جان لیوا کانگو وائرس سے آگاہی اور احتیاطی تدابیر اختیار کئے بغیر اس مرض سے مکمل نجات ممکن نہیں۔ اس خطرناک مرض سے بچاؤ کے لئے ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ وائرس جانوروں کی کھال پر موجود خون چوسنے والے ٹکسTick ( ایک قسم کا جراثیمی کیڑا ، جسے عام طور پر چیچڑ کہا جاتا ہے ) کے ذریعے پھیلتا ہے۔ ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ کانگو وائرس کے ٹکس مختلف جانوروں مثلاًبھیڑ، بکریوں، بکرے، گائے، بھینسوں اور اونٹ کی جلد پر پائے جاتے ہیں۔ ٹکس جانور کی کھال سے چپک کر اس کا خون چوستا رہتا ہے۔ لیکن، جیسے ہی کوئی انسان اس جانور سے کنٹریکٹ میں آتا ہے یہ انسانوں میں منتقل ہوجاتا ہے ، اگر یہ ٹکس کسی انسان کو کاٹ لے تو وہ انسان فوری طور پر کانگو بخار میں مبتلا ہوجاتا ہے، اور یوں کانگو وائرس جانوروں سے انسانوں اور ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اسے چھوت کا مرض بھی خیال کیا جاتا ہے اور یہ کینسر سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ کانگو وائرس جس کا سائنسی نام کریمین کانگو ہیمریجک فیور(Crimean congo hemorrhagic fever) ہے۔ یہ دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والی بیماری ہے۔اس وائرس کی چار اقسام ہیں، ڈینگی وائرس، ایبولا وائرس، لیسا وائرس، ریفٹی ویلی وائرس۔ یہ وائرس زیادہ تر افریقی اور جنوبی امریکہ ،مشرقی یورپ ، ایشاء اورمشرقی وسطی میں پایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے کانگو سے متاثرہ مریض کا پتہ افریقی علاقوں سے چلا اسی وجہ سے اس بیماری کو افریقی ممالک کی بیماری کہا جاتا ہے۔ یہ بیماری سب سے پہلے1944ء میں کریمیا میں سامنے آئی اسی وجہ سے اس کا نام کر یمین ہیمرج رکھا گیا۔
پاکستان میں کانگو وائرس کی پہلی شکار آزاد کشمیر کے علاقے باغ کی سلمیٰ بیگم تھی جو 6 فروری 2002 ء کو ایک مقامی کلینک پر معمولی بخار کی شکایت کے ساتھ گئی، جب 9 فروری کو اس کے بخار میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہ ہوئی تو 11 فروری کو اسے مین ڈریسنگ سینٹر لے جایا گیا جہاں پر اس کے جسم سے شدید قسم کا اخراج خون شروع ہو گیا، صورتحال کی سنگینی کے پیش نظر ڈاکٹروں نے اسے ہولی فیملی ہسپتال راولپنڈی بھجوا دیا، 12 فروری کو اسے راولپنڈی بھیجا گیا جب کہ 13 فروری کو اس کی موت واقع ہو گئی۔ کانگو وائرس کی وجہ سے موت کا پاکستان میں یہ پہلا واقعہ تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق یہ مریضہ کانگو وائرس کا شکار ہو کر زرد بخار میں مبتلا ہوئی جس کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکی اور ایک ہفتے کے اندر اندر اس کی موت واقع ہو گئی۔ بعد ازاں ہولی فیملی ہسپتال کی لیڈی ڈاکٹر فرزانہ جس نے سلمیٰ کا علاج کیا تھا، وہ بھی دو ہفتے کے بعد 25 فروری کو موت کی آغوش میں چلی گئی۔ اس کے بعد اس مرض کی دہشت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ماہرین صحت کے مطابق ہر چیچڑ کانگو وائرس سے مثاتر نہیں ہوتا۔ کانگو وائرس کی واضع علامات یہ ہیں کہ جب کوئی کانگو وائرس وائرس کا شکار ہوجائے تو اس انفیکشن کے بعد مریض تیز بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے، اسے سردرد، متلی، قے، بھوک میں کمی، نقاہت، کمزوری اور غنودگی، منہ میں چھالے، اورآنکھوں میں سوجن ہوجاتی ہے۔ تیز بخار سے جسم میں وائٹ سیلس کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے جس سے خون جمنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ اورکچھ ہی عرصے میں اس کے پھیپھڑے تک متاثر ہوجاتے ہیں، جبکہ جگر اور گردے بھی کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، متاثرہ مریض کی جلد کے مساموں سے خون رسنے لگتا ہے۔ خاص کر مسوڑھوں، ناک اور اندرونی اعضاء سے خون خارج ہونے لگتا ہے ، اور یوں خون بہنے کے سبب ہی مریض کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ یہ مرض اس قدر تیزی سے پھیلتا ہے کہ کانگو میں مبتلا ہونے والا مریض ایک ہفتہ کے اندر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
صفائی کی ناقص صورتحال کے سبب جانوروں میں پیدا ہونے والے خطرناک چیچڑ اس بیماری میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ اس بخار کا سب سے زیادہ خطرہ ان لوگوں کو ہوتا ہے جو لائیو اسٹاک اور ذبیحہ خانوں سے منسلک ہیں، ایسے تمام لوگوں میں یہ بخار عام افراد کی نسبت زیادہ ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ کانگو بخار ایک انسان سے دوسرے انسان میں، خون، متاثرہ شخص کے اعضائ، رطوبت اور جسمانی تعلقات سے پھیلتا ہے، جبکہ طبی عملے نے اگراپنا حفاظتی لباس نہ پہنا ہو تو ان کو متاثرہ شخص کا علاج کرتے ہوئے یہ مرض لاحق ہوسکتا ہے۔ متاثرہ مریض کے لئے استعمال کئے گئے طبی آلات بھی اگر کسی اور شخص کے لئے استعمال کئے جائیں تو وہ بھی اس مرض کا شکار ہو سکتا ہے۔ کانگو کے ٹیسٹ نہایت اعلیٰ کوالٹی بائیوسیفٹی لیب میں ہی ممکن ہو سکتے ہیں۔ جانوروں میں اس خطرناک مرض کی علامات بظاہر نظر نہیں آتیں تاہم چیچڑوں کو ختم کرنے کے لیے کیمیائی دوا کا اسپرے کیا جانا چاہیے۔ اور اگر کسی بھی شخص میں کانگو فیور کی علامت موجود ہوتو اس کو فوری طور پر قریبی ہسپتال جانا چاہیے ، قانگو وائرس کے بروقت علاج سے بہت سی جانیں بچ سکتی ہیں۔ اس مرض سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے کہ ہر ممکن احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔
کانگو سے متاثرہ مریض سے ہاتھ نہیں ملانا چاہیے ، مریض کی دیکھ بھال کرتے وقت دستانے پہننے چاہیے، مریض کی عیادت کے بعد ہاتھوں کو اچھی طرح دھونا چاہیے، لمبی آستین والی قمیص پہننا چاہیے۔ اور مویشی منڈیوں میں بچوں کوتفریحی غرض سے نہیں لے جانا چاہیے۔ مویشی منڈیوں میں جانوروں کے فضلے سے اٹھنے والا تعفن بھی اس مرض میں مبتلا کر سکتا ہے۔ مویشیوں اور مویشی منڈیوں کا رخ کرتے وقت احتیاطی طور پر کپڑوں اور جلد پر چیچڑوں سے بچاؤ کا لوشن لگانا چاہیے ، جانوروں کی خریداری کے لئے جاتے وقت فل آستین کے کپڑ ے پہننا چاہیے کیونکہ بیمار جانوروں کی کھال اورمنہ سے مختلف اقسام کے حشرت الارض چپکے ہوئے ہوتے ہیں جو انسان کوکاٹنے سے مختلف امراض میں مبتلا کرسکتے ہیں۔ جبکہ جانور خریدنے سے پہلے اچھی طرح سے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ کہیں جانور بیمار تو نہیں یا اس کی جلد پر ٹکس تو نہیں چپکے ہوئے، کیونکہ ہر ممکن احتیاط اور بروقت علاج سے ہی اس جان لیوا مرض سے نجات ممکن ہے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل :ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033