تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری عقیدہ ختم نبوت اور فلسفہ رسالت و ختم نبوت پوری امت کے مسلمانوں کے لیے اتحاد اور وحدت کی علامت ہے اور تمام بڑے مسالک شیعہ، سنی، دیوبندی، بریلوی، اہلحدیث وغیرہ وغیرہ قادیانیوں کے کافر ہونے پر متحد و متفق ہیں یہ عقیدہ و عظیم مقصد ہے جسے آپ دین اسلام کی بنیاد اور روح قرار دے سکتے ہیں اس عقیدہ کی تائید قرآن مجید فرقان حمید کی ایک سو آیات سے ہوتی ہے اور اس کی تائید کے لیے 210 احادیث مبارک بھی موجود ہیں ۔ہمارے خلیفہ اول جناب ابو بکر صدیق کے دور میںصحابہ اکرام کا اجماع عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے لیے ہوا تھا اور جنگ یماسہ میں اس کے تحفظ کے لیے 12سو صحابہ کرام نے خون کے نذرانے پیش کیے جس میں سات سو حفاظ کرام اور قرآعظام شامل تھے اس میں ستر بدری صحابہ بھی شامل تھے پھر 1953میں محمد مصطفی کے پروانوں ،صحابہ کے غلاموں اور ختم نبوت کے جانثار تقریباً 16تا18ہزار مسلمانوں نے لاہور مال روڈ پر جام شہادت نوش کیا ۔جس میں 70سال سے زائد عمر کے بوڑھے اور پانچ سال کی عمر کے بچے بھی شامل تھے پوری ملت اسلامیہ کا اس عقیدہ پر اجماع موجود ہے اور تاقیامت جاری رہے گا۔
علمائے لدھیانہ نے1884میں ہی قادیانی عقیدہ پرکفر کا فتو یٰ دے دیا تھا پھر علمائے دیو بند و دیگر مسالک نے بھی ان کے کفریہ عقائد پر کفر کے فتاویٰ جاری فرمائے۔ 29اپریل1973کو آزاد کشمیر اسمبلی نے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور فتنہ قادیانیت کے سد باب کے لیے متفقہ پارلیمانی قرارداد منظور کی ۔اور 7ستمبر1974کو پاکستان کی مجلس قانون ساز کی متفقہ قرار داد کے ذریعے تمام قادیانی گروہوں کو غیر مسلم قرار دے دیا ۔موجود ہ حکومت قانون توہین رسالت اور قانون تحفظ ختم نبوت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا ارادہ مستقل بنیادوں پر ترک کردے۔سامراجی ممالک کے اشاروں پر دفعہ 295-cکے خاتمہ کا خیال دل سے نکال دے مرتدہ آسیہ بی بی جسے توہین رسالت کے جرم میں پھانسی کا حکم سنایا جا چکا ہے پر فوری عملدر آمد کرے۔ قوم ہر بات گوارہ کرسکتی ہے مگر توہین رسالت کے قوانین پر آنچ نہیں آنے دے گی۔
امتنائے قادیانیت ایکٹ ملت اسلامیہ کے ایمان عقیدے کا عکاس ہے اس پرعملدر آمد نہ کروانا اور قادیانیوں کو کھلی چھوٹ دیے رکھنا ذمہ داران کی آقائے نامدار محمد مصطفی ۖ سے محبت سے انکار کرنا ہے وہ اپنی قلعہ بند رہائش گاہوں میںکتنے ہی میلاد کرواتے رہیں اور قادیانیوں کے بارے میں اپنے دلوں میں رعایت کرنے کا خیال کا ذرہ بھی موجود ہو تو پھر محمد ۖ سے محبت کے جھوٹے دعوے حکومتی سیرت کانفرنسیں سب دکھاواقرار پائیں گی کہ نبی ۖسے قادیانیوں کی دشمنی ان کے سارے مطبوعہ لٹریچر سے واضح ہے قادیانی واضح طور پر دستور اور قانون پاکستان کو نہیں مانتے پاکستان کے وجود سے انکاری ہوتے ہوئے حال چناب نگر اور سابق ربوہ شہر میں اپنے مردے امانتاً دفن کرتے ہیں اور اس خیال سے کہ جب ہندو پاک اکٹھے یعنی خاکم بدہن ملک ٹوٹ کر ہندوئوں کے قبضہ میں چلا گیا تو وہ اپنے ان مردوں کو اکھاڑ کر بھارتی شہر قادیان میں دفن کریں گے۔
Qadianiat
