تحریر : شاہ بانو میر گھر سے نکلے تھے کہ مدینہ جائیں گے ٬ اللہ سے جب مشورہ بار بار کیا جاتا ہے اور مدد مانگی جاتی ہے تو اللہ پاک آپکی رہنمائی کرتے ہیں٬ گھر سے نکلے تھے مدینہ پہلے جائیں گے ، جہاز میں بار بار پیاری استاذہ امینہ زمرد صاحبہ کی بھیجی ہوئی کتابوں کو پڑھ رہی تھی تو ایک خیال اللہ کی طرف سے آیا کہ ہم اگر مدینہ کی بجائے پہلے مکہ جائیں ایک تو احرام کی پابندی پوری ہوتی ہے٬ دوسرے ہم اس طرح مدینہ سے واپسی پر دوسرا عمرہ اکبر بھی کر سکتے ہیں الحمد للہ کیونکہ گروپ کے ساتھ تو تھے نہیں ٬ اس لئے جیسے چاہتے کر سکتے تھے ٬ عمرے 2 ہو جائیں تو بہت اچھا ہے تا کہ پہلے عمرے میں کوئی کوتاہی ہو جائے تو اگلی بار مزید بہتر ادا کیا جائے ٬ ایک رات جدہ میں قیام کیا اپنی چچا زاد بہن کی طرف ، ان کی مہمان نوازی نے دل موہ لیا٬ خاندان کا وہی روایتی انداز مہمان کے لئے ہلکان ہو ہو کر خاطر مدارت کرنا ٬ بھائی صاحب اور انہوں نے مکہ تک ساتھ سفر کیا پھر دوبارہ مکہ لینے بھی آئیں سبحان اللہ محسوس ہی نہیں ہوا کہ ہم کسی دوسرے ملک میں ہیں٬ محبت خلوص خاطر داری الحمدللہ انہوں نے مہمان نوازی کا صحیح معنوں میں حق ادا کر دیا٬ دوسرے روز جدہ سے مکہ اس طرح روانہ ہوئے کہ میری سس ساتھ ہی تھیں ، ہر مہمان کے ساتھ وہ مکہ تک ضرور آتی ہیں ثواب الگ کماتی ہیں اور مہمان کی عمرہ کیلئے بہترین رہنمائی کر کے دل سے دعائیں الگ لیتی ہیں٬ مکہ کی جانب سفر شروع ہوا تو راستے میں پہاڑیاں ان پر چلتےبلڈوزر اور کرینیں نئی بنتی سڑکیں مجھے نواز شریف کی یاد دلا گئیں ٬ایسا لگا کہ نواز شریف یہاں ہی موجود ہے جو اتنی کثرت سے سڑکوں پُلوں کی تعمیر جاری ہے۔
یہی سڑکیں اور پُل ہیں جنہوں نے سعودی حکومت کی آمدنی کی مد میں کثیر اضافہ کر رکھا ہے ٬ 1 کروڑ 50لاکھ تک حجاج کرام کیلئے مکہ اور مدینہ میں انتظامات کئے جا رہے ہیں جنہیں سعودی حکومت نے 2020 تک پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے٬ اتنی کثیر تعداد بہترین ذرائع آمد و رفت کی وجہ سے ہی سہولت سے مکہ سے مدینہ جا سکتے ہیں٬ مکہ میں حرم پاک کو چاروں جانب سے بلند و بالا عمارتوں نے گھیر رکھا ہے ، حجاج کو زیادہ سے زیادہ سہولت فراہم کرنے کیلئے یہاں کثیرالمنزلہ ہوٹلز موجود ہیں ٬ اذان ہوتے ہی پانچوں وقت انہی ہوٹلز سے اور قرب و جوار کی گلیوں سے لوگ یوں امڈتے ہیں کہ منظر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے٬ عام نمازی اور ان میں سفید احرام میں ملبوس عمرہ زائرین سڑکوں کو یوں سفید کرتے ہیں گویا فرشتوں کا قافلہ چل رہا ہو٬ ٬بچوں کو چھوڑ کر پیاروں کو چھوڑ کر یہاں آنے والے اس پاک گھر کی پُرنور زیارت کے بعد دنیا سے گویا لاتعلق ہو جاتے ہیں۔
