نا اہل اور کنفیوزڈ وزیرِ اعظم

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

کرونا وائرس ’’کووڈ 19‘‘نے قوم کو امتحان میں ڈلا دیا ہے۔ہر جانب خوف و حراس کے ڈیرے ہیں۔ وزیر اعظم کہتے ہپں کہ کاروبار بند نہیں کرنا چاہئے تھا۔ان سے پوچھا جائے کہ جب انسان ہی مہلک مرض سے مر جائیں گے ۔تو کاروبار کیا فرشتے کرنے آئیں گے؟ساری دنیا سے ہماے لئے کہا جا رہا ہے کہ کرونا پاکستان میں بڑھنے کے واضح امکانات موجوجود ہیں۔پاکستان میڈیکل ایسو سی ایشن کی جانب سے کہا جاتا رہا ہے کہ لاک ڈائون سخت کیا جائے ورنہ ہمارے پاس ہسپتالوں میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں سڑکوں پر آنا پڑ جائے گا۔جبکہ آج بھی لوگوں کو کورنٹینا فراہم کرنا مشکل ہو رہا ہے۔

وزیرِ اعظم اور ان کی ٹیم ہر وقت غریب غریب کا رونا رو کر کس کو بیوقوف بنا رہی ہے؟ان کی ٹیم میں تمام کے تمام لولوگ جیبوں میں سونے کے چمچے لئے پھرتے ہیں۔غریب یا غربت سے ان لوگوں کا دور دور تک تعلق دکھائی نہیں دیتا ہے۔اور نہ ہی ان میں کوئی غریب یا غریبوں کا نمائندہ ہے۔یہ لوگ جو غربت سے کوسوں دور بیٹھے کرپشن کی دولت لٹا رہے ہیں انکے اندر نہ جانے کیسے غریبوں کی ہمدردی کا لاوا پھوٹ نکلا ہے۔ہمیں یہ بھی سمجھ نہیں آرہی ہے کہ ان لوگوں کوغریب و غربت گردان کس نے دہرانے کا سبق پڑھا دیا ہے۔

ایک بیان ان کا کورونا میں سخت لاک ڈائون کا ہوتا ہے تو دوسرا بیاں لاک ڈائوں کھو ل دینے کا ہوتا ہے۔کنفیوزڈ وزیرِ اعظم اور ان کی کنفیوزڈ ٹیم ملک کو تباہی کے گڑھے کی جانب تیزی کے ساتھ دھکیلنے میں لگی ہوئی ہے۔کورونا کا زور دن بدن بڑھتا جا رہا ہے اور معاملات قابو سے باہر ہوا چاہتے ہیں۔تو ایسے میں یہ اور ان کے حواری لا یعنی باتوں میں عوام کو الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔18،ویں ترمیم کے خاتمے کا شووشہ چھوڑ کریہ کس کو بیوقوف بنا رہے ہیں؟جبکہ ان کاا قتدارتو تین چار سیٹون کی ریت کی دیوار پر کھڑا ہے۔

مزیہد یہ کہ کیا عمران نیازی بتائیں گے کہ اشرافیہ کیا ہوتی ہے؟اور ان کا اشرافیہ سے تعلق کیا ہے؟بد قسمتی سے پاکستانیوں پر ایسا شخص مسلط کر دیا گیا ہے جسکو الیٹ کلاس کے معنی تک کے معنوں میں بھی کنفیوزن ہے۔وہ مزید یہ کہتے بھی سنے گئے ہیں کہ لاک ڈائون سے غریب مر جائے گا۔کیا وہ کوئی اعداد و شمار پیش کر سکتے ہیں کہ اب تک کورونا کے دورانئے میں کتنے غریب بھوک سے مر چکے ہیں؟انہیں پتہ ہونا چاہئے کہ لوگ بھوک سے نہیں کرونا سے مر رہے ہیں۔سونے پہ سہاگہ یہ کہ لوگون کو اسمارٹ لاک ڈائون کا جھانسہ دیا جا رہا ہے۔نیازی صاحب وضاحت کریں گے کہ یہ اسمارٹ لا ک ڈائون کس بلا کا نام ہے؟ان کا ایک وزیر بوٹ بردار کے اولاد کہتا ہے کہ روزانہ ساڑھے آٹھ سو سے زیادہ لوگ تو حادثات سے مرجاتے ہیں۔کرونا سے مر رہے ہیں تو کیا ہوا؟کوئی پاکستان کے ان لُٹیروں کو سمجھانے ولا ہے کہ نہیں!

