میں اپنے پچھلے کالم میں ذکر کر رہا تھا کہ ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہے اور احساس ختم ہو گیا ہے۔ اگر ہم میں احساس ہوتا۔ تو ہمارے ہی غریب مسلمان بھائیوں کی بچیاں اسے ہی گھروں میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو رہی ہے۔ جہیز کی لعنت ہمارے معاشرے میں پھیل چکی ہیں کہ کوئی اس کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔ جو غریب لوگ ہیں اپنی بچیوں کی شادیاں نہیں کر سکتے ان کی بچیاں اپنے ہی ماں باپ کے گھر میں پیدا ہوئی۔ جوان ہو کر بوڑھی ہو جاتی ہے اس لیے کہ ان سے رشتہ اس لیے کوئی نہیں جوڑتا اس لیے کہ وہ غریب ہے اور ان کا ماں باپ لڑکے والوں کو جہیز نہیں دئیے سکتے۔
اس ہی وقت گزرتے گزرتے ان کے بالوں میں چاندی آجاتی ہیں اور وہ بوڑھی ہوجاتی ہے آج تک غریب مزدور جو اس مہنگائی کے دور میں سارا دن محنت مزدوری کرتا ہے شام کو اس کو تین سو روپے ملتے ہے اب یہ غریب مزدور تین سو روپے میں اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالے۔اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کروائے۔ان کو سردی گرمی کے کپڑے لیے دیئے یاگھر کا راشن لے آئے۔کہ اپنے گھر کا بجلی کا بل ادا کرئے آپ ہی بتائو کہ یہ مزدور مزدوری تین سو روپے لینے والا مزدور اپنی جوان بچیوں کی شادیاں کسے کرئے گا ۔اس مزدور کو بھی مزدوری اس وقت ملتی ہے جب اس غریب کو کو کام ملے اس غریب مزدور نے اپنے بچوں کو تعلیم بھی حاصل کروانی ہے۔مگر ہم میں یہ احساس پیدا کرئے گا کون ۔ہمارئے ضمیر جو مردہ ہو چکے ہے اس کو زندہ کرئے گا کون کہ اپنے غریب مسلمان بھائی کی مدد کرئے گا کون۔وہ بھی تو وقت تھا جب شام کو روزانہ سب لوگ اکٹھے ہو کر بیٹھاکرتے تھے کسی ایک کو تکلیف ہوتی تو سب ایک جان ہو جاتے۔ کسی کی بھی بیٹی جوان ہوتی توسب اس فکر میں ہو جاتے کہ ہمارے بھائی کی بیٹی جوان ہو گئی ہیں اس کی شادی کرنی ہے کوئی اس بیٹی بولتا کوئی اس کو بہن بولتا۔پھر سب مل کر اپنی بیٹی بہن کے سر پر دوپٹہ رکھتے۔
Wedding
لڑکی کے والد کوبھی اس وقت معلوم ہوتا تھا جب اس کے سب بھائی بزرگ اس کے گھر جاتے تھے ۔جب اس لڑکی کے شادی کے دن رکھے جاتے تھے اور پھر شادی کے لیے اس لڑکی کے سب بزرگ بھائی کوئی اپنی بیٹی کے لیے سونے چاندی کے زیورات بنوا کر اپنی بیٹی کو دیتا تو کوئی کپڑے لا رہا ہے کوئی صندوق بنواکر دے رہا ہے کوئی برتن دئے رہا ہے۔ کوئی اپنی بیٹی کی شادی میں آئے چار پانچ دن قبل آئے مہمانوں پہلے دن سے لیکر بارات اور اس کے بعد تک جو بھی مہمان گھر میں ہوتے ان سب کو کھانا دیتے۔ بارات کو ڈولی سب اسے ڈولی دیتے جسے یہ ان کی سکی بیٹی ہو لیکن افسوس کہ نہ جانے آج کے مسلمانوں کو کیا ہو گیا ہے کیا ہمارئے ضمیر مردہ ہو چکے ہے جس کو دیکھوں ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی ہے۔
کوئی کسی سے نہیں پوچھتا کوئی مرئے یا زندہ رہے ۔او مسلمانوں جو بھی کسی امیر یا غریب کی بہن بیٹی ہے وہ ہماری بھی بہن بٹیاں ہے یہ نہ سمجھوں کہ جو گھر میں ہیں صرف وہی ہماری بہن بٹیاں ہے نہیں نہیں او آج کے نام کے مسلمانوں ہم سب مسلمان ہیں کوئی گورا ہو یا کالا کوئی امیر ہو یا غریب ۔سب مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہے آج اگر کوئی غریب مسلمان اپنی غربت کی وجہ سے تنگ ہے یا اپنی بچیوں کی شادیاں نہیں کرپارہے تو وہ ہمارئے بھائی ہے۔ہم کو ایسے لوگوں کا خیال کرنا چاہیے ۔لیکن افسوس آج اس نفسا نفسی کے دور میں جس طرف دیکھوں لوٹ مار کرپشن۔چوری۔ڈکیتی۔اور تو اور پرچی جوائ۔ٹی وی جواگیم ان پرچی مافیا والوں کو بھی کوئی نہیں پوچھتا ۔شرئے عام روڈز پر پھر رہے ہوتے ہیں قانون کو تو ان لوگوں نے مذاق بنا رکھا ہے کوئی ان کو نہیں پوچھتا۔یہ اپنے ہی مسلمان بھائیوں کو لوٹ رہے ہے آج تک کسی نے اس کی روک تھام نہیں کی۔راشی لوگوں کو دیکھوں چھوٹے سے لیکر بڑے تک جس کا جہاں بھی ہاتھ پڑتا ہے کوئی معافی نہیں دیتا۔
