تحریر : چوہدری غلام غوث نسیان اور بھول جانا انسان کے خمیر میں رکھ دیا گیا ہے مگر جو بات آپ کے دل و دماغ میں ہو اور اُس کو سچ ثابت کرنے کے لیے آپ بے جا تکرار کا سہارا لے لیں تو سننے والوں کو شک کا گمان گزرتا ہے جیسے لبنانی دانشور خلیل جبران کا قول ہے’ اُس نے کہا میں نے مان لیا’ اس نے پھر کہا تو مجھے شک گزرا ،اس نے تیسری بار وہی بات قسم کھا کر کہی تو میرا شک یقین میں بدل گیا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے خلیل جبران کا یہ قول انسانی نفسیات کی ایک ایسی جبلت کا عکاس ہے جو اس کے لاشعور میں خوف پیدا کر دیتی ہے جب بھی انسان جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بات کو بار بار دہراتا ہے اگر سننے والا اس پر یقین کر بھی لے تب بھی وہ اس بات پر قسم اُٹھانے سے باز نہیں آتا۔ آپ کپڑا بیچنے یا برتن بیچنے والوں کی نفسیات کا جائزہ لیں آپ دیکھیں گے کہ شیخ صاحب تھان کھولتے ہی اور ڈنر سیٹ سامنے رکھتے ہی گاہک کو بہن یا بھائی ڈکلیئر کر دیں گے اور بار بار یہ کہیں گے بس جی میں تو آپ کو خرید کے برابر ہی دے رہا ہوں اور بعض اوقات تو قیمتِ خریدسے کم پر بھی دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں اور سودے بازی کے دوران مناسب موقع دیکھ بھال کر قسم بھی اُٹھا لیتے ہیں لیکن خریدار کو چند دنوں بعد معلوم ہوتا ہے کہ شیخ صاحب نے منہ بولے بھائی یا بہن سے کیا ہاتھ کیا ہے۔
سفارت کار اس انسانی خامی کے تجزیئے کے دوران بڑے بڑے نتائج اخذ کرتے ہیں اور شائد اسی لیے ترقی یافتہ ممالک اپنے سفارت کاروں کو بات دہرانے سے پرہیز کرنے کی ٹریننگ دیتے ہیں اور ساتھ ہی انہیں سختی سے حکم دیتے ہیں جب بھی میزبان ملک کا کوئی بڑا عہدیدار گفتگو کے دوران بار بار ایک ہی بات دہرائے تو اس کی اطلاع فوراً وزارتِ داخلہ کو دی جائے تاکہ اس کا بروقت سدِ باب کیا جا سکے۔ اس سلسلہ میں آپ کے سامنے دو مثالیں رکھنا چاہتا ہوں جب 70 کی دہائی میں جنرل ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کیا تو وہ اپنے ہر بیان میں 90 دن کے اندر الیکشن کروانے کی یقین دہانی کروانے لگے جب ان یقین دہانیوں میں اچھا خاصا اضافہ ہونے لگا تو امریکہ کے ایک بڑے عہدیدار نے اپنے انٹرویو میں انکشاف کیا کہ جنرل ضیاء 9 سال سے پہلے واپس نہیں جائیں گے، پوچھنے والے نے اس دعوے کی وجہ دریافت کی تو امریکی عہدیدار نے کندھے اُچکائے اور مُسکرا کر جواب دیا جنرل ضیاء 90 دنوں کی اس قدر گردان کر چکے ہیں کہ ہمیں یقین ہو گیا ہے کہ وہ 9 سال سے پہلے نہیں جائیں گے۔
پاکستانی تاریخ کے آخری ڈکٹیٹر جنرل پرویز مشرف کو دیکھ لیں اُنہوں نے ایک بار قوم سے کہا کہ میں فلاں تاریخ کو وردی اُتار دوں گا اور پھر اپنے اس وعدے کو بار بار دُہرایا جب قوم کو شک گزرا تو ایک موقع پر اُنہوں نے وردی کو اپنی کھال قرار دے ڈالا اور پھر جس طرح یہ کھال اُتاری گئی یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ دوسری مثال عالمی سطح کی ہے چند سال قبل چار ایشین ٹائیگرز انڈونیشیا، ملائشیا، ہانگ کانگ اور تھائی لینڈ شدید مالیاتی بحرانوں کا شکار ہو گئے ان چاروں ملکوں کی انڈسٹری بند ہو گئی پیداوار رکنے کے ساتھ ساتھ سٹاک ایکسچینج کی جڑیں ہل گئیں اس وقت امریکہ کو خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں چین اس ابتر صورتحال سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی کرنسی کی قیمت نہ گرا دے امریکی حکومت نے چینی اکابرین سے مہربانی کی اپیل کر دی جس پر چینی وزارتِ خزانہ نے امریکی ماہرین کو کرنسی کی قیمت برقرار رکھنے کی یقین دہانی کرا دی۔
