36 ووٹ 64 ووٹوں پر بھاری پڑے ، سینٹ میں ”باپ” (BAP ) نے معرکہ مار لیا اور تحریکِ انصاف نے ”ایویں خوامخواہ” کوئلوں کی دلالی میں مُنہ کالا کر لیا۔ نیا پاکستان بنانے والوں نے ہارس ٹریڈنگ کے خاتمے کے دعوے تو بہت کیے لیکن
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دِل کا جو چیرا تو اِک قطرۂ خوں نکلا
ڈیڑھ سال قبل سینیٹرز کے انتخاب میں اِسی تحریکِ انصاف نے خیبرپختونخوا میں اپنے 20 ارکانِ صوبائی اسمبلی کی رکنیت اِس بنا پر معطل کر دی تھی کہ اُنہوں نے پارٹی کی ہدایت کے مطابق ووٹ نہیں دیئے۔ تب کپتان بھی ایسے ضمیرفروشوں کے خلاف آگ اُگلتے رہے لیکن آج چیئرمین سینٹ کے خلاف قرارداد میں ایسے ہی ضمیرفروش ”ضمیر کے قیدی” بن گئے۔ یہی پاکستان کی جمہوریت ہے اور یہی اُس کے رنگ کہ جب کھڑے ہونے کی باری آئی تو چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کے خلاف 64 سینیٹرز کھڑے ہو گئے لیکن جب خفیہ ووٹنگ ہوئی تو 50 رہ گئے اور 14 نے بے ضمیری کی ”بُکل” مار لی۔ اب تحریکِ انصاف کے وزیرمشیر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں کہ اِن 14 سینیٹرز نے ضمیر کی آواز پر لبّیک کہا جبکہ اپوزیشن کے نزدیک یہ میر جعفر و صادق تھے جنہوں نے اُس کی پیٹھ میں چھُرا گھونپا۔”چمک” کی باتیں ہو رہی ہیںاور ”دھمک” کی بھی، سوال مگر یہ کہ قصور کس کا ہے؟، کیا عوام کا یا پھر سیاسی جماعتوں کے سربراہان کا؟۔ جب سینیٹرز کے انتخاب کے لیے پیپلزپارٹی اور نوازلیگ نے ٹکٹ دیئے تو تب اُنہوں نے اِن جعفروں اور صادقوں کو ٹکٹ ہی کیوں دیئے؟۔ ٹکٹ تقسیم کرتے وقت تو تحریکِ انصاف سمیت ہر سیاسی جماعت سارے اصول وضوابط، سلیقے اور قرینے پسِ پُشت ڈال کر صرف ایک چیز مدّ ِنظر رکھتی ہے کہ ”الیکٹ ایبل” کون ہے؟۔
ظاہر ہے الیکٹ ایبل تو وہی ہوتا ہے جس کے پاس دولت کے انبارہوں اور ووٹ خریدنے کی قوت بھی۔ جو جماعت کو بھاری بھر کم فنڈ دے سکے اور اُڑان بھرنے کے لیے ہوائی جہاز بھی۔ البتہ ”مُنہ کا سواد” بدلنے کے لیے ایک دو کارکُن بھی منتخب کروا لیے جاتے ہیں تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے۔ کپتان نے بھی اوّل اوّل نعرہ تو یہی لگایا تھا کہ تحریکِ انصاف میں سبھی لوگ ایسے ہوںگے جن کا دامن داغدار نہ ہو لیکن جب وہ اپنی مقبولیت کے عروج پر پہنچے تو بہت سے جیتنے والے گھوڑے تحریکِ انصاف میں شامل ہوئے اور کپتان کو کہنا پڑا ”آسمان کے فرشتے کہاں سے لاؤں”۔ 2013ء کے انتخاب میں بری ہزیمت کے بعد وہ بھی الیکٹیبلز کی تلاش میں سرگرداں ہوئے اور آج صورتِ حال یہ کہ الیکٹیبلز موجود اور تحریکِ انصاف غائب۔ آپ نوازلیگ، پیپلزپارٹی اور تحریکِ انصاف، تینوں بڑی جماعتوں کے ارکانِ قومی وصوبائی اسمبلی کی فہرست مرتب کرکے دیکھ لیجئے، غالب اکثریت اُن لوگوں کی نظر آئے گی جنہیں عرفِ عام میں ”لوٹے” کہا جاتا ہے۔ تحریکِ انصاف میں آدھے سے زیادہ آمر پرویزمشرف کے ساتھی، باقی پیپلزپارٹی اور نوازلیگ سے درآمد شُدہ، ڈال ڈال پھدکنے والے۔