موجودہ حکم رانوں نے وطن عزیز کو کرونستان میں تبدیل کرنے کی مکمل منصوبہ بندی کر لی ہے شائد۔جس سے ملک میں روزبروز مریضوں کی تعداد میں بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔اقوامِ متحدہ کا کہنا ہے کہ پاکستان می لاک ڈائون سخت ہونا چاہئے۔مگر نا اہل اس کو نرم ترین کر کے قوم کا جنازہ نکالنے پر تلے بیتھے ہیں۔اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں کرونا تیزی اختیار کر رہا ہے۔آج تک ملک میں 30900 ،افراد کورونا کے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں۔جس میں مرنے والوں کی تعداد 670،سے زیادہ ہو چکی ہے۔اس کے باوجود یہ حکمران لاک ڈائون کی مسلسل اور شدت کے ساتھ مخالفت کر رہے ہیں۔

30900میں سے ابتک صٖرف 8200،مریض صحت یاب ہو سکے ہیں۔مریضوں کی بڑھوتری کی تعداد جو اب سے چند دن پہلے تک روزانہ کی بنیاد پر 20،25 ہوا کرتی تھی اب 2000کی فیگر کو چھو رہی ہے۔اس ضمن میں جب سندھ حکومت سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہی تھی تو سرکاری بھونپو میڈیا پر آ آ کر سندھ حکومت پر پھبتیان کس رہے تھے۔ اور آج بھی ان میں کہیں سنجید گی دکھائی نہیں دے رہی ہے۔جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرونا مریضون کی تعداد کم ہونے کے بجائے ہزاروں میں بڑھنے لگی ہے۔سندھ کے وزیر تعلیم سعید غنی کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کے اقدامات پر اپوزیشن کا رویہ نہایت غیر ذمہ دارانہ اور افسوسناک رہا ہے۔ہمیں زبردستی مارکیٹیں کھولنے پر مجبور کیا گیااگر ہم ایسا نہ کرتے تو ہمارے خلاف تماشے ہو رہے ہوتے۔کرونا کے بڑھ جانے کے ضمن میں ڈاکٹر فہیم یونس کا کہنا ہے کہ ملک میں اگر 50۔فیصد لوگوں کو کرنا ہوجاتا ہے اور اس کے نتیجے میں صرف ایک فیصد اموات ہوتی ہیں تو پاکستان میں دس لاکھ افراد لقمہِ اجل بن جائیں گے۔

ہمارا وزیر اعظم ٹرمپ اسٹائل اپنائے ہوئے دکھائے دیتا ہے۔جس طرح وہ ہر روز احمقانہ بیانات دیتا ہے سی طرح کے بیانات روزانہ عمران نیازی کے بھی ہوتے ہیں۔ہم کچھ نہیں کہتے سری دنیا ٹرمپ کو احمق ترین صدر کہتی ہے اس مماچلت پر پاکستانی قوم سر پیٹے؟ یا جشن منائے؟ملک میں سرکاری احمقانہ حرکتوں سے کرونا تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔مگر حکمرنوں کو پیسے کی فکر ہے۔ان کی بیڈ گورنس اور اور منفی سیاست نے ملک کو کورونا گڑھ بنا نے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے۔نا اہل اور کنفیوڈ وزیر اعظم اور ان کی پوری نااہل ٹولی ،لک کو عذاب میں مبتلا کرنے جا رہے ہے۔

Shabbir Ahmed

Shabbir Ahmed

تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید

shabbirahmedkarachi@gmail.com