تحریر : ڈاکٹر میاں احسان باری ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں سب سے کم عمر وزیر اور وزارت خارجہ پر متمکن رہے شملہ معاہدہ پراختلافات کی بنا پر وزارت خارجہ سے استعفیٰ دے ڈالااور لاہور سے بذریعہ ٹرین کراچی کا سفر کیااس دور میں ان کاآنسوئوں بھرا رومال لاہور اسٹیشن پر دس ہزار میں خریدا گیاانہوں نے اپنی پہلی باقاعدہ تقریر ڈائو میڈیکل کالج کراچی میں ایک استقبالیہ میںکی جہاں پر این ایس ایف پاکستان کے صدر ڈاکٹر رشید حسن خان نے سٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیے اور راقم کو اس کی صدارت کا اعزاز حاصل ہوا۔کہ راقم بھٹوصاحب کے ہمراہ لاہور سے ہی کراچی پہنچا تھاپیپلز پارٹی بنانے کا خیال بھٹو صاحب کے ذہن میں آیا تو انہوں نے بنفس نفیس ربوہ کا دورہ کرکے قادیانیوں کے سربراہ سے ملاقات کی اور باقاعدہ پی پی پی میں ان کے کارکنوں کو شمولیت کی دعوت دی اس میں کوئی شک نہیں کہ بعد ازاں قادیانی نوجوانوں نے اس کی تنظیم میں بہت موثر کردارادا کیا اور رقوم بھی اپنے پلے سے خرچ کرتے رہے۔
اکثر بھٹو صاحب کے فنکنشن اورپی پی پی کی تقریبات بڑے شہروں میں موجود قادیانیوں کے ہوٹلوں شیزان نامی میں ہوتے تھے وہ پی پی پی سے اس کے واجبات لیتے تھے یا نہ واللہ علم بالصواب۔جب سقوط ڈھاکہ کے بعدبھٹو صاحب اقتدا ر میں آگئے تو قادیانیوں نے انھیں گھیرے میں لینا شروع کردیا اور وہ وہ مطالبات کرنا شروع کردیے جنھیں پورا کرنا قطعی بھٹو صاحب کے بس میں بھی نہ ہوتا تھا۔کئی قادیانی مسلمانوں کا روپ دھارے وزیر بھی بن گئے جن کا اب ذکر کرنا مناسب نہ ہے۔جب بھٹو صاحب پہلے دورہ پر امریکہ تشریف لے گئے تو قادیانی جو دنیا کے ہر استعمار کے ایجنٹ ہیں کہ وہ بڑی طاقتوں کے بغل بچے بن کر رہتے اور اپنے مفادات سمیٹتے رہتے ہیں۔
انہیں پوری دنیا میں ذلتوں کی خاک چاٹتے ہوئے دیکھ کر امریکہ اپنے ان مہروں کی حمایت میں کھل کر سامنے آگیاچند سال قبل تو امریکہ نے واشگاف الفاظ میں پاکستانی حکومت کو کہہ دیا کہ امریکہ پاکستان کو امداد صرف اس شرط پر دے گا کہ حکومت پاکستان قادیانیوں کے خلاف اٹھائے گئے سارے اقدامات واپس لے ایسے ہی حقائق سے نقاب اٹھاتے ہوئے پاکستان کے سابق وزیر اعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اقتدار کے آخری ایام میںقادیانیت کے خلاف تیغ براں جناب آغا شورش کاشمیری کو بتایاکہ برسر اقتدار آنے کے بعد جب میں پہلی مرتبہ سربراہ مملکت کی حیثیت سے امریکہ کے دورے پر گیاتو امریکی صدر نے مجھے ہدایت کی کہ پاکستا ن میں قادیانی جماعت ہمارا گروہ ہے آپ ہر لحاظ سے ان کا خیال رکھیں۔دوسری مرتبہ جب میں امریکہ کے سرکاری دورہ پر گیاتو دوبارہ پھر یہی ہدایت ملی بھٹو صاحب نے کہا کہ یہ بات میرے پاس قومی امانت تھی ریکارڈکے طور پر پہلی دفعہ انکشاف کر رہا ہوں۔ 29مئی 1974 کو ربوہ حال چناب نگر کے اسٹیشن پر176نشتر کے طلباء پر قادیانیوں نے قاتلانہ حملے کیے تو راقم الحروف اور نشتر کالج یونین کے دیگر راہنمائوں کی پریس کانفرنس اگلے روز تمام اردو و انگریزی اخبارات کی لیڈ اسٹوری بن گئی توپورے ملک میں تحفظ ختم نبوت کی تحریک چل پڑی۔مسلم ملت کے تمام اکابرین بمعہ تمام فرقوں مسلکوں گروہوں بشمول دینی سیاسی پارٹیوں کے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو گئے۔
راقم کے لکھے ہوئے پمفلٹ”آئینہ مرزائیت” جس کی بنیاد پر سوات کی سیر کو جاتے ہوئے نشتر کے طلباء کا24مئی1974کو ریلوے اسٹیشن پر قادیانیوں سے جھگڑا ہوا تھا اس واقعہ کی جب لاہور ہائیکورٹ کے ڈبل بنچ نے انکوائری شروع کی اور اس پمفلٹ میں موجود قادیانیوں کے پلید عقائد اور خرافات و بکواسات کو دیکھا تو یہ سبھی مغلظات حرف بحرف قادیانیوں کے لٹریچر سے بھی ثابت ہو گئیں۔
راقم کی دوران تحریک 1974جب بھٹو صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان کے امریکہ پر دونوں سرکاری دوروں پر دی گئی قادیانیوں کی بابت ہدایات کا ذکر فرمایا انہوں نے آئینہ مرزائیت پمفلٹ کی بابت دریافت کیاتو راقم نے انہیں پیش کیا اور اس میں تحریر کردہ مفسدعقائد پڑھ کر سنائے تو وہ سر پیٹ کر رہ گئے پھر تو انہوں نے خود بھی اس پمفلٹ کو قومی اسمبلی کے تمام ممبران تک پہنچایا اور 7ستمبر1974کو قومی اسمبلی کی متفقہ قرارداد سے قادیانی ناسور کو اسلام کے جسم سے الگ کرکے غیر مسلم قرار دے ڈالا گیا۔
انہی کے دور میں قادیانی میجر جنرل آدم خان نے حکومت کا تختہ الٹنے کی سازش تیار کی سادہ لوح مسلمان نوجوانوں کو بھی اس میں شامل کرلیا گیا قادیانی جرنیل جنرل آدم اور اس کے بیٹے میجر فاروق اور میجر افتخارجو ریٹائرڈ ائیر مارشل اصغر خان کے بھائی کے سالے تھے قید کرلیے گئے اسطرح بغاوت کی سازش مکمل ناکام ہوگئی اور قادیانی امت سردی میں سکڑے ہوئے سانپ کی طرح بیٹھ گئی۔وما علینا الاا لبلاغ۔