تحریر : پروفیسر رفعت مظہر ہمارے وزیرِدفاع خواجہ آصف سیالکوٹی نے پارلیمنٹ میں ایک”کھڑاک” کیا جسے الیکٹرانک میڈیا نے ایسے اُچھالاکہ ”بیچارے”خواجہ صاحب کونہ صرف شرمندگی کاسامنا کرناپڑا بلکہ تحریری معافی بھی مانگی حالانکہ وہ بڑی آسانی سے یہ کہہ کرجان چھڑاسکتے تھے کہ دنیا کی کسی بھی لغت میں”ٹریکٹرٹرالی” گالی نہیں۔ لیکن معاملہ چونکہ ”خواتین” کاتھااِس لیے اپنی حسّاسیت کے اعتبارسے کچھ زیادہ ہی طول پکڑگیا ۔ سپیکرصاحب کوتحریری معافی کاخط لکھ کرپورے ایوان سے معذرت کے باوجودخواجہ صاحب کومعافی نہ ملی کہ اِس کاتعلق محترمہ شیریںمزاری سے تھا جن کامطالبہ تھا کہ اُن کانام لے کربراہِ راست معافی مانگی جائے جبکہ خواجہ صاحب کاکہنا تھاکہ اُنہوںنے کسی کانام لے کر وہ غیرپارلیمانی الفاظ نہیں کہے اِس لیے نام لے کرمعافی مانگنے کابھی سوال ہی پیدانہیں ہوتا ۔ اسحاق ڈارصاحب نے تو”مٹی پاؤ” پالیسی اختیارکرتے ہوئے خواجہ صاحب کوکہا بھی کہ وہ شیریںمزاری سے براہِ راست معافی مانگ لیںلیکن اُنہوںنے اسے دَرخورِاعتناء نہ سمجھا۔
خواجہ صاحب نے شاید زندگی میںپہلی بار کسی سے معافی مانگی ہوگی اسی لے اپنی شرمندگی مٹانے اور غصّے پرقابو پانے کے لیے خواجہ صاحب نے ٹھنڈا پانی پینے کی بجائے نہرمیں ہی ڈبکیاں لگانی شروع کردیں جس سے کم ازکم یہ اندازہ توضرور ہوتاہے کہ خواجہ صاحب کاغصّہ کِن انتہاؤںکو پہنچا ہواتھا لیکن ہم تویہ سوچ رہے ہیںکہ اگرمعافی مانگنے پراُن کے غصّے کایہ عالم تھاتو محترمہ شیریں مزاری کاکیا حال ہوا ہوگا جنہیں براہِ راست ”ہِٹ” کیاگیا ۔ بہرحال معاملہ اب کافی حدتک ٹھنڈاپڑ چکاہے ، یہ الگ بات کہ یہ ”ٹھَنڈ” ہمارے آزاداور بے باک الیکٹرانک میڈیاکو پسند نہیںآئی کیونکہ یہ اُن کی روزی روٹی اورریٹنگ کاسوال ہے ۔ اسی لیے اب بھی خواجہ صاحب اورمحترمہ شیریںمزاری خبروںکی زینت بنے ہوئے ہیں۔
Imran khan
سلگتاہوا سوال تویہ ہے کہ ایساکیوں ہورہا ہے ، زبانیں دن بدن درازکیوں ہوتی چلی جارہی ہیںاوردامنِ صبرہاتھ سے کیوں چھوٹ رہاہے ؟۔ہماراخیال ہے کہ ہمارے رَہبرانِ قوم غیرپارلیمانی زبان کوہی سیاسی رفعتیں سمجھ بیٹھے ہیں اوراُن کے نزدیک جب تک بازاری زبان استعمال نہ کی جائے حاضرین ، ناظرین اورسامعین کو لطف نہیں آتا ۔ اِس غیرپارلیمانی زبان کی ابتداء تو ذوالفقارعلی بھٹومرحوم سے ہوئی لیکن انتہا محترم عمران خاں نے کردی جن کے نزدیک بے شرم اوربے حیابھی گالی نہیںہوتی ۔ ”کندہم جنس باہم جنس پرواز” کے مصداق محترمہ شیریںمزاری بھی اپنے لیڈرکے تتبع میںنوازلیگ کے کسی بھی رکنِ پارلیمنٹ کی تقریر کے دَوران جملے کَسنے سے پرہیز نہیںکرتیں ۔ اِس سے پہلے طلال چودھری کے ساتھ بھی اسی پارلیمنٹ میںاُن کی ”تُوتکار” ہوچکی ۔ شایدمحترمہ کوحضورِاکرمۖ کایہ فرمان یادنہ ہوکہ جب کوئی شخص بات کررہا ہوتو پہلے اُس کی بات مکمل ہولینے دو، درمیان میںمَت ٹوکو (مفہوم)لیکن ہمارے ہاںتو رواج ہوچلا ہے کہ کسی کو بات مکمل کرنے دینے کامطلب لاجواب ہوناہے۔ یہ رویہ بھی ہمارے بے باک الیکٹرانک میڈیا ہی کی دین ہے ۔ ایک آدھ ٹاک شو کوچھوڑ کر ہرجگہ یہی نظرآتا ہے کہ اگرفریقِ مخالف خاموش ہوتو اینکر بذاتِ خود درمیان میں کُودپڑتا ہے کیونکہ سوال ریٹنگ کاہے اور ”ٹھنڈے ٹھار” ٹاک شوزمیں بھلا ریٹنگ کہاں۔
