تحریر : عماد ظفر یہ نتھیا گلی کا پر فضا مقام ہے اور رات کے قریب دس بج چکے ہیں. گہری دھند اور بادل اور دور پہاڑوں پر قائم گھروں کی حسین ٹمٹماتی ہوئی روشنیاں کسی بھی شخص کو سحر میں مبتلا کرنے کیلئے کافی ہیں.شدید سردی اور دھند میں شہر کے شور شرانے سے دور قدرت کی آغوش میں آ کر انسان چند لمحات کیلئے ہر فکر و غم سے بے نیاز ہو کر ایک مسحور کن دنیا کے سفر پر نکل جاتا ہے. انسان قدرت کے جتنے قریب آئے اتنا ہی خوش و خرم اور ترو تازہ رہتا ہے.شاید یہی وجہ ہے گلیات، مری یا دیگر پہاڑی علاقوں کے رہنے والے رہائشیوں کی نہ صرف صحتیں اچھی ہوتی ہیں بلکہ یہاں بسنے والے مکینوں کی عمریں بھی لمبی ہوتی ہیں.
دور پہاڑوں کو لان میں بیٹھ کر دیکھتے ہوئے خیال آ رہا تھا کہ ہم نے شہر تو بسا لیئے ان میں اپنے جینے کیلئے مصنوعی طریقوں سے شور وغل اور ہنگامہ بپا کرنے کے لوازمات بھی بنا ڈالے لیکن فطرت سے ہٹ کر اور قدرت سے دور رہ کر اندر سے نہ تو مطمئن ہو پائے اور نہ ہی خوش رہنے پائے. خیر راقم یہاں کچھ حالات و واقعات کاکو جو کہ ماضی قریب میں بپا ہوئے ان کا بغور جائزہ لینے آیا تھا. محترم جناب عمران خان نے گزشتہ کئی ہفتے نتھیا گلی کے اسی پر فضا مقام پرگزارے تھے. وطن عزیز میں زیادہ بھونچال آیا نواز شریف کی وزارت عظمی تک چلی گئی لیکن خان صاحب پہاڑوں سے اترنے کو تیار نہ ہوئے. اگر اترے بھی تو اسلام آباد یا دیگر شہروں میں مختصر قیام کے بعد واپس پہاڑوں پر آ گئے.
بلاشبہ نتھیا گلی کا حسن اور فضا ایسی ہے کہ آپ ایک بار ادھر آجائیں تو پھر واپس جانے کو جی نہیں چاہتا. لیکن چونکہ خان صاحب ایک سیاسی شخصیت ہیں اور ان کی سیاست کا تمام تر محور نوازشریف مخالف بیانیے اور کسی بھی طریقے سے وزارت عظمی کی کرسی تک پہنچنا ہے اس لیئے راقم کو شدید حیرت تھی کہ نواز شریف کے فارغ ہونے پر بھی خان صاحب نے راولپنڈی کی ایک ناکام جلسی، چند معمول کی پریس کانفرنسوں اور ٹاک شوز میں معمول کی مولا جٹ والی بڑھکیں لگانے کے علاوہ کچھ خاص شور و غل بپا نہیں کیا. چونکہ راقم گزشتہ چند ماہ سے ایک غیر سیاسی پراجیکٹ میں کام کر رہا تھا اس لیے مصروفیت اور باخبر حلقوں سے دوری کے باعث چند اکا دکا اندر کی خبروں کے علاوہ گزشتہ چند ماہ میں ہونے والے سیاسی واقعات کی اصل ڈوروں کی گھتیوں کو کسی بھی قسم کی ٹھوس معلومات کے بنا سمجنے یا سمجھانے سے قاصر تھا. اس دوران خان صاحب کے مسلسل نتھیا گلی میں رہائش پذیر ہونے کے بارے میں مختلف معلومات میسر آتی رہیں. چند احباب کا ماننا تھا کہ خان صاحب چونکہ تعویذ گنڈوں جادو ٹونے اور چلوں پر ایمان کامل رکھتے ہیں اس لیئے اپنے ایک روحانی پیشوا کے مشورے پر نتھیا گلی میں رہ رہے ہیں اور اس روحانی پیشوا کے مطابق پہاڑوں پر بس کر ہی خان صاحب کو وزارت عظمی کی کرسی نصیب ہو سکتی ہے. دوسری جانب باخبر احباب کا اصرار تھا کہ نتھیا گلی میں رہ کر نواز شریف کے نااہل ہونے اور اس کے بعد کی صورتحال سے نبٹنے کیلئے سازش کی تانیں بانیں بنیں گئیں. عید سے ایک روز قبل چند مقتدر شخصیات سے ملاقات کے بعد چند معاملات کی ڈوروں کی گرہیں کھل گئیں. نتھیاگلی کے پرفضا مقام پر خان صاحب نے “فرشتوں” سے تفضیلی ملاقاتیں کیں اور باقاعدہ طور پر خان صاحب نے یہ فرمائش بھی کر ڈالی کہ چونکہ نواز شریف جلد ہی نااہل ہو جائے گا اس لیئے بنا کسی تاخیر کے نواز شریف کی نااہلی کے فورا بعد موجودہ نظام کی بساط لپیٹی جائے اور فوری طور پر ایک نگران حکومت قائم کر کے نئے انتخابات منعقد کروائیں جائیں جو مائنس نواز شریف منعقد ہوں تا کہ وہ پنجاب سے بھی فاتح ہو کر باآسانی وزیر اعظم بن سکیں اور پھر راوی ہر جانب چین ہی چین لکھے. “فرشتے” بقول باخبر حلقوں کے،کئی ہفتے کی ملاقاتوں کے بعد خان صاحب کو یہ بنیادی نکتہ سمجھانے میں کامیاب هوئے کہ “پنڈ سارا مر وی جاوے تسی فیر وی چوہدری نہیں بن سکدے”. ذرائع کے مطابق خان صاحب کو مختلف اداروں کی سروے رپورٹس بھی دکھائی گئیں جن کے مطابق خان صاحب کسی بھی صورت پاکستان کے موجودہ آئین کے تحت منعقد ہونے والے انتخابات کے تحت وزیر اعظم منتخب نہیں ہوسکتے.
