تحریر : رقیہ غزل جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق حکمران وقت کی نیک نامی اور پارسائی کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں جس سے عوام کی اکثریت حیران و پریشان ہو چکی ہے ۔پھر بھی حکمران طبقہ یہ راگ آلاپ رہا ہے کہ میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا ،دوسری طرف طرف جے آئی ٹی کی رپورٹ پر تمام اپوزیشن ارکان جھوم رہے ہیں جبکہ برسر اقتدار طبقہ ماضی کے قصے سنا کر اس رپورٹ کو اغیار ی سازشیں بتا کر اور آنسو بہا کر خود کو بہلا رہاہے حالانکہ عوام سبھی جانتے ہیں کہ
کہتے ہیں یہ دولت ہمیں بخشی ہے خدا نے فرسودہ بہانے ،وہی افسانے پرانے
تاہم یہ افسانہ (پانامہ ہنگامہ )مستقبل قریب میں تقریباًا پنے انجام کو پہنچتا ہوادکھائی دے رہا ہے ۔عربوں کی طرف سے دئیے گئے اربوں روپے کی ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ چکی ہے کیونکہ اعلیٰ عدالت کے بعد جے آئی ٹی نے بھی واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ مسلم لیگ( ن )کے پاس ان کے بے حساب اثاثوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے جبکہ زیر عتاب تھے اور جلا وطن کیے تھے تو اتنی جائیدادوں کے مالک کیسے بنے ؟اس پر طرہ یہ کہ قطری عمارت کی مسماری نے نون لیگ کو بہت کمزور کر دیا ہے جے آئی ٹی نے اپنی مصدقہ رپورٹ میں سنسنی خیز انکشافات کرتے ہوئے حکمران جماعت کی طرف سے پیش کئے گئے تمام شواہد کو مسترد کر دیا ہے بلکہ جھوٹا اور گمراہ کن قرار دے دیا ہے ۔جے آئی ٹی نے وزیراعظم نواز شریف ، ان کے بیٹے حسن نواز ،حسین نواز اور ان کی بیٹی مریم نواز کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کی سفارش کر دی ہے ۔ٹیم کے مطابق مدعا علیہان، رقوم کی ترسیلات کی وجوہات نہیں بتاسکے جبکہ ان کی موجودہ دولت اور متذکرہ ذرائع آمدن میں واضح فرق موجود ہے اور وہ منی ٹریل ثابت نہیں کر سکے ۔تحقیقاتی ٹیم کے مطابق نیب آرڈیننس1999کے سیکشن 9اے وی کے تحت یہ سب کچھ کرپشن اور بد عنوانی کے زمرے میں آتا ہے ۔رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ حدیبیہ مل کیس کے دو اہم کردار جا وید کیانی اور سعید احمد جو کہ نیشنل بینک آف پاکستان کے سی ای او ہیں کا نام ای سی ایل میں اس وقت تک رکھا جائے جب تک سپریم کورٹ اس کیس کافیصلہ نہیں کر لیتی۔
۔جے آئی ٹی نے اس تفتیش کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے دوسرے ممالک سے بھی مدد لی ہے تاکہ کوئی ابہام باقی نہ رہے ۔جس کے بعد یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ مریم نواز دو آف شور کمپنیوں کی بینی فیشیل اونر ہیں اور میاں نواز شریف بھی متحدہ عرب امارات میں ایک آف شور کمپنی کے مالک ہیں یعنی پہلے صرف دو کمپنیاں تھیں مگر اب تیسری بھی سامنے آگئی ہے جس کہ نسبت بھی جناب میاں نواز شریف کے نام ہے اور ان سب کی تفصیل اس رپورٹ میں موجود ہے۔ سبھی باخبر ہیں کہ بلاشبہ اس تاریخی تفتیش کادورانیہ بخوبی انجام بخیر ہوا ہے جسے حکمران جماعت کی طرف سے نامناسب اور ناواجب قرار دیا جارہا ہے ۔
