تحریر : پروفیسر رفعت مظہر 3 مارچ کو ایوانِ بالا (سینٹ) کے انتخابات ہوئے اور کیا خوب ہوئے کہ ہر طرف ضمیر فروشی کا غلغلہ اب تک پوری شدومد سے جاری ہے۔ ایوانِ بالا کے اراکین کا چناؤ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کرتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو ملک و قوم کی رہبری کے دعویدار بھی ہیں۔جب ایسے رَہبر ہوں تو پھر رہزنوں کی ضرورت ہی کیا ہے۔ سوائے پیپلزپارٹی کے ہر سیاسی جماعت یہی شور مچا رہی ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں اراکینِ اسمبلی کی بولی لگی اور جس کے نرخ بالا ہوئے ،وہی مقدر کا سکندر ٹھہرا۔ فاٹا میں سینٹ کے انتخاب کا تین اراکینِ اسمبلی نے یہ کہتے ہوئے بائیکاٹ کر دیا کہ باقی لوگ بِک چکے ہیں اِس لیے اُن کے ووٹ دینے یا نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اُنہوں نے جِن چار اصحاب کا ذکر کیا ،وہی منتخب ہوئے، گویا مہرِ تصدیق ثبت ہوگئی کہ ہارس ٹریڈنگ ہوئی اور خوب ہوئی۔ خیبرپختونخوا میں عجب تماشا ہوا کہ پیپلزپارٹی تحریکِ انصاف کی پَکّی 2 سیٹیں چھین کر یہ جا ،وہ جا ۔ خیبرپختونخوا میں پیپلزپارٹی کے صرف چار ارکانِ اسمبلی تھے جبکہ ایک سینیٹر کے انتخاب کے لیے 17 ووٹ درکار تھے۔ گویا پیپلزپارٹی کو 34 ووٹ درکار تھے، 4 اُس کے اپنے اور باقی ”فرشتے”۔ عمران خاں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اُس کے ارکانِ اسمبلی بِکے اور اُنہیں یہ بھی پتہ ہے کہ ہر رُکنِ اسمبلی کے لیے 4 کروڑ روپے کی بولی لگی۔ اُنہوں نے فرمایا کہ اُنہیں یہ تو پتاہے کہ پیسے کِس نے دیئے لیکن یہ نہیں پتا کہ کِس کو دیئے۔ شنید ہے کہ عمران خاں نے خیبرپختونخوا کے وزیرِاعلیٰ پرویز خٹک کی سربراہی میں کمیٹی قائم کر دی ہے جو ”بکاؤ مال” کا سراغ لگائے گی۔ ہم کپتان کو ایک مفت مشورہ دیتے ہیں کہ پہلے پرویز خٹک کی خوب چھان پھَٹک کر لیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ خود خٹک صاحب ہی ”اَندرکھاتے” ہاتھ صاف کر گئے ہوں کیونکہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے خٹک صاحب سے کچھ بعید نہیں۔ ویسے بھی خٹک صاحب خوب جانتے ہیں کہ مستقبل میں اُن کے لیے وزارتِ اعلیٰ خواب وخیال ہی رہے گی، اِس لیے شایداُنہوں نے اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے کام دکھا دیا ہو۔
پیپلزپارٹی کے اربابِ اختیار کہتے ہیں کہ کپتان کے پی کے میں تو ہارس ٹریڈنگ کا ذکر بڑے زوروشور سے کرتے ہیں لیکن پنجاب میں چودھری سرور کی غیرمتوقع جیت پر کچھ نہیں بولتے۔ پنجاب میں لندن پلٹ چودھری سرور کے پاؤنڈز کی چمک نے کام دکھایااور ضمیرفروش رالیں ٹپکاتے اُن پاؤنڈز پر یوں لپکے جیسے کُتا ہڈی کو دیکھ کر لپکتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تحریکِ انصاف کے 30 ارکان تھے جبکہ چودھری سرور 44 لے اُڑے۔ اب رپورٹر چودھری سرور کا پیچھا کرتے نظر آتے ہیں اور چودھری سرور آئیں ،بائیں ،شائیں ۔ پنجاب اسمبلی میں پیپلزپارٹی اور قاف لیگ نے اپنا اپنا اُمیدوار کھڑا کیا ہوا تھا۔ صرف جماعت اسلامی کا ایک ووٹ چودھری صاحب کی طرف جا سکتا تھالیکن باقی ووٹ کہاں سے آئے؟۔ اِس کا جواب غصے میں لال پیلی ہوتی نوازلیگ دے رہی ہے، جس کے گھوڑے بِکے۔ چودھری صاحب کہتے ہیں کہ اُنہوں نے کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا، یہ تو اُن کی ”گورنری” کے دَور کی شاندار کارکردگی کا عوض ہے جو اُنہیں جوق درجوق ووٹ ملتے چلے گئے۔ دروغ بَر گردنِ راوی وہ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ نوازلیگ شکر کرے کہ اُنہوں نے اپنی ”کمپین” پہلے شروع نہیں کی ۔ اگر وہ ایسا کرتے تو سارے ووٹ اُن کی جھولی میں آگرتے اور نوازلیگ مُنہ دیکھتی رہ جاتی۔ بہرحال اب عظمیٰ بخاری آنسو بہائیں یا زعیم قادری چیخیں چلائیں، تحریکِ انصاف نوازلیگ کی ایک پَکّی سیٹ تو لے اُڑی۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ نوازلیگ کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کرنے کے لیے زور تو بہت مارا گیا، پہلے میاں نوازشریف کو وزارتِ عظمیٰ اور قومی اسمبلی سے نااہل کیا گیا، پھرایک حکم کے ذریعے اُن سے نوازلیگ کی قیادت بھی چھین لی گئی اور ساتھ ہی اُن کے َدور میں بطور صدر کیے گئے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دے دیا گیا ۔جس کی بنا پر میاں نوازشریف کے دستخطوں سے جاری شدہ سینٹ کے تمام اُمیدواروں سے شیر کا انتخابی نشان چھین کر اُنہیں بطور آزاد اُمیدوار الیکشن لڑنے کی اجازت دی گئی۔ مقصد محض یہ کہ ایسا کرنے سے نوازلیگ تتر بتر ہو جائے گی لیکن مہربانوں کی ساری تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور نوازلیگ نہ صرف33 ارکان کے ساتھ سینٹ کی سب سے بڑی جماعت بن کے اُبھری بلکہ سرگودھا کے PP-30 کے ضمنی الیکشن میں محیرالعقول کامیابی بھی سمیٹی ۔ اِس سے پہلے لودھراں کے ضمنی الیکشن میں بُری ہزیمت کے بعد عمران خاں نے متعدد بار کہا کہ اُنہیں پتہ چل گیا ہے کہ نوازلیگ کیسے ووٹ لیتی ہے۔ وہ ساڑھے تین سو نوجوانوں کی خود ٹریننگ کریں گے اور سرگودھا کا ضمنی الیکشن جیت کر دکھائیں گے۔ نتائج آنے پر ہوا یہ کہ نوازلیگ کا حمایت یافتہ اُمیدوار 20 ہزار ووٹوں کے بھاری مارجن سے جیت گیا۔ اب خاںصاحب اِس پر تبصرہ کرنے سے بھی گریزکر رہے ہیں۔ اُدھر میاں نوازشریف ہیں کہ دِن بدن اپنی مقبولیت کی رفعتوں کو چھوتے چلے جا رہے ہیں۔ اُن کا تو بس ایک ہی نعرہ ہے کہ
کب دِہلا ہے آفاتِ زمانہ سے میرا دِل طوفاں کو جو آنا ہے تو دروازہ کھلا ہے
بات ضمیرفروشوں سے شروع ہوئی لیکن نکل دوسری طرف گئی، آمدم بَر سَرِ مطلب ،سندھ میں پیپلزپارٹی نے ایم کیو ایم کے ساتھ ایسا ”ہَتھ” کیا کہ وہ بیچاری اپنا نام ونشان ہی کھو بیٹھی۔ اگر پانچویں خواندگی میں فروغ نسیم کی جیت کا اعلان نہ ہوتا تو ایم کیو ایم کے کورے کاغذ پر سینٹ کا ایک دَھبہ بھی نظر نہ آتا۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ فاروق ستّار ”بھائی” ہر روز کہیں نہ کہیں نمودار ہوتے ہیں اور ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر پیپلزپارٹی کو بَد دُعائیں دیتے ہیں لیکن جب سانپ نکل گیا تو لکیر پیٹنے کا فائدہ؟۔ ایم کیو ایم کی اِس بُری ہزیمت پر تبصرہ کرتے ہوئے تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ وہ لندن میں بیٹھے الطاف حسین کا ڈنڈا تھا جو ایم کیو ایم کو متحد کیے ہوئے تھا۔ اب اِس کا بکھرنا ٹھہر گیا۔
بلوچستان کی تو خیر لیلیٰ ہی نیاری ہے۔ اُس کے ارکان منتخب تو کسی اور جماعت کے ٹکٹ پر ہوتے ہیں لیکن جا بیٹھتے ہیں کسی دوسرے کی جھولی میں۔ پہلے خفیہ ہاتھوں نے ثناء اللہ زہری کی حکومت کا تِیا پانچہ کیا اور پھر سینٹ کے انتخابات میں 8 آزاد اراکین کو جتوا دیا۔ پیپلزپارٹی کا بلوچستان کی صوبائی اسمبلی میں ایک بھی رکن نہیں ہے لیکن دعویٰ یہ کیا جا رہا ہے کہ زہری حکومت کے خاتمے اور آزاد ارکان کو جتوانے میں آصف زرداری کا ہاتھ ہے۔ شاید اِسی لیے تحریکِ انصاف کے ایک رکنِ اسمبلی نے جَل بھُن کر سیخ کباب ہوتے ہوئے کہا کہ لگتا ہے آصف زرداری کے پاس کوئی اِسمِ اعظم ہے جسے پھونک کر وہ مَن مرضی کے نتائج حاصل کر لیتے ہیں۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ سینٹ میں پیپلزپارٹی کے صرف 20 ارکان ہیں لیکن زرداری صاحب کا دعویٰ یہ کہ وہ اپنا چیئرمین سینٹ بنا کر دکھائیں گے۔ تحریکِ انصاف بھی 12 ارکان کے ساتھ سینٹ کی چیئرمینی کے لیے زور لگا رہی ہے۔ گویا ضمیرفروشوں کی منڈی ایک دفعہ پھر سَجنے والی ہے ۔حرفِ آخر یہ کہ ضمیرفروشی کے اِس کاروبار پر ”بابا رحمت” کا اَز خود نوٹس تو بنتا ہے، آگے اُن کی مرضی۔