کیونکہ بہرحال ایک آدمی ایک ووٹ کے تحت ہونے والے انتخابات میں اس قدر وسیع پیمانے پر دھاندلی ممکن نہیں ہو سکتی کہ عام انتخابات میں”فرشتوں” کی بھرپور پشت پناہی کے باوجود دو سے ڈھائی درجن نشستیں جیتنے والی سیاسی جماعت کو یکایک سو سے زائد نشستیں تھما دی جائیں. یاد رہے جناب آصف زرداری نے بھی نواز شریف کی ڈس کوالیفیکیشن کے بعد میاں صاحب کو یہی پیغام بجھوایا تھا کہ خان صاحب کی فکر کرنے کے بجائے اصل کھلاڑیوں کی فکر کریں کیونکہ اگر عام انتخابات میں تمام جماعتوں کو حصہ لینے سے بھی روک بھی دیا جائے اور خان صاحب یا ان کی جماعت تن تنہا الیکشن لڑیں تو پھر بھی خان صاب وزیراعظم نہیں بن سکتے. خیر قصہ مختصر یہ کہ خان صاحب بالآخر یہ بنیادی نکتہ سمجھ گئے کہ عام انتخابات جتوا کر انہیں وزیر اعظم بنانا “فرشتوں” کے بس میں بھی نہیں ہے.
یہ وہ وقت تھا جب خان صاحب کو احساس ہوا کہ وہ اقتدار کی ریس میں جیتنے والے گھوڑے نہیں ہیں بلکہ اس ریس میں وہ محض ایک “خچر” ہیں جسکی پشت پر سارا بوجھ ڈھو کر نواز شریف کو نکال باہر پھینکا گیا. نتھیا گلی میں کچھ اہم شخصیات کا دعوی ہے کہ خان صاحب نے حقیقت کے آشکار ہونے کے بعد انتہائی ڈیپریشن میں دن گزارے. مایوسی کا یہ عالم تھا کہ وہ نوازشریف جس سے خان صاحب ایک منٹ وزارت عظمی کی کرسی پر بیٹھے نہیں دیکھ سکتے تھے اس کے جانے کے باوجود بھی آپ نے خان صاحب کو اکا دکا مواقعوں کے علاوہ کہیں بھی روایتی گھن گرج یا شیخیاں بگھارتے نہیں دیکھا ہو گا. خان صاحب کو اس امر کا بھی احساس ہو گیا جو “فرشتے ” ایک اقامے کو بنیاد بنوا کر ملک کے طاقتور ترین سیاست دان اور دو تہائی مینڈیٹ کے وزیر اعظم کو نااہل کروا سکتے ہیں تو وہ کس قدر آسانی سے غیر ملکی فنڈنگ، پارٹی فنڈز میں خورد برد زکات چوری اور سٹاک ایکسچینج میں حال ہی میں دو نمبر طریقے سے سینکڑوں کڑوڑوں روپے کا کالا دھن کمانے والوں کو پابند سلاسل کر سکتے ہیں.