جن حالات کاہمیں سامناہے اُن میںتوضرورت اِس اَمرکی ہے کہ پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بَن کردشمن کے سامنے کھڑی ہوجائے لیکن ہم اب بھی یاتو مسندِاقتدار کی جنگ میںاُلجھے ہوئے ہیںیاپھر کرپشن بچانے کی تگ ودَو میں۔ بلوچستان میںامریکی ڈرون حملے کے بعدپاکستان اورامریکہ کے تعلقات اپنی بدترین سطح پرپہنچ چکے ہیںاورافہام وتفہیم کاکہیںشائبہ تک نظرنہیں آتا ۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی سربراہی میںقومی سلامتی کے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس میںدوٹوک یہ اعلان کردیا گیاکہ 21 مئی کوبلوچستان میںہونے والا ڈرون حملہ ملکی سلامتی اوراستحکام کے خلاف ہے ، ڈرون حملے سے پاک امریکہ تعلقات پرمنفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ اجلاس میںاِس عزم کابھی اظہارکیا گیاکہ قومی مفادات پر کوئی سمجھوتہ نہیںکیا جائے گا۔ اِس سے پہلے ہمارے سپہ سالار دوٹوک الفاظ میںکہہ چکے تھے کہ امریکی ڈرون حملہ پاکستان کی سلامتی اورخود مختاری کے خلاف ہے ۔ وزیرِاعظم کے مشیرسرتاج عزیزنے بھی امریکہ پرکڑی تنقید کرتے ہوئے کہاکہ اُسے جب ضرورت ہوتی ہے تووہ پاکستان کی دوستی کادَم بھرنے لگتاہے اورجب جی چاہتاہے توالگ ہوجاتا ہے ۔ اُنہوںنے کہا کہ ڈرون حملے کامعاملہ عالمی انسانی حقوق کمیشن میںاُٹھائیں گے کیونکہ ڈرون حملے نہ صرف ہماری سلامتی اور خودمختاری کے خلاف ہیںبلکہ اِن حملوںسے قیامِ امن کی کوششوںکو بھی شدیدنقصان پہنچاہے ۔ ارکانِ سینٹ کامطالبہ تھاکہ امریکی سفیرکو ملک بدرکیا جائے اورڈرون طیارے مارگرائے جائیں ۔
Raheel Sharif
10 جون کوسپہ سالارجنرل راحیل شریف نے افغانستان میںاتحادی افواج کے امریکی کمانڈرجنرل جان نکولسن ، پاکستان وافغانستان کے لیے امریکی خصوصی نمائندے رچرڈ اولسن ، صدر براک اوباما کے سینئر مشیر پیٹرلیوائے پر مشتمل وفدسے جی ایچ کیوراولپنڈی میں ملاقات کی جس کے دوران 21 مئی کوبلوچستان میںڈرون حملے کے بعدپیداشدہ صورتِ حال پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کہاکہ یہ حملہ پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی تھا ۔ اُنہوںنے کہاکہ پاکستان پرافغانستان میںعدم استحکام کاالزام لگانابدقسمتی ہے ۔ سپہ سالارنے ایک بارپھر مطالبہ کیا کہ افغانستان میں تحریکِ طالبان پاکستان اوراُس کے سربراہ مُلّافضل اللہ کے ٹھکانوںکو نشانہ بنایاجائے ۔اُنہوںنے امریکی وفدپر واضح کردیا کہ ڈرون حملے سے آپریشن ضربِ عضب کوٹھیس پہنچی اورباہمی اعتمادکو نقصان پہنچا۔ اب تعلقات میںبہتری امریکہ کی ذمہ داری ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر امریکہ پاکستان کی خودمختاری کوچیلنج کرتے ہوئے بلوچستان میں مُلّااخترمنصور کونشانہ بنا سکتاہے توکُنڑ (افغانستان) میںبیٹھے مُلّافضل اللہ کوکیوں نہیںجوافغانستان میںامریکی افواج کے پہلواور پناہ میںبیٹھاہے ؟۔ کیااُسے صرف اِس لیے نشانہ نہیںبنایا جارہا کہ امریکہ اوربھارت کوپاکستان میںامن وامان قبول نہیںکیونکہ اِن ہردو ممالک کواندرونی طورپر مضبوط پاکستان قبول ہے نہ دفاعی طورپرمضبوط ایٹمی پاکستان ۔ بدقسمتی تویہ ہے کہ ہمارے سیاستدانوں کواِس کااحساس ہے نہ کارپردازانِ حکومت کوادراک۔
یہ سب کچھ عرض کرنے کامقصد یہ تھاکہ کیااِن مخدوش حالات میںارکانِ پارلیمنٹ کاباہم دست وگریباں ہوناکسی بھی صورت میںجائز اورمناسب ہے؟۔ کیاپانامالیکس کابہانہ بناکر سڑکوںپر نکلنا دشمن کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف نہیں ہوگا؟۔ کیااندرونی طورپرکمزور اور افراتفری کاشکار پاکستان کسی بھی صورت میںبیرونی دشمن کامقابلہ کرنے کی سکت رکھتاہے؟۔ ہم تواپنے سیاسی رہنماؤں سے یہی عرض کرسکتے ہیںکہ ہوش کے ناخن لیتے ہوئے دھرتی ماںکا کچھ توخیال کرلو۔