آج کے دور میں وہی شریف انسان ہے جس کو موقع نہیں ملتا ۔اگر جب کبھی اس کو موقع مل جائے تو وہ ان سب سے زیادہ نمبر لے جاتا ہے ۔اگر ان کی نشاندہی کوئی کربھی دیئے ۔تو کوئی اس کو سزا نہیں ملتی بلکہ وہ اپنے پہلی جگہ سے پرموشن کر کے بڑا آفیسر بنتا ہے مثال کے طور پرجیسے کہ ٹی ایم اے جھنگ کا سب انجینیرحسن رضا حیدری جو بغیر تنخواہ کے تقریبا دس گیارہ سال ٹی ایم اے میں کام کرتا رہا ۔لیکن نہ جانے کہ دس گیارہ سال بعد نوکری پرکسے بحال ہو گیا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو ان دس گیارہ سال کی تنخوائیں بھی مل گئی ۔اب تواس کو لوکل گورنمنٹ کا ایس ڈی او بھی بنا دیا گیا ہے۔اس نے قانون کو مذاق بنا رکھا ہے یہ ماصوف اپنی مرضی سے دفتر آتا ہے ٹھیکیدار حضرات کو اپنی بیٹھک میں بیٹھا کر ان کے بل بنتا رہتا ہے اپنی کمیشن وصول کر کے ان کے بلوں پر دستخط کر دینا ۔کام چیک کرنے کی بجائے اپنی کمیشن وصول کرتا ہے کام بھی چیک کرنے نہیں جاتا۔ بس اپنی بیٹھک کو اس نے آفس بنا رکھا ہے۔
آج اگر کوئی شریف النفس آفیسر اس کے کام چیک کروالیے تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا اس کے خلاف لا تعداد خبریں شائع ہوئی ۔مگر افسوس کے اندھا راجا بے دار نگری ۔اس کے خلاف کاروائی کی بجائے اس کو نوکری پر بحال کر دیا گیا ۔ساتھ اس کو تنخوائیں بھی مل کئی ۔اور تو اور اس کو لوکل گونمنٹ کا ایس ڈی او بھی بنا دیا گیا ۔مگر افسوس تو اس بات کا بھی ہے کہ ان کو کسی سے کوئی غرض نہیں ٹھیکیدار کام اچھا کرئے یا برا ۔بس ان کو اپنی کمیشن کے ساتھ ہے ٹی ایم اے جھنگ کے کام اکثر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہے بس ان لوگوں کے کام ٹھیک ہو گئے جنہوں نے اس شہر کو اپنا سمجھا۔یا جو کوئی پرانے ٹھیکیدار ہے ۔اب تو وہ بھی ٹھیکیدار بن چکے ہے اگر ان سے کوئی آفیسر کام کے بارئے پوچھ لیے مگر یہ نہیں بتا سکے گئے۔ ٹی ایم اے کے چند ملازموں نے اپنے ہی عزیز اقارب کے نام پر ٹھیکے لیے کر کام کر رہے ہے۔مگر کسی نے ان سے کچھ نہیں پوچھا ۔ٹی ایم اے جھنگ کے کروڑوں روپے کے ترقیاتی کام شہر بھر میں ہوئے۔مگر افسوس کہ شہر میں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ترقیاتی کا ہوئے ہی نہ ہو آج کسی جگہ چلے جائے تو آپ خود دیکھے گئے کہ راشی لوگوں کی لوگ کسے عزت کرتے ہے ۔ٹی ایم اے جھنگ کے آفسران جو گاڑیاں استعمال کرتے ہے یا جو مشینری ہے ان کی لاک بک چیک کی جائے تو بہت کچھ سامنے آئے گا جھنگ ایک تاریخی ضلع ہے مگر کسی نے اس کی ترقی کی طرف نہیں سوچا۔
ہر دور میں جھنگ سے کوئی نہ کوئی وزیر رہا تو کوئی مشیر مگر یہ شہر اسے ہی رہا جیسے کہ یہ لاوارث شہر ہو۔ یہ بہت بڑا ضلع تھا۔ اگر آپ ضلع جھنگ کی تاریخ پڑھے تو آپ کو معلوم ہو ۔کہ اس کاحدوددربعہ کیا تھا۔ اگر جھنگ کے سیاستدان اس شہر کو لاوارث نہ کرتے تو اس شہر کے ٹکڑئے کبھی نہ ہوتے۔ آج اسے معلوم ہوتا ہے جب ہم چنیوٹ جو ہم سے کچھ عرصہ قبل بچھڑا آج جھنگ کے لوگ سیر وتفریح کے لیے ٹوبہ یا چنیوٹ کے پارکوں کی طرف جاتے ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چنیوٹ جاتے ہے کہ دوسری دنیا میں آگئے ہو لیکن جھنگ تو ایسے ہے جیسے کہ لاوارث ضلع ہو۔افسوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ تعالی ہم سب کو اپنی حفظ امان میں رکھے اور سب کو نیکی کی توفیق دے۔ امین