ءنے متفقہ طور پر حا می بھرلی ہے کیو ں کہ اِن شکست خوردہ عناصر کا کہنا ہے کہ 25جولا ئی کو فارم 45اور46 اِن کے ایجنٹوں کو فراہم نہ کرکے عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈالا گیاہے اور بدترین دھاندلی کی گئی ہے اِس بنیاد پر ہم حالیہ الیکشن مسترد کرتے ہیں، اور مطالبہ کرتے ہیں کہ انتخابات دوبارہ کرائے جا ئیں، ورنہ ہم اور تمام ہاری ہوئی جماعتیں مُلک بھر میں دوبارہ انتخابات کرانے کے لئے تحریک چلائیں گے ؛یوں مولانا فضل الرحمان نے اپنی احتجاجی تحریک کو جمہوری تحفظ کا نام دے کر جمہوریت کی بقا ءکی جنگ قرار دیاہے۔
جبکہ ایم کیو ایم پاکستان کی رابطہ کمیٹی نے اِس اے پی سی میں شرکت سے انکار کردیاتھا مگر ڈاکٹر فاروق ستار انفرادی حیثیت سے شریک ہوئے؛ جب اِن سے خبر نویسوں نے پوچھا کہ آپ کی پارٹی نے تو کانفرنس میں شرکت سے معذرت کرلی ہے ؛تب بظاہراُن کا یہ موقف تھاکہ اِنہیں اِس کا علم نہیں ہے، یعنی کہ آج بھی ایم کیو ایم پاکستان نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے؛ کل بھی اِن کا یہی طرزسیاست تھا کہ رحمان بھی راضی رہے اور شیطان بھی خوش ہو“آج بھی یہی ایم کیو ایم پاکستان کا طرز سیاست ہے، آج جس کی وجہ سے ایم کیو ایم پاکستان اپنے ہی شہر میں اجنبی بن کر رہ گئی ہے۔ اور ماضی کے مقابلے میں صرف چھ نشستوں پر کامیاب ہوکر گم نامی میں چلی گئی ہے۔ آج اِسے 35سالہ اپنی غیرسنجیدہ سیاست کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سے سبق سیکھنا چاہئے یہ جس شہر کی پڑھے لکھے اور باشعور شہریوں کی بڑی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار ہے۔
اَب اِسے اپنی موجودہ پوزیشن سے اپنا سیاسی اور اخلاقی محاسبہ کرتے ہوئے اپنے اندر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آئندہ ایسے فیصلے کرنے چا ہئیں کہ آنے والے الیکشن2023 تک اِس کاعوام پر اپناکھویا ہوا اعتماد بحال ہوجائے اور یہ اپنی ابتدائی دور والی پوزیشن میں آجائے ورنہ ؟ آج اِسے جتنی نشستیں ملی ہیں۔ ممکن ہے کہ آئندہ اِس سے بھی کم ہو جا ئیں۔یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ مُلک بار بار ساڑھے 21ارب کے الیکشن کا متحمل نہیں ہوسکتاہے ،خدارا نہ لڑونئے پاکستان کے خاطر،آج اگر ہارنے والے اپنی ہار اور جیتنے والی کی جیت کو تسلیم کرلیں گے؛ تو اِس سے بھی جمہوریت کو دوام اور استحکام ملے گا نہ کہ ہمیشہ اپنی جیت کے بعداِس بارہار پر آگ بگولہ ہواجائے۔ اور جیتنے والی پارٹی کے لئے مشکلات پیدا کی جا ئیں، اور آج جن پارٹی کے سربراہان نے الیکشن میں اپنی تاریخی شکست کے بعد الیکشن پر دھاندلی کا الزام لگا کر یکسر مسترد کردیاہے اور اِسے مُلک بھر میں دوبارہ کرانے کے لئے رابطہ کمیٹی بنا کر سارے مُلک میں پُر تشدت احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے آج یہ اپنا محاسبہ بھی خود کریں کہ جب تک یہ حکومت میں رہے اور اراکین پارلیمنٹ کی حیثیت سے ایوان میں بیٹھے رہے اِنہوں نے اپنی ذات اور سیاست سے مُلک اور قوم کے لئے کونسا اچھا کام کیا ہے؟ اُلٹا اِنہوں نے کسی نہ کسی حوالے سے قومی خزا نے کو لوٹاہے، خاص طور پر مولانافضل الرحمان اپنی شکست اور سُبکی کا ازالہ مُلک میں انارگی پھیلا کر تباہی اور بربادی سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ احتجاج کے اعلان کے بعد مولانا کی سیاست پر بھی سوالیہ نشان لگ گیاہے۔؟؟(ختم شد)
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com