گزشتہ پانچ برسوں سے ملک میں آر ایس ایس کے در پردہ بی جے پی کی حکومت نے جس طرح ملک کی گنگا جمنی تہذیب کو پامال کیا ،عدم رواداری کو فروغ دیا ، ملکی معیشت کو تباہ و برباد کیا ، کسانوں کو خود کشی پر مجبور کیا ، بے روزگاروں کو پکوڑے بیچنے کا مشورہ دیا ، فوجیوں کے حقوق اور مراعات کو نظر انداز کیا،دلتوں پر جبر وظلم کے پہاڑ توڑے، اقلیتوں کی حب الوطنی پر سوال کھڑے کر، ملک کے لئے دی گئی تمام تر قربانیوں کو فراموش کرتے ہوئے انھیں غدار وطن بتایا گیا ، اور ان کی مذہبی آزادی کو سلب کرنے کی ہر ممکن کو شش کی گئی ، دانشوروں کو بے وقعت اور ذلیل و رسوا کیا گیا ، فلمی ستاروں کو لوگوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں پر زبان بند رکھنے کے لئے طرح طرح کی دھمکیاں دی گئیں اور پورے ملک کے اندر کے آپسی اتحاد و اتفاق کا شیرازہ بکھیرکر خوف و ہراس ، نفرت ، انتشار ، فرقہ واریت اور عداوت کا ماحول تیار کیا گیا۔
یہ صرف اس لئے ہوا کہ ان باتوں کے پس پشت گجرات تجربہ گاہ میں تیار کیا جانے والا وہ گُر تھا ،جس سے اقتدار پر قبضہ کیسے جمایا جائے ۔ اس لیبارٹری میں یہ دیکھا گیا ہے کہ عوام کی فلاح و بہبود اور ان کی بنیادی ضرورتوں کی بجائے فرقہ واریت ، انتہا پسندی اورفاشزم پر قائم رہ کر اقتدار پر کس طرح قابض رہا جا سکتا ہے ۔ یہی وجہ ہوئی کہ عوام کے فلاحی کاموں سے یکسر چشم پوشی کی گئی اور حالات ایسے بنائے گئے کہ ملک کے لوگ خوف و دہشت میں مبتلا رہیں ۔ عوام کے لکھنے بولنے اور ان کے اظہار آزادی پر غیر اعلانیہ طور پر پابندی لگا دی گئی۔ ملک کے عوام پر کئے جانے والے ظلم وزیادتی، استحصال و نا انصافیوں پر اب تک اتنے مضامین، تاثرات، بیانات اور قتل وخون کی داستانوں سے اخبارات کے اتنے صفحات سیاہ ہو چکے ہیں اورویڈیوز وغیرہ سامنے آ چکے ہیں کہ اب مذید ان کی تفصیل بیان کرنا وقت کی بربادی کے سوا کچھ نہیں۔ خود میں نے گزشتہ پانچ سالوں میں ظلم و زیادتی اور قتل و غارت گری پر اتنے سارے مضامین لکھے ہیں کہ لکھتے لکھتے میری انگلیاں لہو لہان ہو گئی ہیں۔
ایسے غیر یقینی ، غیر آئینی ، غیر قانونی، اور غیر انسانی حالات شائد ملک کے کبھی نہیں رہے کہ ملک کا ہر شخص پریشان رہا ۔ یہی وجہ ہے کہ عام طور پر یہ بھی بات سامنے آ رہی ہے کہ آزادی سے قبل ملک کے جو حالات تھے ، ویسے ہی حالات اس وقت ہیں ۔ مٹھی بھر لوگوں کو چھوڑ کر ملک کی پوری آبادی کو عدم تحفظ کا شکار بنا دیا گیا۔ ہر جانب خوف ، دہشت اور سراسمیگی کا ماحول ہے ۔ اس کے باوجود ملک کے کونے کونے سے احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن چونکہ پارلیامنٹ میں بی جے پی حکومت کو پوری اکثریت حاصل ہے ۔ اس وجہ کر پورے ملک کے لوگوں کو آنے والے 2019ء کے عام انتخاب کا بڑی بے چینی سے انتظار ہے کہ اس انتخاب میں ملک دشمن حکومت کو اقتدار سے باہر کر دینے کے موقع سے فائدہ اٹھائینگے۔اس کے لئے ملک کی تمام سیکولر علاقائی سیاسی پارٹیاں بھی عوام کے ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ ان تمام علاقائی سیاسی پارٹیوںکے ساتھ ساتھ ملک کے عوام بڑی امید بھری نظروں سے قومی سیاسی پار ٹی ہونے کے ناطے کانگریس پر ٹکی ہوئی تھیںکہ اس پارٹی کی سربراہی میں تمام سیکولر سیاسی پارٹیاں ایک پلیٹ فارم پر آ کر بدعنوانیوں، ریشہ دوانیوں ،فرقہ واریت، عدم رواداری کو بڑھاوا دینے والی حکومت کا قلع قمع کر ینگی ۔
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ گزشتہ ایک سال میں دہلی، پٹنہ، اور کولکتہ وغیرہ جیسے اہم مراکز میں سیکولر نظریات رکھنے والی اور موجودہ حکومت سے حد درجہ اختلاف رکھنے والی سیاسی پارٹیوں بشمول کانگریس پارٹی کا بڑااجتماع جہاں کہیں منعقدہوا۔ لوگوں کو یہ دیکھ کراطمینان ہوتا رہا کہ تمام سیکولر پارٹیاں تقریباََایک پلیٹ فارم آ گئی ہیں اور یہ اتحاد یقینی طور پر فرقہ پرستوں کی حکومت سے نجات دلانے میں کامیاب ہوگا۔ کانگریس پارٹی بلا شبہ اس وقت تک ان تمام سیاسی پارٹیوں کے اتحاد و اتفاق میں نمایاں رول ادا کر رہی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ تین ریاستوں کے لوگوں نے بی جے پی کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کر عنان حکومت کانگریس کو سونپ دیا۔ بس یہیں سے کانگریس کی خوش فہمی کا دروازہ کھلتاہے اور کانگریس کے ضعیف العمر اور سیاسی طور پر نا اہل ثابت ہو چکے رہنماوں نے ملک کی سیکولر سیاسی جماعتوں سے پیچھا چھڑانے اور تن تنہا ملک کی سربراہی کے خواب دیکھنا اور دکھانا شروع کر دیا ، ورنہ اس سے قبل جب کبھی سیکولر سیاسی پارٹیاں کسی ایک پلیٹ فارم پر آئیں ، اس وقت سونیا گاندھی کا بار بار مایا وتی اور ممتا بنرجی کو اپنے قریب کھینچنا اور ان سے ہنس ہنس کرباتیں کرنا ، راہل گاندھی کا اکھلیش یادو ، اروند کیجریوال وغیرہ سے رازدارانہ انداز میں گفتگو کرنے کی تصاویر اورویڈیوز وغیرہ لوگوں کے دلوں کو سکون و اطمینان بخش رہے تھے کہ اس بار سیکولر پارٹیوں کا اتحاد بی جے پی کی عوام مخالف حکومت کو اکھاڑ پھینکنے میں ضرور کامیاب ہوگا۔لیکن کچھ ہی دنوںبعد پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخاب میں تین ریاستوں میںکامیابی حاصل کرنے والی کانگریس پارٹی نے دو ریاستوںمیں اکھلیش یادو اور مایا وتی کے چند کامیاب ہونے والے امید واروں کو پوری طرح نظر انداز کر ایک غلط پیغام دینے کی کوشش کی۔ جس کی وجہ کرتھوڑی خفگی نے جنم لیا اور اپنی ناراضگی کا اظہار بھی ان دونوں رہنماوں نے کیا ۔