پاکستانی سیاست میں ”لوٹوں” کی خریدوفروخت کوئی انہونی بات نہیں۔ جمہوریت ہو تو لوٹوں کی بولی لگتی ہے اور آمریت میں فائلیں کھلتی ہیں۔ ضیاء الحق نے 1977ء سے 1985ء تک مجلسِ شوریٰ سے کام چلایا۔ ضیاء کی کابینہ اور مجلسِ شوریٰ میں بڑے بڑے نامی گرامی پہلوان شامل تھے۔ 1985ء کے انتخابات کے بعد وزارتِ عظمیٰ کا تاج محمد خاں جونیجو کے سَر سجالیکن جلد ہی وہ جونیجو سے ”اوازار” ہوئے اور جونیجو کی چھٹی ہو گئی۔ اگر ضیاء الحق طیارہ حادثے میں جاں بحق نہ ہوئے ہوتے تو شاید وہ آج بھی ملک کے سربراہ ہوتے۔ 1999ء میں پرویزمشرف پاکستان کے چیف ایگزیکٹو بنے۔ اُنہیں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے 3 سال کے لیے حقِ حکمرانی بخشا۔ اِس دوران اُنہوں نے اپنی سرپرستی میں قاف لیگ تشکیل دی جس میں نوازلیگ کے چودھری برادران سمیت کئی بڑے نام شامل ہوئے۔ 2002ء کے عام انتخابات میں قاف لیگ وزارتِ عظمیٰ کے لیے مطلوبہ تعداد حاصل نہ کر سکی تو پیپلزپارٹی پیٹریاٹ تشکیل دے کر بلوچستان کے میر ظفراللہ جمالی کو صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیرِاعظم منتخب کروایا گیا۔ میر صاحب آمر پرویزمشرف کو ”باس” کہا کرتے تھے لیکن اُن کی یہ کاسہ لیسی کسی کام نہ آئی اور کچھ عرصے کے لیے چودھری شجاعت حسین نے وزارتِ عظمیٰ کا مزہ چکھا۔ پھر درآمد شدہ شوکت عزیز کے سر پر وزارتِ عظمیٰ کا ہُما بیٹھا۔ وہ وزارتِ عظمیٰ کی بقیہ مدت پوری کرنے کے بعد اپنی سابقہ ملازمت پر لوٹ گئے اور تاحال واپسی ہوئی نہ ہونے کی اُمید۔
جمہوری حکمرانوں کی تاریخ بھی لائقِ تحسین ہرگز نہیں۔ پاکستان کے پہلے عام انتخابات میں پاکستان دولخت ہوا۔ اگلے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پی این اے نے انتخابی دھاندلی پر ایسی تحریک چلائی کہ قوم کو ضیاء الحق کے مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑا۔ ضیاء الحق کے جاں بحق ہونے کے بعد 1988ء سے 1999ء تک بینظیر اور نوازشریف، دونوں کو دو، دو دفعہ وزارتِ عظمیٰ کا حق ملا لیکن ہر بار پیپلزپارٹی اور نوازلیگ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتی رہیں۔ اِس دوران ”لوٹوں” کی خریداری کے لیے چھانگامانگا میریٹ ہوٹل اور مری کی کہانیاں زباں زدِعام ہوئیں لیکن سبق کسی نے نہیں سیکھا۔ عشرے گزر گئے ہمیں یہ نظارہ کرتے ہوئے اور اُمیدِ واثق یہی کہ تا دَمِ مرگ یہی نظارے کرتے کرتے پیوندِ خاک ہو جائیں گے۔ سچ یہی کہ ہمیں جمہوریت نے کچھ فائدہ دیا نہ آمریت نے۔ باقی رہ گیا انقلاب جو یقیناََ خونی ہو گا اور جس سے ہم اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔ موجودہ دَورِحکومت میں یہ انقلاب بھی قریب آن لگاکہ حالات تقریباََ وہی جو فرانس میں تھے۔ فرانس کے شاہ لوئی کو بھی اپنی طاقت کا بہت گھمنڈ تھالیکن جب بھوکوں مرتے بدبودار کسان اُٹھے تو پیرس کی گلیوں میں اُنہی بدبودار کسانوں نے اُسی شاہ لوئی کی کھوپڑی سے فُٹ بال کھیلا ۔ پھر بھی تاریخ کا سبق کسی کو یاد نہیں رہتا۔
