تحریر : حافظ ابتسام الحسن خوارج وہ فتنہ ہے جس نے مسلمانوں کو ہمیشہ اتنا نقصان پہنچایا ہے جس کی مسلمانوں کے دشمن بھی توقع نہیں کر سکتے تھے ۔خوارج ہمیشہ سے کفر کا کارگر ہتھیار رہے ہیں ۔جب کفر مسلمانوں کے مقابلے میں بالکل بے بس ہو جاتا ہے،اس کے تمام ہتھیار ناکام ہو جاتے ہیں ،اس کے مکر و فریب اور سازشوں کی انتہا ہو جاتی ہے ، اس کے لشکر میں بد دلی پھیل جاتی ہے،وہ ہر طرف سے تنہا ہو جاتا ہے اور اسے اپنی شکست یقینی نظر آرہی ہو تی ہے ۔تب وہ اپنا آخری مگر سب سے موثر اور کارگر ہتھیار یعنی خوارج کو نکالتا ہے ۔اس ہتھیار نے کفر کو کم ہی مایوس کیا ہے بلکہ یہ اس کی امیدوں سے زیادہ کھرا اترتا ہے ۔اگر چہ یہ کفر کی شکست کو فتح میں مکمل طور پر نہیں بدلتا مگر مسلمانوں کی فتح کو تار تار کر کے رکھ دیتا ہے۔
آج کے دور میں امریکہ جیسی سپر طاقت جس کا یہ دعوی تھا کہ وہ اپنے ذرائع کے ذریعے یہ بھی پتہ کر لیتے ہیں کہ ہمارا دشمن آج کیا پکا رہا ہے اور وہ اپنے دشمن کو ایسے تباہ کر سکتا ہے کہ آنے والی نسلوں کو ان کا نشان بھی نہ ملے ۔مگر اللہ کے بھروسے لڑنے والے مٹھی بھر مجاہدین جو امریکہ کے مقابلے میں تقریبا بے سرو سامان تھے ،نے اس کو بے بس کردیا ۔اس کی تمام تر ٹیکنالوجی ،فوجی اتحاد اور پھرتیاں و دعوے سب ناکام ہوئے اور اسے عراق و افغانستان چھوڑ کر بھاگنا پڑا ۔مگر جانے سے پہلے اس نے اپنے آخری اور کارگر ہتھیا ر خوارج کو بنام داعش دعوائے خلافت کے ساتھ عراق میں کھلا چھوڑ دیا ۔جس نے عراق میں مسلمانوں کی زندگی کو اجیرن کر دیا اور موت کا وہ بازار گرم کیا جو امریکہ بھی نہیں کر سکا تھا ۔جن علاقوں میں مجاہدین نے امریکہ کو پائوں نہیں جمانے دیے تھے ان علاقوں میں خون کی ہولی کھیل کر امریکہ کے ادھورے مقصد کو پورا کیا ۔ملک شام مسلمانو ں کا تاریخی ملک تھا ۔مگر آج یہ ملک ملبے کا ڈھیر بن چکاہے ۔وہاں کے لوگ ہجرت کر کے دنیا کے بارڈروں پر غربت و افلاس کی زندگی بسر کر رہے ہیں اور اپنے ملک میں دوبارہ واپسی کی امید نہیں ہے۔اس تاریخی ملک اور اس کے باشندوں کی اس حالت کے ذمہ دار بھی زیادہ تر یہی خارجی ہیں ۔ان کے ظلم سے جہاں وہاں کی عوام برباد ہوئی وہیں ان کے تکفیری فتووں نے وہاں کے نوجوانوں کے قلوب واذہان کو بدل دیا اور وہ اتنے پتھر دل ہو گئے کہ اپنے ہی لوگوں پر گولیاں برساتے ہوئے ان کے ہاتھ نہیں کانپے ۔یہاں تک کہ انہوں نے اپنے ملک کو اپنے ہی ہاتھوں تباہی و بربادی کو سونپ دیا۔
ملک شام میں کفرکا نہ کوئی پیثہ لگا اور نہ کوئی جان گئی مگر ملک شام لہو لہو ہوگیا جس کی وجہ یہی نام دار خلافت کے علمبردار خوارج تھے ۔جو اتنی جانیں اتنے برے طریقے سے لینے کے باوجود بھی خلافت توقائم نہ کر سکے مگر خلافت جیسے مقدس لفظ کو بہت بدنام کردیا ۔ ملک پاکستان کے اندر بھی ان خوارج نے اپنا نظام قائم کرنے کی بھر پور کوشش کی ۔اسی مقصد کے لیے انہوں نے ملک پاکستان میںجگہ جگہ بم دھماکے کیے اور اس پاک دھرتی کو لہو سے لال کر دیا ۔ہمارے ملک کو اتنا نقصان ہمارے ازلی دشمن انڈیا نہ پہنچا سکا جتنا انہوں نے پہنچایا اور یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ان کی آماجگاہ افغانستان میں انڈیا کے قونصل خانے ہیں۔