جس کا کانگریس پر کوئی اثر نہیں ہوا ۔ حالانکہ کانگریس پارٹی چاہتی تو ناراضگی کے اظہار کے بعد دوستی میں پڑنے والی گانٹھ کو دور کر سکتی تھی۔لیکن کانگریس نے ایسا نہیں کیا اور اس کے بعد بدمزگی بڑھتی گئی ۔ اس کھٹاس کے باوجود ملک کی تمام سیکولر سیاسی پارٹیوںنے اتحاد کے دروازے کانگریس کے لئے کھلے رکھے۔ لیکن کانگریس پارٹی اپنی خوش فہمیوں پر قائم رہتے ہوئے آگے بڑھتی رہی اور زمینی حقائق سے نظریں چراتی رہی۔ اتر پردیش میںکئی برسوں سے فلمی اداکار راج ببر جو اپنا زیادہ وقت ممبئی اور دہلی میں گزارنے کے لئے جانے جاتے ہیں ، انھیں ریاست اتر پردیش کانگریس کا صدر بنائے رکھا ۔ بہار میں کوکب قادری قائم مقام صدر کے طور پر تیجسوی یادو کے ساتھ مل کر بی جے پی کے خلاف شاندار ماحول بنانے کے ساتھ ساتھ پوری ریاست بہار میں کانگریس کو مضبوط کرنے کی کوشش میں جی جان سے لگے ہوئے تھے ۔لیکن اچانک ان کے اوپر مدن موہن جھا جیسے غیر معروف شخص کو مسلط کر دیا گیا ۔ جس کا نتیجہ ہوا کہ بہار میں جس تیزی سے کوکب قادری کانگریس میں نئی جان پھونک رہے تھے ، اس پر بریک لگ گیا ۔ بنگال میں جس دن تین اسمبلیوں کے نتیجے سامنے آئے تھے ۔ اس دن ،میں اتفاق سے کلکتے ہی میں تھا اور میں نے دیکھا تھا کہ وہاں کانگریسیوں نے اپنی پارٹی کی شاندار کامیابی پر بہت شاندار جلوس نکالا تھا ۔ لیکن وہاں کانگریسیوں نے جس طرح بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بنرجی کے خلاف زہر اگلے تھے ۔ جس کی تفصیلات دوسرے دن اخبارات میں آئی تھیں ، انھیں دیکھ کر مجھے سخت تعجب کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہوا تھا کہ ایک طرف ممتا بنرجی کانگریس سے اتحاد کے لئے رضامند ہیں ، وہیں بنگال کانگریس تین ریاستوں کی کامیابی کے نشہ میں ایسے بد مست ہیں کہ انھیں اپنے دوست اور دشمن کا بھی اندازہ نہیں ہے ۔ دہلی میں ناکام ثابت ہو چکی اور عمر کے آخری پڑاؤ پر کھڑی شیلا دکشت کو ایک بار پھر صدر کے طور پر دہلی کے کانگریسیوں پر مسلط کر دیا گیا اور اس ضعیفہ نے وقت اور حالات کی نزاکت کو سمجھے بغیر عاپ سے کانگریس کی دوری بنائے رکھنے کے لئے پوری طاقت لگا دی ہے۔ بہار میں بھی پرانے کانگریسی سدا سنگھ نے آر جے ڈی کے بغیر انتخاب لڑنے کی دھمکی دے ڈالی ہے۔ جبکہ ریاست بہار میں کانگریس کے کسی ایک ضلع میں بھی اس کے صدر متحرک اور فعال نہیں ہیں ، پھر وہ کس دم خم پر تنہا انتخاب لڑنے کی بات کر رہی ہے ،یہ سمجھ سے پرے ہے ۔