آج وطنِ عزیز میں یہ عالم کہ غالب اکثریت کو شکم سیری کے لیے نانِ جویں تک میسر نہیں۔ مہنگائی کا عفریت مفلسوں کو نگلنے کے لیے تیار، خزانہ خالی اور حکمران جھوٹی تسلیاں دیتے ہوئے۔ کپتان کا خیال تھا کہ اُن کے وزیرِاعظم بنتے ہی بیرونی ممالک میں بیٹھے پاکستانی دھڑادھڑ ڈالر بھیجنا شروع کر دیں گے لیکن یہ اُن کی خام خیالی تھی۔ حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن پچھلے مالی سال میں ٹیکس کولیکشن میں 580 ارب روپے کا شارٹ فال دیکھا گیا جو پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا شارٹ فال ہے۔ وزیرِاعظم کہا کرتے تھے کہ حکمران چور ہوں تو کوئی ٹیکس نہیں دیتا۔ تاریخ کے اِس سب سے بڑے شارٹ فال پر اب ہم کسے چور کہیں، ڈاکو کہیں۔
بیرونی ممالک میں وزیرِاعظم کی مقبولیت اظہرمن الشمس۔ وہ 1992ء کا ورلڈ کپ جیتنے کے بعد قومی ہیرو کا درجہ پا چکے۔ اِسی مقبولیت کی وجہ سے وہ شوکت خانم ہسپتال جیسا عظیم کارنامہ انجام دے پائے لیکن وہ بھول گئے کہ قوم رفاعی کاموں میں بہت مخیرمگر کسی کی سیاست چمکانے کے لیے نہیں۔ اپنی اِسی مقبولیت کے زعم میں وہ سمجھتے تھے کہ بیرونی ممالک سے ڈالروں کی بھرمار ہو جائے گی لیکن ہوا یہ کہ فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ میں پچھلے مالی سال کی نسبت 52 فیصد کمی ہوگئی اور صرف ایک ارب 70 کروڑ ڈالر کی انویسٹمنٹ ہوئی۔ جب بیرونی ممالک کو یہ پیغام دیا جا رہا ہو کہ سارے چور اور ڈاکو پاکستان میں اکٹھے ہو گئے ہیں تو پھر بھلا کون بیوقوف انویسٹمنٹ کرے گا۔ کاروباری شخص تو سب سے پہلے اپنا منافع دیکھتا ہے اور جہاں اُسے اپنی رقم ڈوب جانے کامعمولی سا شُبہ بھی ہو، وہ راہِ فرار اختیار کر جاتا ہے۔
7 ستمبر 2018ء کو وزیرِاعظم نے فرمایا کہ بیرونی ممالک میں 80,90 لاکھ پاکستانی موجود ہیں ۔ اگر ہر پاکستانی ایک ہزارڈالربھی ڈیم فنڈکے لیے دے تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور وزیرِاعظم کی کوششوں سے ڈیم فنڈ میں صرف10 ارب 80 کروڑ روپے جمع ہوئے۔ جن میں سے بیرونی ممالک سے ایک ارب 80 کروڑ روپے آئے۔ پھر ”پاکستان بناؤ سرٹیفیکیٹ” کا غلغلہ اُٹھا۔ وزیرِاعظم کا خیال یہی تھا کہ بیرونی ممالک میں بیٹھے پاکستانی دھڑادھڑ سرٹیفیکیٹ خریدیں گے لیکن یہاں بھی اُنہیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور 5 ماہ میں صرف 6 سو آدمیوں نے 2 کروڑ 60 لاکھ ڈالر کے سرٹیفیکیٹ خریدے۔ وزیرِاعظم کی مقبولیت بجا لیکن وہ بیرونی ممالک میں جا کر پاکستان میں ہونے والی کرپشن کا جو نقشہ کھینچتے ہیں، اُس سے پریشان ہو کر کوئی بیرونی سرمایہ کار پاکستان کا رُخ نہیں کرتا۔ اِس کے علاوہ نیب کی پھرتیاں بھی سرمایہ کاروں کی گھبراہٹ کا سبب ہیں۔ اِن حالات کو مدِنظر رکھتے ہوئے فی الحال تو بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