واشنگٹن (جیوڈیسک) ایران کے ذرائع ابلاغ نے باور کرایا ہے کہ امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں شامل ہونے والے ایران مخالف رہ نماؤں اور کانگریس کے تہران مخالف اقدامات کے باعث ایرانی رجیم سخت مشوش ہے۔
20 جنوری کو باضابطہ طور پر منصب صدارت کا حلف اٹھانے کے بعد امریکا کے صدر بننے والے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کی موجودہ ٹیم پر ایران کو سخت پریشانی لاحق ہے۔ ایرانی رجیم کو خطرہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ میں ایک ایک کرکے وہ لوگ شامل ہو رہے ہیں جو ایران کے سخت ترین مخالف شمار کیے جاتے ہیں۔
یہی لوگ کل کو کانگریس میں ایران کے خلاف کوئی نیا محاذ تیار کریں گے۔ ایران میں انسانی حقوق کی پامالیوں اور تہران کے متنازع میزائل پروگرام پر کانگریس میں ایران کے خلاف نئی پابندیاں منظور کی جائیں گی۔
خبر رساں ایجنسی ’تسنیم‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے سینیٹر ڈن کوٹز کو نیشنل انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر منتخب کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ امریکا میں تشکیل پانے والی نئی حکومت ایران دشمنوں پر مشتمل ہے۔
اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈن کوٹز اور اس طرح کے کئی دوسرے افراد جو ٹرمپ انتظامیہ کا حصہ بنے ہیں ایران کے ساتھ طے پائے جوہری معاہدے کے سخت خلاف ہیں۔
معروف امریکی تجزیہ نگار مائکل لدین نے جریدہ ’فوربز‘ میں لکھے اپنے ایک حالیہ مضمون میں لکھا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم میں شامل بعض وزراء اور سیکیورٹی افسران جن میں کفلین، ماٹیز، کلی اور بومبیو شامل ہیں ایران کے متنازع جوہری پروگرام کے سخت مخالف ہیں۔ یہ لوگ نہ صرف ایران کے ساتھ کسی قسم کی نرمی کے روادار نہیں بلکہ ایران میں نظام حکومت تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔
ادھر اسی سیاق میں امریکی کانگریس کے ارکان نے ایران پر پابندیوں کو دو نئے بل پیش کیے ہیں۔ ان میں سے ایک بل کانگریس کی خارجہ کمیٹی کو ارسال کیا گیا ہے جس کہا گیا ہے کہ ایران کو جوہری ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کے لیے امریکی مسلح افواج کو طاقت کے استعمال کی اجازت دی جائے۔
پابندیوں کی نئی فہرست پر مبنی یہ مطالبہ رکن کانگریس السی ھسٹینگز نے پیش کیا ہےجس میں انہوں نے کہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش پر تہران کے خلاف طاقت کے استعمال کا آپشن کھلا رکھا جائے۔ دوسری فہرست میں ایران کے بیلسٹک میزائلوں پر پابندیاں شامل ہیں۔ ایران میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر بھی تہران کے خلاف پابندیوں کی سفارش کی گئی ہے۔