China and America
کچھ عرصہ بعد چین کے وزیرِ خارجہ نے ایک عالمی فورم پر یہ یقین دہانی دُہرا دی جب یہ خبر ذرائع ابلاغ سے سفر کرتی ہوئی امریکہ پہنچی تو امریکی وزیرِ خزانہ اپنی تمام مصروفیات منسوخ کر کے چین پہنچ گئے اور جاتے ہی چین کے وزیرِ خزانہ کے گھٹنے پکڑ لیے چین کے وزیرِ خزانہ نے حیران ہو کر کہا حضور! ہم تو آپ کو دوبار یقین دلا چکے ہیں آپ پریشان کیوں ہیں؟ امریکی وزیرِ خزانہ نے مؤدبانہ جواب دیا جنابِ من ہمیں یہی تو پریشانی ہے آپ نے پہلی بار فرمایا ہم نے یقین کر لیا جب آپ نے دوسری بار یقین دہانی کروائی تو ہم گھبرا گئے، اب آپ ہم پر مہربانی فرمائیں یہ بات تیسری بار نہ دُہرائیے گا کیونکہ اگر آپ نے تیسری بار یقین دہانی کرا دی تو تمام سرمایہ کار مشرقِ بعید سے اپنا سرمایہ سمیٹ لیں گے اور امریکی ملٹی نیشنل کمپنیاں خسارے میں چلی جائیں گی۔اب آتے ہیں ملکی تاریخ کے سب سے بڑے کرپشن کے سکینڈل پانامہ لیکس کی طرف، جس کی تمام توپوں کے رُخ ہمارے موجودہ حکمرانوں کی طرف ہیں۔
پانامہ لیکس سکینڈل پر جب وزیرِ اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے قوم سے خطاب کے دوران بات واضح کر دی تو بعد ازاں دوبارہ پھر قوم سے خطاب کر ڈالا اس پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ ایوان میں بھی دھواں دھار تقریر کر ڈالی اور آج تک روزانہ کی بنیاد پر تواتر سے حکومتی ترجمان پانامہ لیکس کی وضاحتوں کے لیے میڈیا پر براجمان نظر آتے ہیں تو بقول خلیل جبران بات شک سے یقین میں بدلتی نظر آ رہی ہے اور صورتحال دال میں کچھ کالا سے آگے چلی گئی ہے اور یہ سلسلہ رکنے اور تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔
قارئین! اب آپ اندازہ لگائیں کہ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے سفیروں کی جس نہج پر ٹریننگ کی ہوتی ہے کہ وہ بات کو بار بار نہ دُہرائیں اور اگر کسی غیر ملک کا کوئی اعلیٰ عہدیدار بات کو بار بار دہرائے تو اس کی اطلاع فوری طور پر وزارتِ خارجہ کو دی جائے تو آپ بخوبی اس نتیجہ پر پہنچ سکتے ہیں کہ ایک عام حکومتی ترجمان سے لے کر وزیرِ اعظم پاکستان تک جتنی بار پانامہ لیکس سکینڈل کی وضاحت کر چکے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ آب و تاب سے جاری ہے تو بیرونی ممالک کے سفارت کاروں نے اپنے اپنے ممالک کو کیا کیا اطلاعات بہم پہنچائی ہوں گی اور ہمارے حکمرانوں کا کیسا امیج ان تک پہنچا ہو گا یہ ایک بہت بڑا سوال ہے؟ اور موجودہ حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے جس پر ٹھنڈے دماغ سے غور کرنے کا ان کے پاس وقت نہیں اور انہوں نے اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار آنے والے وقت کے ہاتھوں دے دیا ہے اب فیصلہ کیا ہو گا یہ وقت ہی بتائے گا۔