سکہ بند قادیانی عبدالسلام کے نام پر قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک حصہ کو اب منسوب کرنا سامراج اور بالخصوص امریکہ کو یہ تاثر دینا ہے کہ ہم آپ کے خصوصی تابعدار لبرل اور سیکولر ہیں اور حکومت کے کارپرداز قادیانیوں کے لیے دلی ہمدردیاں رکھتے ہیں ۔1974کی قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیے جانے کی قومی اسمبلی کی قرار داد کے بعد عبدالسلام احتجاجاً ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔
کچھ بھی ہو صرف حکمران طبقہ کی ایسی حرکتوں سے آئین پاکستان میں 7ستمبر1974سے درج شدہ قادیانیوں کا غیر مسلم قرار پانا کسی طور پر ختم نہیں ہوسکتا۔ہمارے ملک میں رواج عام یہی ہے کہ جب حکومتی نو ڈوبنے لگے تو چند غیراسلامی یا نیم کافرانہ اقدام کرکے بیرونی آقائوں کو خوش کیا جائے تو شاید حکومت بچ جائے ۔اور اقتداری ہما ان کے سروں پر سے نہ اڑسکے۔یاد رہے خدائے عز و جل کی طاقت اور پکڑ ان سامراجیوں سے بحر حال زیادہ ہے اور سبھی فیصلے اس کی مشیعت ایزدی سے ہی سات آسمان اوپر سے ہی آتے ہیں۔موجود حکمرانوں نے چنا ب نگر میں ایسے چھ تعلیمی اداروں کو قادیانیوں کے دوبارہ حوالے کردیا ہے جہاں سے کفر و ارتداد اور قادیانی ازم کی تبلیغ کی جاتی تھی اس طرح یہ کالج و سکول دوبارہ قادیانیت کی تبلیغ اور قادیانی غنڈہ گردی کی آماجگاہ بن جائیں گے۔اور وہاں بسنے والے مسلمان طلباء کا داخلہ بھی ممنوع قرار پاجائے گا۔ دوسری طرف سندھ اسمبلی میںاسلام مخالف اور دین دشمن بل پاس کرکے پی پی بھی سامراجی خوشی اور نوازشیں حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتی نظر آتی ہے کسی بھی نوجوان پر یہ پابندی لگانا کہ وہ اٹھارہ سال کی عمر تک مسلمان نہیں ہو سکتا خواہ اس کے والدین کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو چکے ہوں۔
غلطی سے یا اراداتاً ایسی قراردادیں آقائے نامدار محمدۖ کے احکام کی کھلی خلاف ورزی اور انکے لائے ہوئے سچے دین اسلام کی بنیادوں کو ہلانے اور اپنی مخصوص پراگندہ ذہنیت کے اظہار کا ذریعہ ہیں ہمارے پاک ملک کے اردگرد چاروں طرف کفار کی یلغاریں ہیں تو ایسے اقدامات اور اسلامی سزائوں پر نکتہ چینی خدائے عزوجل کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے یہ خطہ پہلے ہی سیلابوں زلزلوں کی زد میں آکر ہزاروں نفوس کی جان آفریں خدا کے حضور سپرد کرچکا ہے خدا کے عذاب کو ایسی حرکات سے مزید دعوت دینا ہی اسلام دشمنی کہلاتا ہے فرقہ واریت اور طبقاتی کشمکش پیدا کرکے امت میں انتشار پیدا کرنے کی سازشیں عروج پر ہیں پاکستان کا دشمن ہی اسلام کا دشمن ہے علامہ اقبال نے قادیانیوں کو واضح طور پر اسلام اور وطن کے غدار قرار دیا تھا شورش کاشمیری نے بتایا تھا کہ قادیانیوںکا ہیڈ کوارٹر ربوہ پاکستان میں اسرائیل ہے اس کے محل وقوع اور اس کی ہئیت کے بارے میں انشاء اللہ آئندہ بھرپور اظہار ہوگا۔یہ خطہ زمین جو کہ اللہ کی حاکمیت کے لیے حاصل کیا گیا تھا اللہ کا نظام نافذ کرنے سے ہی قائم رہ سکتا ہے ساری قوم اورادارے بشمول افواج پاکستان ملک کی جغرافیائی اورنظریاتی سرحدوں کے محافظ ہیں جب کہ قادیانی اپنے اکھنڈ بھارت عقیدہ کا اظہار اپنی تحریروں میں کرچکے ہیں اس لیے ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم انہیں کلیدی عہدوں سے بالخصوص افواج پاکستان سے فوراً برطرف کردیں تاکہ ہندوستان کی طرف سے بارڈروں پر اوچھی حرکتوں کے کسی صورت وہ مدد گا نہ بن سکیں۔