عشق ہی کافی نہیں دیوانگی کے دشت میں علم و حکمت بھی ہے لازم عاشقی کے دشت میں واپسی کا اب کوئی بھی امکان ہی باقی نہیں دور اتنا آگیا ہوں بے دلی کے دشت میں خوب مجھ میں حوصلہ ہے مسکرانے کا حیات بے رخی ، بے چارگی اور بے بسی کے دشت میں
ان خوب صورت اور دلوں کو موہ لینے والے اشعار کے خالق معروف و ممتاز شاعر حیات عبداللہ ہیں۔ ان کے اشعار میں تاثیر و گداز ، والہانہ وارفتگی اور وجد و آہنگ کا جو رنگ ملتا ہے یہ ہر شاعر کا خاصہ اور وصف نہیں ہوتا ۔ بلاشبہ قدرت جب کسی شخصیت پر مہربان ہوتی ہے تو اسے علم و دانش سے نواز دیتی ہے ۔ حیات عبداللہ بھی انہیں شخصیات میں سے ایک ہیں۔
کیوں ہیں مجھ سے گریز پا آنکھیں عشق سچا ہے تو مجھ سے ملا آنکھیں اس نے دنیا میں کچھ نہیں دیکھا جس نے دیکھی نہیں خفا آنکھیں چھوڑ آتا تمام دنیا کو مجھ کو دیتیں اگر صدا آنکھیں
حیات عبداللہ کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جتنے عمدہ شاعر ہیں اتنے ہی اچھے اور منجھے ہوئے نثر نگار بھی ہیں ۔ آپ نثر کے میدان میں بھی اپنی بے نظیر صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔حال ہی میں ”اندھیروں کا تعاقب”کے نام سے ان کی پہلی کتاب منظر عام پر آئی ۔ یہ مختلف قومی اخبارات کے لیے لکھے گئے ان کے کالموں کا مجموعہ ہے۔ کتاب کے سرورق پر قومی ہیرو مایہ ناز ایٹمی سائنسدان اور محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان رقم طراز ہیں ”جناب حیات عبداللہ کے قلم کی کاٹ حساس طبیعت لوگوں کو گھائل کر جاتی ہے، دراصل یہ اندھیروں کا نہیں روشنی کا سفر ہے جس سے اندھیرے دم بخود اِدھر اُدھر بھاگتے پھرتے ہیں ! بعض کئی ذومعنی جملے بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ گویا حیات عبداللہ کے مضامین تحریری جہاد اور قلمی تیغ ہیں”۔
کائنات علم و ادب میں اپنے نام اور شہرت کا ڈنکا بجانے والے شاعر کا اصل نام محمد حیات ہے ۔ آپ 4مئی 1967ئ کو ضلع لودھراں کی تحصیل کہروڑ پکا کے ایک مضافاتی گائوں ”امیر پور سادات”میں سخاوت علی کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مڈل سکول امیر پور سادات سے حاصل کی ۔ میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول کہروڑ پکا سے امتیازی نمبروں میں پاس کیا ۔ گورنمنٹ اسلامیہ ڈگری کالج خانیوال سے ایف۔ اے کیا ۔ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے بی ۔ اے ، ایم ۔اے سیاسیات جب کہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم ۔ اے اردو ، اقبالیات اور ایم ۔ ایڈ کی ڈگری حاصل کی ۔ شعر کہنے کی ابتداء زمانہ طالب علمی سے کی ۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے صدارتی ایوارڈ یافتہ نعت گو شاعر ”علیم ناصری ”سے باقاعدہ طور پر شاعری کے فن و رموز کے حوالے سے اصلاح لیتے رہے۔
اگ نہیں سکتاکسی خوراک سے عشق اترا ہے فقط افلاک سے خیر تو ہے ، کیا ہوا ؟ کس نے کیا آپ بھی رہنے لگے نمناک سے
حیات عبداللہ شعری پیرائے میں دلکش اور دل آویز مضمون باندھنے کے ہنر سے بخوبی آشنا ہیں۔ ان کا شعری اظہاریہ جہاں عشق و محبت کے دل سوز تذکرہ سے معمور ہوتا ہے وہاں وہ اپنے اشعار میں چونکا دینے والی فکر کے ساتھ ، ساتھ امید ، بہار اورزیست و حیات کی رعنائیوں کا ذکر بھی نمایاں انداز میں کرتے ہیں۔
غیر آسکتا ہے کہاں دل میں تو ہی تو ہے رواں ، دواں دل میں پھر شکست اس کو مل کے ہم دیں گے ہجر آیا جو کل کلاں دل میں
اشعار میں حد درجہ بے تکلفی برتنے کے باوجود ان کے الفاظ اس تزئین و ترتیب کے ساتھ غزل میں اپنا حسن و جمال جمائے ہوئے ہوتے ہیں کہ قاری سرشاری و لطافت کے مزے لیتا ہے ۔ ان کی یہ غزل ملاحظہ فرمائیں:
دوست مطلب پرست احباب سب مطلب پرست ہوگئے معصوم سے بھی لوگ اب مطلب پرست چار سو حرص و حوس کی چل پڑی آب و ہوا دیکھ لو! ہیں پھول سے لب سب کے سب مطلب پرست ہے خرابی ایک ہی بس لوٹ کر آتے نہیں یہ مکمل کر لیں مطلب اپنا جب مطلب پرست محو ہو تم کیوں حیات ان کے فریبِ حسن میں خال و خد عیار ہیں ، رخسار و لب مطلب پرست
حیات عبداللہ اپنا تخلیقی سفر نہایت برق رفتاری کے ساتھ جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں ۔ دعا ہے کہ وہ یوں ہی علم و سخن کے گلشن کو اپنی وسیع، تازہ و جواں فکر کی تابانیوںسے مہکاتے اور نمو دیتے رہیں۔
تلخ گرچہ بہت ہی تھی، لیکن سہہ گئے ہم تری جدائی تک آپ کے ان خوب صورت نعتیہ اشعار کے ساتھ اختتام ۔ سیدِ کونین ہی سے ہے مجھے تو پیار بس بس وہی محبوب میرے بس وہی دلدار بس ہیچ سب کا ہے سخن اورپست ہے سب کا عمل رحمت اللعالمیںۖ کا اعلیٰ ہے کردار بس اشک آئے نہ اگر یادِ محمدۖ میں کبھی زندگی اس شخص کی بے کار بس، بے کار بس