انڈیا کو خوارج کی صورت میں ایسا ہتھیا ر ملا جس نے انڈیا کی سفاک خواہشات کو پاکستان میں بدرجہ اتم مکمل کیا ۔ مگر پاکستان میں یہ ملک شام اور عراق کی طرح کامیاب نہیں ہو پائے کیو نکہ پاکستان میں ان کے متعلق جاننے والے لوگ موجود تھے اور انہوں نے ان کی خباثتوں کا منہ توڑ جواب دیا ۔پاکستان میں پاک آرمی کے جوانوں نے اپنی جانوں پر کھیل کے ان کے ناپاک ارادوں کے سامنے بندھ باندھا اور ان انہیں ان کے بلوں میں واپس دھکیل دیا ۔جبکہ فکری و نظریاتی لحاظ سے جماعة الدعوہ نے ان کی ایک نہیں چلنے دی ۔جماعة الدعوہ کے امیر حافظ محمد سعید شروع دن سے ہی ان کی چالوں اور فتووں کو سمجھ گئے تھے ۔اس لیے انہوں نے ایک لمحہ کی دیری کیے بغیر امت کو اس فتنہ سے آگاہ کیا ۔ انہوں نے اپنی پوری جماعت کو یہ پیغام دیا کہ ملک کے طول و عرض میں پھیل کر اس فتنہ کی سنگینیوں کو بیان کرو ۔دیکھنا کہیں ہمارے بھولے بھالے نوجوان ان کے فتووں کی بھینٹ نہ چڑھ جائیں اور اپنے ہی مسلمان بہن ،بھائیوں کو واجب القتل نہ قرار دینا شروع کر دیں ۔آج ملک پاکستان میں ان کا زور کافی حد ٹوٹ چکا ہے ۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہاں کے عوام وخواص نے ان کے نظریے و سوچ کو یکسر رد کردیاہے ۔جس کی وجہ سے ملک پاکستان میں امن کی ہوائیں چل رہی ہیں ۔ورنہ شاید ہمارا حال بھی عراق و شام جیسا ہوتا۔
قارئین کرام !اب اس فتنہ خوارج کو ہمارا دشمن انڈیا داعش کی صورت میں کشمیر میں بھی لانچ کرنا چاہتا ہے ۔کیونکہ کشمیر کی مزاحمتی تحریکوں کے سامنے پورا انڈیا اپنے اداروں سمیت بے بس ہو چکا ہے ۔سنگ بازوں اور مٹھی بھر مجاہدین نے ان کو دن میں تارے دکھا دیے ہیں اور ہر طرح کے ظلم کے باوجود تحریک آزادی عروج پکڑتی جارہی ہے ۔اب انڈیا نے اپنا آخری ہتھیا ر کشمیر میں استعمال کرنے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔
کشمیر کے کچھ جلسوں میں داعش کے جھنڈے لہرائے گئے ہیں اور جن نوجوانوں نے یہ جھنڈے لہرائے وہ داعش کی کارکنوں کی طرح ہی نقاب لپیٹے ہوئے تھے ۔اسی طرح ایک جلسہ جو کہ سید علی گیلانی کی کال پر بعد نماز جمعہ رکھا گیا تھا اس میں بھی داعش کے جھنڈے لہرائے گئے تھے۔کچھ گھروں میں پمفلٹ بھی بانٹے گئے اور لوگوں کو نام نہاد خلافت کے آئینے میں اتارنے کے لیے کچھ بیانات بھی سامنے آئے ہیں ۔ اس سب کا مقصد کشمیر کے ہونے والے خالص جہاد کو بدنام کرنا تھا۔مگرحریت قیادت اس مسئلے کو بڑی اچھی طرح سمجھ گئی۔ اسی لیے سید علی گیلانی نے فورا مذمتی بیان دیا اور کشمیر کے لوگوں کواس سے بچنے کی خاص تاکید کی۔
تمام حریت قیادت نے یہ متفقہ بیان دیا کہ داعش کو ہمارے معاملے میں ٹانگ اڑانے کی ضرورت نہیں اگر داعش مسلمانوں کی اتنی ہی ہمدرد ہے تو وہ مسلمانوں کے قبلہ اول مسجد اقصی اور غزہ کو یہود کے پنجہ سے آزاد کروانے کی کوشش کرے ۔خوش آئند بات یہ ہے کہ کشمیر کی مسلح تحریکوں لشکر طیبہ اور حزب ا لمجاہدین نے بھی داعش سے مکمل لا تعلقی کا اظہار کردیا ہے ۔ جس سے جہاد کشمیر کو بدنام کرنے کی سازش بری طرح ناکام ہو گئی ہے اور لوگوں کو یہ بات پتہ چل گئی ہے کہ کشمیر کا جہاد خالص اور قرآن و سنت کے مطابق ہے ۔کشمیری قیادت کی اس بردباری اور بروقت اقدام نے انڈیا کے مشیر قومی سلامتی اجیت دوول کے اس پلان پر پانی پھیر دیا کہ آپس میں لڑائو ،تماشا دیکھو اور فائدہ اٹھائو ۔مگر حریت قیادت کے اس مسئلہ کو بروقت بھانپنے کے بعد انڈیا کا یہ آخری مگر موثر ہتھیا ر ناکا رہ ہوگیا ہے ۔اب کشمیر کی تحریک آزادی رکنے کا نام نہیں لے گی ۔ اللہ تعالی تمام مسلمانوں بالخصوص کشمیر کی اس تحریک کو ایسے فتنوں سے بچا کر رکھے اور اس تحریک کو اپنی منزل مقصود تک پہنچائے۔آمین!