ہر طرف سے پکار ایک ہی آتی ہے لبیک الھمہ لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد وانعمة لک والملک لا شریک لک باب عبدالعزیز سے داخل ہوتے ہی سامنےکالی سیاہ پوشاک کی چمک نگاہوں کو چکا چوند کر دیتی ہے٬ کیا کیفیت طاری ہوتی ہے کہ انسان مبہوت ہو کر مجسم دعا بن کر رہ جاتا ہے٬ زبان گنگ ذہن ماؤف اور زار و قطار بہتے آنسو٬ احساس ندامت کا احساس اور ہچکولے لیتے انسانوں کے جسم کس طرح فریاد کناں ہوتے ہیں۔
اللہ اکبر کوئی بیان نہیں کر سکتا اس پر اٹھی پہلی نظر اور اس پہلے طواف کو، پاؤں ٹھنڈے فرش پر چلتے ہوئے پہلی بار اپنے آپ پر نازاں ہوتے ہیں٬ کہ یہ تھا وہ مقام جہاں تک مجھے پہنچنا تھا، نگاہیں تراوٹ سے تر بصارت شکر گزار ، سماعت سے ٹکراتی وہ پُرسکون ٹھنڈی میٹھی اذان کی آواز کہ جس کو سننے کی خواہش ہر مسلمان عمر بھر کرتا ہے٬ ارد گرد دعائیہ کلمات ادا کرتا ہوا ہجوم جس میں نہ کوئی امیر نہ ۤغریب ، طنطنہ سب ختم ٬ تکبر اکڑ کچھ ہونے کا احساس بھربھری مٹی بن کر نجانے کہاں کھو جاتا ہے۔
ہر انسان عاجزی سے اپنے رب کے حضور گناہوں کی بخشش کا طالب ، ہر انسان معافی کا طلبگار ، ہر آنکھ پُرنم اور سب کے اٹھے ہوئے ہاتھ خشیعت الہیٰ سے لرزیدہ ٬ عمرہ کیلئے مخصوص کئے ہوئے واحد دروازے سے جیسے ہی آپ حرم ے اندر داخل ہوتے ہیں دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ وہاں موجود دکھائی دیتے ہیں٬ طواف کا روح پرور منظر 24 گھنٹے بلا روک ٹوک جاری رہتا ہے اور صرف فرض نماز کیلئے ساکت ہوتا ہے۔
یہ ان کیلئے کھلا چیلنج ہے کہ آئیں دیکھیں کہ اللہ کا نظام اپنی پوری حقانیت کے ساتھ نافذ العمل ے اور قیامت تک رہے گا (انشاءاللہ ) بیت اللہ کے اوپر بیت المعمور اور کسی نے وہاں ہی یہ بات بتائی کہ عین خانہ کعبہ کے اوپر آسمان پر اللہ کا عرش عظیم بھی قائم ہے (واللہ اعلم ) چوبیسوں گھنٹے اس راستے سے اندر داخل ہونے والے لوگ ان کیلئے دعوت فکر رکھتے ہیں جو کائنات کی وسعت کو دیکھ کر آسمان کی بلندیوں کو دیکھ کر بھی کہتے ہیں کہ کوئی خالق نہیں (نعوز باللہ ) محض ایک دھماکہ ہے جس سے دنیا معرض وجود میں آئی ہے٬۔
ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچتا ہوا یہ انسانوِں کا سمندر تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا٬ ماحول کوئی کیسے بیان کرے ٬ جلال ہی جلال دھڑکتے دل گناہوں کے پشتارے اٹھائے ہوئے ہر نفس توبہ کرتا استغفار پڑہتا اپنے رب کو مناتا دکھائی دیتا ہے٬ جاتا ہے تو بوجھل بھاری دل کے ساتھ عمرہ ادا ہوتا ہے تو آنسو ساری کثافت بہا کر لے جاتے ہیں اور گہرا اطمینان قلب عطا کرتے ہیں۔
خوبصورت احساس کسی بادشاہ کے نہیں شہنشاہوں کے شہنشاہ کے مہمان ہیں ہم کیسا اچھا میزبان سبحان اللہ مہمان کی میزبانی بھی کرتا ہے اور مسیحائی بھی ، حرم میں نور ہی نور روشنی ہی روشنی اجالے ہی اجالے دل دماغ کی تراوٹ جیسے تروتازہ ہو گئے ہوں قلب و نظر پہلے عمرے کے سات چکر تو ہچکیوں سسکیوں میں روتے گزر گئے بے یقینی کی کیفیت اور جذب کا عالم ارد گرد سے لاتعلق صرف حاضری کا احساس اور خالی دامن کی فکر کہ سبحان اللہ میرے رب نے مجھے اتنی عزت دی کہ مجھےاپنا مہمان بنایا ٬ دنیا جہاں کے کام انسان پیسے کے بل بوتے پر کر سکتا ہے٬ ہر کامیابی کو پیسے سے حاصل کیا جا سکتا ہے مگر یہاں پیسہ نہیں چلتا ٬ یہاں پہنچ صرف اخلاص اور اللہ کی رضا سے ممکن ہے۔