چنانچہ راوی کہتا ہے کہ اس دن سے لیکر آج کے اس وقت تک خان صاحب وزیر اعظم کی کرسی سے زیادہ اپنی فائلیں دبوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور فرشتوں سے ان فائلوں کے ہمیشہ کیلئے بند کرنے کی گارنٹی مانگتے پھر رہے ہیں.نتھیا گلی کی فضائیں یہ بھی بتا رہی ہیں کہ انگلینڈ میں اس وقت ایک نیا این آر او ترتیب دیا جا رہا ہے .کھلاڑی فریقین اور این آر او ترتیب دینے والے وہی سابقہ اقتدار کی شطرنج کے چہرے ہیں جو پچھلے این آر او میں موجود تھے فرق صرف اتنا ہے کہ اب خان صاحب بھی اس این آر او میں شریک ہوں گے. فرشتوں نے نواز شریف کو آسان حریف گردانتے ہوئے سمجھا تھا کہ اسے “گاڈ فادر” قرار دلاو کر اور نااہل کروا کر نہ صرف نون لیگ کے ٹکڑے کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے بلکہ شریف خاندان کو بھی سیاست سے نکال باہر پھینکیں گے. نواز شریف نے لیکن توقعات کے برعکس جس طریقے سے فرشتوں کوللکارا اور جی ٍٹی روڈ کا سفر طے کیا اس کے بعد حالات تبدیل ہوتے چلے گئے. ٹرمپ کا پاکستان کو دی جانے والی امداد کو مشروط کرتے ہوئے پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے اور ڈو مور کا مطالبہ ہو یا حالیہ برکس ڈیکلیئریشن کا اعلامیہ جہاں چین جیسے دوست ملک کی موجودگی کے باوجود مشترکہ اعلامیے میں پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں سے نپٹنے کی ہدایت کی گئی ہے یہ سب محض اتفاق نہیں ہے.یہ دراصل وہ بیرونی دباؤ ہے جس کےباعث ٹیکنو حکومت لا کر اور ملک میں صدارتی نظام نافذ کر کے ایک فرشتے کو اقتدار کے مسند پر بٹھانے کا سارا کھیل ایک ہی ساعت میں ختم ہو گیا.اور فرشتوں کو بہرحال ایک نئے این آر او کی حامی بھرنا پڑ گئی.
یوں بہرحال اس بات کا تعین ہو گیا کہ لولی لنگڑی جیسی بھی سہی وطن عزیز میں جمہوریت قائم و دائم رہے گی. اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ملک میں آیندہ عام انتخابات کا انعقاد جو کہ ایک ہفتہ قبل تک ناممکن نظر آتا تھا اب اپنے عین وقت پر ہو گا اور کسی بھی فریق کو اس انتخابی عمل سے باہر نہیں کیا جائے گا. اس این آر او کے بعد آپ اگلے عام انتخابات کے بعد ملک کے آئین کے بنیادی ڈھانچے میں اہم ترامیم ہوتی دیکھیں گے. صادق اور امین سے لیکر منصفوں کے منتخب کرنے کے طریقہ کار سے لیکر اداروں کی حدود کا تعین ہوتا بھی دیکھیں گے. خبریں اور بھی ہیں اور آنے والے چند دنوں میں مزید پیش رفت ہونے کے بعد کچھ انتہائی اہم ڈیولپمنٹس بھی سیاسی میدان میں نظر آئیں گی.لیکن فی الحال نتھیا گلی کے پرفضامقام سے فی الحال اتنا ہی. کہ مجھے یوں لگ رہا ہے کہ جیسے یہ پہاڑ یہ ہوائیں یہ بادل سب سرگوشیاں کر رہے ہیں کہ سیاست کے میدان میں کچھ بازیاں ابتدا سے ہی وقتی طور پر ہارنے کیلئے کھیلی جاتی ہیں تا کہ ہار کر بساط کو اپنے نام کیا جائے مجھے امید ہے خان صاحب لندن یاترا کے بعد جب نتھیا گلی آئیں گے تو انہیں یہاں سول سرچنگ کرتے ہوئے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ اس بازی میں جیت دراصل ہارنے والے کی تھی. ایک متبادل بیانیہ، پنجاب میں ترقیاتی کاموں کی لمبی چوڑی فہرست اور عالمی دنیا میں بہترین تعلقات کے دم پر نواز شریف نے پھر سے سیاست میں انٹری حاصل کر لی ہے. نواز شریف کی جنگ اگلے عام انتخابات منعقد کروانے سے متعلق تھی کیونکہ بہرحال پچھلے این آر او کی معیاد 2017 میں ختم ہو چکی تھی. اس نئے این آر او میں خان صاحب کو بھی دستخطی بنوا کر نواز شریف ،زدار ی اور ہمنواؤں نے خان صاحب کو بھی اپنی صفوں میں لا کھڑا کیا. خان صاحب کو اس بساط میں دونوں فریقین کی جانب سے محض ایک مہرے کے طور پر استعمال کیا گیا. بہرحال نتھیا گلی سے خان صاحب کو “مبارکباد” کہ چار سال شیروانی پہننے کی تگ و دو میں انہوں نے قوم کو ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کیئے رکھا وہ تو ان کے حصے میں آنے کے اگر کچھ امکانات موجود بھی تھے تو وہ اب اس نئے این آر او کے بعد ختم ہو گئے.