اسلام آباد (جیوڈیسک) متنازع سائبر کرائم کا مسودہ قانون پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے تو منظور ہو چکا ہے لیکن اس قانون سازی کے خلاف حزب مخالف اور سماجی کارکنان صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے اس بارے میں عدلیہ سے رجوع کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔
تاہم ایوان زیریں “قومی اسمبلی” سے اس مسودہ قانون کی منظوری کے محض ایک روز بعد ہی حکومت مخالف جماعت ‘پاکستان عوامی تحریک’ کی جانب سے لاہور کی عدالت عالیہ میں اس بل کی بعض شقوں کو بنیادی انسانی حقوق کے منافی قرار دیتے ہوئے درخواست دائر کر دی گئی۔
درخواست گزار وکیل اشتیاق چودھری نے بتایا کہ سائبر کرائم بل کی شق نمبر دس، 18 اور 32 آئین میں شہریوں کو دیے گئے حقوق سے ان کے بقول متصادم ہیں جب کہ اس مسودہ قانون میں بہت سے جرائم کی تعریف بھی مبہم ہے جس سے لوگوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
“جب پہلے سے دہشت گردی کا ایک خصوصی قانون موجود ہے تو پھر اس (سائبر کرائم بل) میں اسے علیحدہ سے ڈالنے کی کیا ضرورت تھی اور اسی طرح جو ہتک عزت سے متعلق شق ہے وہ پہلے سے ایک آرڈیننس موجود ہے۔”
ان کا دعوی تھا کہ بظاہر حکمران یہ قانون سیاسی مخالفین اورعوام کو دھمکانے کے لیے استعمال کرنا چاہ رہے ہیں۔ اس مسودہ قانون میں مختلف سائبر جرائم میں 14 سال تک کی قید اور پانچ کروڑ روپے تک کے جرمانے کی سزائیں رکھی گئی ہیں۔
انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ صارفین کی بڑی تعداد لاعلمی کی وجہ سے اس سے متاثر ہوگی اور کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔
تاہم حکومت کا موقف ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعے ہونے والے جرائم کی روک تھام کے لیے ایسے قانون کی اشد ضرورت تھی اور اس پر عملدرآمد کا جائزہ لینے کے لیے ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے گی جو سال میں دو بار ایوان کو اس کی کارکردگی سے آگاہ کرے گی۔