تحریر : قادر خان یوسف زئی سوات میں گزشتہ دو ہفتوں سے سیکورٹی چیک پوسٹوں پر سختی اور مظاہرین پر دہشت گردی کے دفعات کے تحت ایف آئی آردرج ہونے اور کشیدہ صورتحال کے بعد بالاآخر سوات قومی جرگہ ، سیکورٹی فورسز اور سول انتظامیہ کے درمیان دو روزہ مذاکرات خوش اسلوبی سے طے پا گئے اور سوات قومی جرگہ نے مذاکرات کے بعد 25فروری کو نشاط چوک پر ہونے والا پُر امن احتجاجی مظاہرہ منسوخ کردیا۔ آئی ایس پی آر نے بھی ایک ابلاغی بیان میں کامیاب مذاکرات کی تصدیق کرتے ہوئے سوات قومی جرگہ کے مشران کو آگاہ کیا کہ مشکلات کے ازالے کے لئے موثر اقدامات کردیئے گئے ہیں اور آئندہ مزید اقدامات بھی کئے جائیں گے۔
مذاکرات میں پاک فوج کے اعلیٰ حکام ، کمشنر ملاکنڈ ڈویژن ، ریجنل پولیس آفیسر اور انتظامیہ کے دیگر افسران اور سوات قومی جرگہ کے15رکنی وفد نے شرکت کی تھی۔ اس پر اتفاق رائے ہوا کہ سڑکوں پر قائم چیک پوسٹوں پر عوام کی آمد رفت کو انتہائی آسان اور پختون روایات و اقدار کے مطابق رکھا جائے گا۔ سرچ آپریشن کے موقع پر بھی ملکی قانون اور علاقہ کے سماجی قدروں کا خیال رکھا جائے گا نیز سوات میں انتظامی اختیارات بتدریج سول انتظامیہ کو منتقل اور سوات کے تعلیمی اداروں میں سیکورٹی فورسز کی بیجا مداخلت نہیں ہوگی، کمشنر ملاکنڈ ڈویژن نے پر امن احتجاج کرنے والے افراد کے خلاف درج ایف آئی آر کو واپس لینے کی ذمے داری بھی اٹھائی۔راقم نے بھی اپنے گزشتہ کالم میں اسی بات پر زوردیا تھا کہ سوات کی عوام میں بے چینی کا نوٹس لینا چاہیے اور ان کے تحفظات اور جائز مطالبات کو دور کرنے میں تاخیر نہ کی جائے۔
انتظامیہ اور فوج کے اعلیٰ حکام نے دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سواتی عوام کی بے چینی اور تکالیف کو محسوس کیا اور سیکورٹی چیک پوسٹوں پر سختی اور مقامی افراد کے ساتھ کی جانے زیادتیوں پر پُر امن احتجاج پر موثر اقدامات کی یقین دہانی کرائی۔ ملاکنڈ ڈویژن ایک انتہائی حساس علاقہ ہے ۔ یہاں کی عوام اپنی روایات و ثقافت کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔
یہاں چھوٹی سی چھوٹی بات کا بھی خیال رکھا جاتا ہے اور عزت نفس مجروح کئے جانے پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ ان کے لئے ناممکن بن جاتا ہے۔ بہادر و غیورسواتی عوام صبرو تحمل ، حسن ظن اور رواداری کا ایک خوبصورت امتزاج ہیں۔ اسلام سے دلی محبت اور راسخ العقیدہ ہوناان کے خون میں شامل ہے۔ انہی وجوہات پر2009میں جب عوامی نیشنل پارٹی اور وفاق میں حلیف جماعت پی پی پی نے لبرل اور سیکولر ہونے کے باوجود سوات کے لئے شرعی عدالتی نظام کے قانون کو ایک معاہدے کے تحت منظور کیا تھا تو اس پر سخت تحفظات و خدشات کا اظہار کرتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے قیام امن کے لئے اٹھایا جانے والا یہ بہت بڑا قدم تھا۔ جس کی نظیر نہیں ملتی ۔عوامی نیشنل پارٹی کو اپنی صوبائی حکمرانی میں بڑے بڑے کڑوے گھونٹ پینے پڑے تھے۔ اپنے عدم تشدد کے فلسفے سے صرف امن کے خاطر مجبوراََایسے فیصلے کرنے پڑے جو نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ملاکنڈ ڈویژن میں امن کو ترجیح دی گئی۔ واضح رہے کہ1970تک سوات میں شرعی نظام کے تحت انصاف کی فراہمی تک رسائی حاصل تھی۔ سواتی عوام کے لئے انگریزوںکا دیا گیا کمشنری نظام یک قلم نافذ کردیا گیا تھا ۔ رائج روایتی عدالتی نظام میں تاخیر سے کئے جانے والی سماعتوں و فیصلوں سمیت وکلا ء کی بھاری فیسوں کی وجہ سے سستا انصاف کسی بھی غریب شخص کے لئے سوہان ِ روحہے۔ سوات کے عوام بھی عدالتی تاخیر اور مہنگے انصاف سے سخت نالاں تھے اور اسی بات کو بنیاد بنا کر ایک احتجاج کی راہ ہموار کی گئی جس کی وجہ سے شدت پسند گروپ کی بنیاد پڑی جس کے مضمرات سے آج تک پاکستان کی عوام محفوظ نہیں ۔بیورو کریسی ، مقننہ اور انتظامیہ نے سواتی عوام کی بے چینی و ہونے والی زیادتیوں کا ادارک نہیں کیا اور اے این پی کی صوبائی حکومت سے قبل سیاسی مصلحتوں نے بھی سوات کے نظام و انصرام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔
سوات میں چیک پوسٹوں کے معاملات میں کئی بار انتظامیہ کو آگاہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انتظامیہ نے اپنی روایتی سہل پسندی کو جاری رکھا۔ تاہم سوات قومی جرگہ کئی بار عوام کے تحفظات سے انتظامیہ کو آگاہ کرچکے تھے۔ سوات میں دہشت گردی کا واقعہ ہونے کے بعد چیک پوسٹوں پر سختیوں اور عوام کو درپیش مشکلات کے علاوہ سرچ آپریشز نے معاملات کی سنگینی میں اضافہ کردیا تھا ۔ پُر امن احتجاج میں انتظامیہ نے بُردباری کا مظاہرہ نہیں کیا جس سے اشتعال اور بے چینی میں مزید اضافہ ہوا ۔تاہم اب مذاکرات کی کامیابی بظاہر اطمینان بخش ہے کہ دوسرے بڑے احتجاج ہونے سے قبل سنجیدگی کا مظاہرہ کیا گیا کیونکہ خدشہ تھا کہ معاملات مزید خراب ہوسکتے تھے۔ضروری ہے کہ انتظامیہ روایتی سہل پسندی کے بجائے اُن مطالبات پر فوری عمل درآمد کرے جو جرگہ اور اُن کے مابین طے پا چکے ہیں ۔برسبیل تذکرہ یہاں اعلیٰ حکام کو زمینی حقائق کا خیال رکھنے کا بھی مشورہ ہے ۔دیکھا گیا ہے کہ بیشترچیک پوسٹوں پر اُن اہلکاروں کو تعینات کیا جاتا ہے جو مقامی زبان سے بالکل نابلد ہوتے ہیں۔ سوات گو کہ تعلیم یافتہ عوام کا معروف سیاحتی و تجارتی مرکز ہے لیکن ننانوے فیصد سوات کے رہائشی پختونوں کا ٹھیٹ پنجابی زبان سمجھنا اور پنجابی اہلکاروں کا پشتو سمجھنا بڑا دشوار گذارعمل ہوتا ہے۔سوشل میڈیا پر مقامی افراد کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی تفاصیل اور متنازعہ تصاویر وائرل ہوجانے کے بعد جذبات سے مغلوب تبصرے کسی بھی ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے لئے ضرر رساں بن جاتے ہیں۔مقامی افراد کے پاس قومی شناخت کے علاوہ خصوصی شناخت رکھنے کے باوجود بھی مسائل بڑھے ہیں ۔ خاص طور پر ایسے نوجوان جن کے شناختی کارڈ 18برس مکمل نہ ہونے کی وجہ سے نہیں بن سکتے ، انہیں اپنی فوری شناخت ثابت کرنے کیلئے بعض اوقات صبر آزما مراحل سے گذرنا پڑتا ہے۔تاہم دہشت گردوں اور شدت پسندوں کے خلاف آپریشن رد الفساد میں پاکستان کا ہر شہری قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