دل شفاف اور تائب ہے تو اجازت ملتی ہے٬ جب اس کا بلاوہ آئے تبھی انسان کی قسمت کا ستارہ روشن ہوتا ہے٬ 7 نومبر 2017 کو ترجمہ کے ساتھ قرآن پاک کی تکمیل ہوئی تھی بیٹے کی وجہ سے یہ سفر بہت مشکل تھا قدم قدم پر سفر ادھورا چھوڑنے کا خوف تھا، منت مانی تھی کہ قرآن پاک مکمل ہوا تو عمرہ ضرور کرنا ہے اور حطیم میں شکرانے کے نفل ادا کرنے ہیں ٬ لاکھ احسان اس رب عظیم کا کہ فورا ہی قبولیت ہوئی اور عمرہ کی تیاری ہو گئی ، عمرہ تو میری پیاری سسٹر کی وجہ سے بہت ہی آسانی کے ساتھ مکمل ہوا٬ برق رفتاری سے ملتزم حتیم باب ابراہیم تک رسائی حاصل کی٬ ملتزم، خانہ کعبہ کی دیوار کو چوم چوم کر اپنے لئے اور ان تمام کیلئے جنہوں نے دعا کا کہا تھا الحمد للہ رو رو کر دعا کی ٬ شائد اپنے والدین کیلئے اتنی دعائیں نہیں کیں جتنی دعائیں اپنے محترم استاذہ کرام کیلئے کیں خاص طور سے محترمہ امینہ زمرد صاحبہ کیلئے تو رواں رواں دعاگو ہے۔
میری شخصیت کی شکست و ریخت کو انہوں نے از سر نو تعمیر کیا ٬ان کی محنت ان کی محبت ان کی فکر اور ان کی دعاؤں کی چھاؤں تھی جو اللہ پاک نے ہدایت کے راستے پر چلنا سکھایا اللہ پاک دنیا و آخرت میں انہیں اپنے بہترین انعامات عطا کرے آمین سعی کرتے وقت یہی دعا لب پر رہی کہ مالک تجھ سے مانگ کر میں کبھی نامراد نہیں رہی اے اللہ حضرت ھاجرہ کی سعی کو مناسک حج قرار دے دیا وہ عظیم نیک عورت تھی ، اس کی ممتا نے ویران بنجر پہاڑی پر زم زم بہا دیا تو یہ ماں بھی سعی کر رہی ہے اور اپنے خاموش بیٹے کیلئے تجھ سے سوال کرتی ہے٬ کُن کہ دے مالک امام بخاری کی بینائی ان کی ماں کی آہ و بکاہ نے لوٹا دی تو میری بھی پُکار سن لے مالک دعا کر کے گویا چین سا مل گیا ٬ زندگی میں اتنا سکون اتنا اطمینان کبھی نہیں ملا جیسا اب ہے٬ اللہ اکبر اب ہر فکر سے بے فکر جب سارے معاملات اس کے ہاتھ میں دے دیے تو میں اب ہر فکر سے بے فکر ہوں وہ جانے اور لوگ جانیں٬ ٬ کہ دیا کہ میں تیرا کام کرنا چاہتی ہوں میرے تمام معاملات میرے رب سنبھال لے ٬ الحمدللہ نئی روشنی نئی امید نئی تمنا جاگی ہے کہ اب تو جو دیکھ لیا اسکو سنبھال کر رکھنا ہے، ان قیمتی مُبارک ساعتوں کو زندگی کا مقصد حیات بنا کر جینا ہے٬ کہ مُبارک سفر کچھ دنوں کیلئے مسحور کرنے کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ تو فرقان کا علم کا شعور کا آگہی کا اگلا زینہ تھا جو اللہ پاک نے عطا کیا ٬ اس کو مشعل راہ بنا کر باقی زندگی گزارنی ہے ذمہ داری بڑھ گئی بوجھ زیادہ ہو گیا جسے اب قرآن اور حدیث کے علم کو زیادہ فکر اور شعور سے حاصل کرنا ہے٬ مکہ میں 4 روز قیام کے بعد ہم مدینہ روانہ ہوئے جاری ہے۔۔۔