اب ایسے حالات میں ملک کے سیکولر اور بی جے پی کی حکومت سے پریشان لوگوں کا یہ سوچنا شائد غلط نہیں کہ کانگریس کا نشانہ دراصل 2019 کے بجائے 2024 ء ہے ۔ وہ در اصل یہ سوچ رہی ہے کہ بی جے پی کی بڑھتی لا قانونیت ، انانیت، بربریت، بدعنوانی، استحصال اور معیشت کی بد حالی کے باعث جیسے جیسے اس پارٹی سے لوگوں کی بے زاری اور ناراضگی بڑھے گی ،پریشان ہو کر لوگ کانگریس کی پناہ میں ہی آنا چاہینگے ۔ اس درمیان 2019 ء میں بی جے پی یا سیکولر اتحادیوں کی کمزور حکومت بن جاتی ہے تووہ زیادہ دنوں تک نہیں چلے گی اور اس کے بعد وسط مدتی انتخاب یقینی ہوگا ۔ ایسے میں کانگریس پارٹی اپنی اکثریت کے ساتھ حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگی ۔ کانگریس کی نگاہ سے غالباََ بھاجپائیوں کا یہ بیان نہیں گزر رہا ہے کہ 2019 ء کے بعد اس ملک میں انتخاب نہیں ہوگا ۔ کل ہی ممبر پارلیامنٹ ساکھشی مہاراج نے بڑے فخر کے ساتھ آر ایس ایس اور بی جے پی کے اس منصوبہ کا اظہار کیا ہے ۔ اس سے قبل امیت شاہ کا یہ بیان آ چکا ہے کہ ہم ملک پر پچاس سال حکومت کرینگے۔
ایک طرف تو کانگریس پارٹی گاندھی نگر میں مودی اور شاہ کے گڑھ میں بی جے پی کو شکست دینے کے لئے ہر قربانی دینے کی بات کر رہی ہے اور کانگریسی یہ بھی کہتے نہیں تھک رہے ہیں کہ اس بار کا انتخاب یہ طئے کرے گا کہ ملک گاندھی کے نظریہ پر چلے گا یا گوڈسے کی فرقہ واریت اور انتہا پسندی پر ۔ لیکن افسوس کہ عملی طور پر کانگریس ایسا کوئی ثبوت نہیں دے رہی ہے کہ وہ آخر چاہتی کیا ہے ۔
اس پورے منظر نامے سے ملک کے سیکولر ذہن کے لوگوں کی ناراضگی اور مایوسی کانگریس کے تئیں سخت برہمی میں بدلتی جا رہی ہے ۔ سابق رکن پارلیامنٹ محمد ادیب، زیڈ کے فیضان ،الیاس ملک اور راحت محمود چودھری وغیرہ کا ایک بیان سامنے آیا ہے ، جس میں ان دانشوروں نے کانگریس کے ایسے رویۂ پر تشویش کے ساتھ ساتھ سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ اس بار پھر کانگریس طشت پر سجا کر ملک کی باگ ڈور بھارتیہ جنتا پارٹی کو دینا چاہتی ہے ۔ اس جملے سے ہی لوگوں کی حد درجہ خفگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ لوگوںکا یہ بھی خیال سامنے آ رہا ہے کہ اس نازک وقت میں اورملک کی سا لمیت کو نظر انداز کرتے ہوئے کانگریس نے سیکولر سیاسی جماعتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ،ان کے مدمقابل خود کو انتخابی میدان میں اتارا تو سیکولرووٹوں کے بکھراؤ کو روکنے کے لئے ممکن ہے کہ کانگریس کو 1977 اور 1992 سے بھی زیادہ سبق سکھانے کی ضرورت پڑ جائے ۔ اس لئے کہ کسی بھی پارٹی اور فرد سے بڑا ،ملک اور اس کی سا لمیت ہے ۔ اس سوچ کو اگر عوام نے عملی جامہ پہنا دیا ، تو کہیں بی جے پی کا ‘کانگریس مکت بھارت’ کا نعرہ سچ نہ ثابت ہو جائے۔