یہاں سوال یہ ہے کہ اگر جے آئی ٹی کا قیام کسی سازشی عمل کا حصہ تھا تو حکمرانوںنے مٹھائیاں کیوں کھائیں تھیں ؟ حکمرانوں کوجے آئی ٹی کی قانونی حیثیت اور شفافیت پر یقین نہیں تھا تو پھر جے آئی ٹی کے سامنے پیش کیوں ہوئے تھے؟ حالانکہ دو معزز جج صاحبان نے پہلے بھی ان کے خلاف فیصلہ دیا تھا۔سب سے بڑا دھچکا شریف خاندان کے لیے یہ ہے کہ ا ن کے مطابق سارے ڈاکومینٹس دبئی سے تصدیق کروائے گئے ہیںکہ کس کس طریقے سے اَسّی کی دہائی میں دبئی میں مل بیچی گئی تو وہ دبئی کی ہی اتھارٹیز نے کہہ دیا ہے کہ ایسا کوئی ریکارڈ ہمارے پاس موجود نہیں ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر مٹھائیاں کھانے والے آج چلّا رہے ہیں اور حقائق کو مسخ کرنے میں تمام درباری اور غلام گردشی مسلسل کوشاں ہیں ۔ہمیشہ کی طرح حکومتی وزرا ء غصے اور طنز و تضحیک کے گولے داغ رہے ہیں جو کہ ان کے شایان شان بھی نہیںہے ۔اس بوکھلاہٹ میں کبھی اس رپورٹ کو جھوٹ پر مبنی داستان قرار دیا جاتا ہے اور کبھی جمہوریت کے خلاف سازش کا رونا رویا جاتا ہے مگر حقائق کے آئینہ میں فیصلہ نوشتہ دیوار بن چکا ہے۔ اب توغیر ملکی دوست حکمران بھی نظریں چرارہے ہیں ۔تحریک انصاف کو بند گلی میں دھکیلتے دھکیلتے نون لیگ اپنی بقاء دائو پر لگا بیٹھی ہے اور منصفوں سے نالاں نظر آرہی ہے ۔
اس سیاسی اکھاڑ پچھاڑ سے کسی کو فائدہ ہوتا تو نظر نہیں آرہا البتہ پگڑیاں سب کی اچھلتی نظر آرہی ہیں ویسے بھی دستاروں کے بلوں میں چھپے ہوئے پاپ لاوا بن کر پھوٹ رہے ہیں ۔ایسے میں سیاسی منظر نامہ کیا رخ اختیار کرے گا یہ کہنا قبل از وقت ہوگامگراس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ( ن) کافی حد تک اپنی سیاسی ساکھ خراب کر چکی ہے ۔جو تھوڑی بہت کسر بچی تھی وہ عربوں کی منتیں کر کے گنوا دی ہے ۔ایسے میں تحریک انصاف نے تو جلتی پر تیل چھڑکتے ہوئے عوام کو ”گلی گلی میں شور ہے ” کا نیا نعرہ دے دیا ہے۔ انہی بچگانہ حرکتوں کی وجہ سے لیگی وزراء ہر پریس کانفرنس اور ٹی وی انٹرویو میں یہ کہہ رہے ہیں کہ پانامہ کا سارا ڈرامہ ان کو ہٹانے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ عمران خان وزیراعظم بننا چاہتے ہیں جبکہ عوام حکمرانوں کے ساتھ کھڑے ہیں بلکہ یہ جمہوریت اور سی پیک کے خلاف سازش ہے ۔ملک دشمن عناصر پاکستان کی ترقی نہیں دیکھ سکتے ۔
پاکستان کا ہر باسی جان گیا ہے کہ جمہوریت نہیں شخصی آمریت خطرے میں ہے اور سی پیک حکومتی منصوبہ نہیں بلکہ ملکی منصوبہ ہے جسے پاک آرمی کی مکمل حمایت اور سرپرستی حاصل ہے۔ اور اگر یہ سازش ہے تو سازش کرنے والا کون ہے ؟ جبکہ پانامہ کیسز میں جوابات کے لیے میاں صاحب کو کئی مواقع دئیے گئے اور اب تو ملک کا بچہ بچہ اس میگا اسکینڈل کو جانتا ہے۔ اب مدعی صرف عمران خان نہیں ہے بلکہ پورا پاکستان ہے اور سب کی نگاہیں سپریم کورٹ کی طرف لگی ہوئی ہیں ۔حالانکہ اکثریتی صحافی حالیہ صورتحال کو جنرل ضیا سے واجد ضیا تک سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ہمارے اکثر صحافی صحافت کم اور مخبری زیادہ کرتے ہیں اوروقت سے پہلے پیشین گوئی کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں شاید کہ اگر تکا لگ گیا تو ریٹنگ بن جائے گی۔ جیسا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے سے ایک دن پہلے جنگ گروپ کی طرف سے غلط رپورٹ شائع کر دی گئی جس پر انھیں نوٹس جاری ہوا ہے۔
