چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد پیداہونے والی صورتحال نے بہت سارے سوالات کے جوابات دے دیئے ہیں جبکہ بہت سارے مزید سوالات کوجنم بھی دے دیاہے۔حکومت کی طرف سے کہاجارہاہے کہ جمہوریت کی فتح ہوئی۔خاندانی غلامی کوشکست ہوئی۔سینیٹرزنے ضمیرکی آواز پر ووٹ دیاجبکہ واضع اکثریت کے باجودشکست کھانے والی اپوزیشن جماعتوں کے قائدین اور رہنماء ضمیرفروشی قراردے کرصادق سنجرانی کے حق میں ووٹ دینے والے اپوزیشن جماعتوں کے سینیٹرزکیخلاف سخت کارروائی کرنے کااعلان کررہے ہیں۔یہاں سوال یہ پیداہوتاکہ جب ایک چیزکاوجود ہی ختم ہوچکاہے توپھراسے فروخت کیسے کیاجاسکتاہے؟جی ہاں عوام یہی کہہ رہے ہیں سیاستدانوں میں ضمیرنام کی کوئی چیز زندہ ہوتی توآج قوم کی حالت بہت مختلف ہوتی۔جب ضمیرپہلے ہی دفنائے جاچکے ہیں توپھرصادق سنجرانی اکثریت کی مخالفت کے باوجود چیئرمین سینیٹ برقرارہیں تواس میںضمیرفروشی کاسوال بھی پیدانہیں ہوتا۔چندخاندانوں کے ذاتی مفادات کے گردگھومتی غلامانہ جمہوریت جمہورکی خیرخواہ ہوتی توآج ملک ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑاہوتا۔اپوزیشن جماعتوں کے سربراہ اپنے اوپرلگے کرپشن کے سنگین الزامات کوعدالتوں میں غلط ثابت کرنے کی بجائے کبھی جج کی ویڈیوپیش کرتے ہیں،کبھی قومی اداروں کیخلاف زہراگلتے ہیں توکبھی مولانافضل الرحمان کاسہارالے کرمدرسے کے بچوں کوسڑکوں پرنکال کرناموس رسالتۖ کے محافظ بننے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ اس وقت ناموس رسالتۖ کے قانون کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑچھاڑ نہیں کی جارہی۔کسی حکومتی نمائندے نے ناموس رسالتۖ یا ختم نبوتۖ کے قانون کیخلاف کوئی بات نہیں کی۔
عوامی حلقے کہہ رہے ہیں کہ اپوزیشن سمجھ چکی ہے کہ عوام ان کی کرپٹ سیاست سے بیزارہوچکے ہیں لہٰذااب یہ اپنی کرپشن کوتحفظ دینے کیلئے مذہب کاسہارالینے کی کوشش میں ہیں۔جب ن لیگ کی حکومت نے ختم نبوت کے قانون کوتبدیل کیاجب محافظ ختم نبوت غازی ملک ممتازحسین قادری شہیدکوپھانسی دی گئی تب حافظ خادم حسین رضوی۔مولاناڈاکٹراشرف آصف جلالی اور دیگر بیشمار علمائ،پیروں اورعوام نے نہ صرف آوازبلندکی بلکہ عملی جدوجہدکی اعلی مثال پیش کرکے ختم نبوتۖ کے قانون میں کی جانی والی تبدیلی واپس کروائی۔مسلمان جانناچاہتے ہیں کہ اس وقت مولانافضل الرحمان کوناموس رسالت ۖیا ختم نبوتۖ کاتحفظ یاد کیوں نہ آیا۔آج جب انہیں حکومت میں حصہ نہیں ملاتوناموس رسالت ۖ کی بات کرکے سیاسی مفادات حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔
بلاول بھٹوزرداری کی مخالفت کے باوجودمولانانے مذہب کے نام پرسیاست جاری رکھی جس کے بعد پیپلزپارٹی کے پاس مولاناکااتحادی رہنے کاکوئی جوازباقی نہیں بچتاپھربھی پیپلزپارٹی مولاناکی اتحادی ہے جس سے یہ بات واضع ہوجاتی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے سربراہ اورکارکن کسی بھی وقت کسی بھی موقف سے پیچھے ہٹ سکتے ہیں کسی بھی معاملے پرذاتی مفادات کی خاطرسمجھوتہ کرسکتے ہیں ایسے حالات میں سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیاسیاسی ضمیرانسانی ضمیرسے مختلف ہوتے ہیں؟سیاستدانوں کے ضمیرعام انسانوں سے مختلف ہیں توضمیرفروشی کی باتیں درست ہوسکتی ہیں البتہ انسانی ضمیرکی غیرموجودگی میں ضمیرفروشی نہیں ہوسکتی۔
ناکامی کے بعد میرحاصل بزنجونے جس طرح قومی ادارے کیخلاف زہراگلااس سے اُن کی شخصیت کھل کرسامنے آگئی ۔ساری دنیاجانتی ہے کہ پاکستان میں کوئی ادارہ منظم ہے تووہ ملکی سلامتی وخودمختاری کاضامن پاک فوج کاادارہ ہے،سیاسی مفادات حاصل کرنے کیلئے سیاستدانوں کی جانب سے پاک فوج کومتنازعہ بنانے کی کوششیں انتہائی شرمناک اورغداری کے مترادف ہیں۔میرحاصل بزنجوکی گفتگوسے یہ بھی ثابت ہوگیاکہ اپوزیشن جماعتوں کے سربراہ اپنی کرپشن کے تحفظ کیلئے کسی بھی حدتک جاسکتے ہیں یہاں تک کہ قومی وقارکوبھی دائوپرلگاسکتے ہیں۔جولوگ سمجھ رہے ہیں کہ صادق سنجرانی کیخلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی جمہوریت کی ناکامی ہے توان کی خدمت میںعرض ہے کہ یہ جمہوریت کی نہیں اکثریت کی شکست ہے۔
سارے معاملے میں اپوزیشن یاحکومت دونوں طرف جمہوریت نام کی کوئی چیزموجودنہیں۔ایک اوراہم سوال یہ کہ کیاجمہوریت چندخاندانوں کی حاکمیت کوکہتے ہیں؟جمہوریت ضمیرکی آوازہے توپھرسارے سینیٹرزاورارکین اسمبلی کے ضمیر پارٹی قیادت کے پابندکیسے بن سکتے ہیں؟ضمیرتوہرانسان کی ذاتی ملکیت ہے جس کی آوازاسے خودسننی چاہئے۔کسی نے پارٹی قیادت کے فیصلوں کیخلاف اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے حق میں ووٹ دیاتوضمیرفروشی کیسے ہوگئی؟سیاستدان اپنے مفادات کے حصول کی خاطرقومی اداروں کومتنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے سیاستدان اہل ہیں تواپنی کارکردگی سے عوام کومتاثرکرنے کی کوشش کریں نہ کہ پاک فوج کیخلاف زہراگل کر،پاک فوج قوم کافخرہے اورقوم یہ ہرگزبرداشت نہیں کرے گی کہ کوئی بھی ایرا،غیرا،نتھو،خیرااٹھے اورپاک فوج کیخلاف زہراگلے،ملکی سلامتی کے ضامن اداروں اوراُن کے سربراہان کیخلاف زبان استعمال کرنے کی بجائے سیاستدان اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کریں توزیادہ بہترہوگا۔اپنی کارگردگی کی بنیادپرعوام کوقائل کرنے کی کوشش کریں تواُن کے حق میں اچھارہے گا۔عوام اُن کی کرپشن اورلوٹ مارسے عاجزآچکے لہٰذااپنی بے گناہی کے ثبوت پیش کرسکتے ہیں توعدلیہ اورعوام کواعتماددلائیں ورنہ عوام کسی کرپٹ اورملک دشمن سیاستدان کوسپورٹ نہیں کر سکتے۔
Imtiaz ali shakir
تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور imtiazali470@gmail.com. 03134237099