ملاکنڈ ڈویژن کے داخلی راستوں میں جس طرح چیکنگ کا نظام قائم ہے اس سے راقم کئی بار گزر چکا ہے اور میں یقین کے ساتھ کہتا ہوں کہ داخلی شاہرائوں سے اجازت کے بغیر ایک’ سوئی ‘کا لے جانا بھی ممکن نہیںہے۔ شناختی عمل کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ کے ذکر کرنا چاہوں گا۔ ٹرانسپورٹ کی چیکنگ جدید آلات سے اندر داخل ہوئے بغیر باہر سے ہی کی جاتی ہے ۔ایک بار ملاکنڈ داخلی پہلی چیک پوسٹ پر تعینات ایک اہلکار جدید ترین آلات کے ساتھ گاڑی کی سرچنگ کے دوران جب میرے قریب سے گذرا تو اُس نے چونک کر مجھے دیکھا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ اُس کے ہاتھ میں پکڑا ہوا آلہ اُسے کسی ممنوعہ چیز کے بارے میں نشاندہی کررہا تھا۔اگلے ہی لمحے وین کنڈیکٹر دوڑتے ہوئے میرے پاس آیا اور کہا کہ بیگ میں کیا ہے ؟۔ میں نے کہا کپڑے، اس نے پوچھا اور کچھ ۔۔ میں نے کہا لیپ ٹاپ، کیمرہ ،نیٹ ڈیوائس ،میموری کارڈ ۔ لیکن یہ تو پہلے ہی آپ کو دے دیا تھا ۔ پھر اُس نے کہا کوئی میڈیسن ۔ میں نے کہا ہاں ، Flagyl ہے۔اُس نے ماتھے پر ہاتھ مار کر کہا کہ خانہ خراب پہلے ہی کہا تھا کہ” مشتبہ “چیزیں نہ رکھا کرو۔میں نے کہا کہ یہ تو میڈسن ہے ۔ اُس نے بڑے غصے سے مجھے دیکھا اور کہا کہ جلدی دو ۔اہلکار آنے والا ہے۔ مصیبت ہوجائے گی کم ازکم مجھے بتا تو دیتے اب دو گھنٹے اور لگ جائیں گے۔ میں نے فوراََ بیگ سےFlagyl کی گولیوں کا پیکٹ نکال کر اس کے حوالے کردی ۔ کنڈیکٹر نے اہلکار سے نیچے اتر کر کہا کہ صاحب پھر چیک کرلیں ۔ اُس نے پھر آلہ میرے قریب سے گذارا اور دو تین مرتبہ اچھی طرح اطمینان کیا اور پوچھا ۔ کیِ شے سی ۔۔کنڈیکڑ نے پیٹ خراب ہونے پر استعمال ہونے والی گولیاں اس کے سامنے رکھی کہ سر جی ، دوائیاں ہیں۔
اہلکار نے گولیوں کو دیکھا اور پھر مسکرا کر مجھے سے کہا کہ اوئے منڈیا مرچاں کم کھایاکر۔ اہلکار کے جانے کے بعد میں نے کنڈیکڑ سے گولیاں لیں اور فوراََ دو گولیاں کھالیں ۔ ایسے کئی دلچسپ واقعات ہیں جو راقم کے ساتھ بھی پیش آئے۔تاہم میں حلفیہ کہتا ہوں کہ طویل انتظار کے علاوہ بد تمیزی و بد اخلاقی کا کوئی بھی واقعہ میرے سامنے ، میرے ساتھ یا کسی اور کے ساتھ پیش نہیں آیا ، اس واقعے کا ذکر صرف اس لئے کرنا مناسب سمجھا کہ جب کوئی شخص ایک ایسی میڈسن بھی دوران تلاشی نہیں لے جا سکتا جو جدید آلات کی زد میں آتے ہوں تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ کسی عوامی راستے سے بغیر اجازت کوئی خطرناک مواد جا سکے ۔ باقی شخصی شناخت قومی کارڈ کی شکل میں ہے۔ ویڈیو سرچنگ کے ذریعے بھی ہوتی ہے۔ اہم بات صرف یہ ہے کہ آپریشن و چیکنگ کے دوران عوام کی قربانیوں و تکالیف کو نظر انداز نہ کیا جائے۔ عوام اور حکام کا باہمی تعاون ہی شدت پسندوںکو ناکام بنا سکتا ہے۔ سوات پاکستا ن میں جنت نظیر وادی ہے، یہاں محبتوں پروان دیں اور اعتماد کے سلسلہ کوہسار پر فصیل تعمیر کریں۔ سایہ کی حسرت میں کیا کیا بڑھ کے رکھتے تھے قدم۔ دیکھتے تھے دور سے جس دم شجر کہسار پر