عدالتی معاملات کو اینکرز یوں بیان کرتے ہیں جیسے معمولی مسائل ہیں جن کا حل ان کے پاس موجود ہے جناب نذیر ناجی کا اعتراف یاد آگیاانھوں نے کہا کہ بد قسمتی سے ہم سب اینکر پرسنز کا کوئی ایجنڈا نہیں، ہمارا صرف ایک ہی ایجنڈا لفافہ ہے۔ جو لفافہ دے گا ہم اس کا دفاع کریں گے بدقسمتی سے کوئی بھی اینکر پرسن عوام کی بات نہیں کرتا ۔جیسے اکثر اینکرز ترکی بہ ترکی ،ترکی کی مثالیں دیتے بھی نظر آرہے ہیں توجہاں تک بات ہے ترکی کی کہ عوام جمہوریت کے لیے ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے تھے اور فوجی بغاوت کو ناکام بنا دیاتھا تو عرض ہے کہ ترکی میں لٹریسی ریٹ 84% ہے یعنی عوام با شعور اور تعلیم یافتہ ہیں ان کی جمہوری حکومت نے کچھ ڈیلیور کیاہے تو انھوں نے سینے پر گولیاں کھائیں تھیں اور یہ الفاظ طیب اردوان کے ہیں کہ” قومیں صرف باتوں سے نہیں بنتیں بلکہ خود کو بڑے مقاصد اور عوامی فلاح و بہبود کے لیے وقف کر نا پڑتا ہے ۔”جبکہ ہمارا لٹریسی ریٹ اور ملکی حالات سوالیہ نشان ہیں ۔ہم تو ایسے ملک کے باسی ہیں جہاں تقلید شخصی کی روایت ہے ۔ جو دلیل اور برہان سے با خبر ہونے کو جرم قرار دیتی ہے اور اندھے اعتماد سے سیاسی لیڈران اور نام نہاد پیشوائوں کی اطاعت کی قائل ہے ۔
اب جب کہ سیاسی میدان میںکئی قوتیں مل بیٹھی ہیں اور تخت کا تختہ بننے کا عندیہ دے رہی ہیںایسے میں پیپلز پارٹی نے بھی مصلحتاً مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا ہے ۔ان کے مطابق جمہوریت کے بچائو کے لیے استعفی نا گزیر ہے جبکہ جماعت اسلامی کے قائدین یہ کریڈیٹ لینے کے چکر میں ہیں کہ حکمرانوں کا احتساب ان کی کاوشوں کانتیجہ ہے اور وہ جلد تمام کرپٹ عناصر کو احتسابی عدالت کے رو برو لے کر آئیں گے ۔مولانا فضل الرحمن کی مفاد پرست حکمت عملی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ کشمیری سپوت برہان وانی شہید کے یوم شہادت پر ان کا بیان یہ تھا کہ ”عمران خان کو تحریک انصاف کی سربراہی سے ہٹا دیا جائے تمام مسائل حل ہوجائیں گے ”۔قصئہ مختصر جو تیوں میں دال بٹ رہی ہے ۔ مستقبل کے سیاسی متوقع عہدوں کی لوٹ مار کا بازار سبھی نے گرم کررکھا ہے اور کہنے کو سبھی پریشان ،انجان اور مہمان ہیں ۔سب کو جمہوریت خطرے میں نظر آرہی ہے مگر جمہور کس حال میں ہے یہ پتہ کرنے کی کسی کو فرصت نہیں ہے ۔ناقص خوراک ، جعلی ادویات ، لوڈشیڈنگ کے عذاب ، سیلاب میں بہتے ہوئے خواب اور بھوک و ننگ سے زندگی ہارتے ہوئے شباب چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
راول ڈیم میں زہر کس نے ڈالا ؟قدرتی حیات اور انسانی حیات دونوں کو دائو پر کس نے لگایا ؟ کراچی میںزہریلا، انسانی فضلہ اور جراثیم ملا پانی پینے پر عوام کیوں مجبور ہیں ؟ لاہور میں کیمیکل ملا اور گٹروں کا پانی کیوںصاف نہیں کیا گیا جبکہ یہ شکایت دور حکومت کے آغاز سے ہی کی جا رہی ہے اور اب پورا پاکستان ایسا پانی پی رہا ہے اور یہ مضر صحت پانی ان گنت بیماریوں کی وجہ بن چکا ہے ۔پیٹ کی بیماریوںکیوجہ سے اموات بھی ہو رہی ہیں ۔غربا بھی پانی خرید کرپینے پر مجبور ہو چکے ہیں ۔ہسپتالوں میں غریب مر رہے ہیں مگر کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی ذمہ داران کو پکڑنے کا انتظام ہے ۔جب کوئی روح فرسا موت ہوتی ہے تو خادم اعلیٰ کا نوٹس اور پھر سب کچھ بوگس ۔۔اسی کشمکش میں پورا نظام چل رہا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ یہ ملکی ترقی و خوشحالی کے خلاف سازش ہے ؟یقینا اس کا فیصلہ آئندہ چند دنوں میں ہو جائے گا کہ یہ سازش یا کہ مکافات عمل ہے۔