تحریر : طارق حسین بٹ اقتدار کی خاطر دوسرے انسانوں کا قتل ایک عام سی بات ہے جس سے تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں۔ یہ روش کسی ایک قوم، ملک یا مذہب سے مخصوص نہیں ہے بلکہ دنیا کی ہر قوم کو اس سے سابقہ پڑتا ہے۔ مسلمان ہونے کی حیثیت سے مسلم حکمرانوں کو اقتدار سے جو محبت ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں جس کی وجہ سے مسلم امہ کو تلخ تجربات سے گزرنا پڑا تھا اور جو ایک دن اس کے زوال کا باعث بنا تھا۔ دراصل اسلام کے نام پر جو بھی ملوکانہ حکومتیں قائم ہوئیں وہ ایک ہی خاندان کا تسلط تھا اور پھر اسی خاندانی اقتدار کی بقا کی خاطر اپنے ہی اعزاء و اقربا، رشتہ داروں اور مخالفین کا قتل اور ان کا خون جائز ٹھہرا۔محلاتی سازشیں بھی ایک حقیقت ہیں کیونکہ اقتدار کا نشہ ہی ایسا پر کشش ہوتا ہے کہ اس کے حصول کی خا طر سازشوں کا پنپنا فطری عمل ہوتا ہے اور یہ سازشیں ہی تھیں جھوں نے اسلام کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ۔کبھی کبھی یہ سازشیں کامیاب ہو جاتی تھیں اور کبھی کبھی ناکام رہتی تھیں لیکن ہر دو صورتوں میں خون بہا یا جانا لازمی قرار پا تا تھا۔جمہوری کلچر کے بعد ملوکیت کو پوری دنیا سے اپنا بورا بستر لپیٹنا پڑا اور عوامی رائے سے حکمرانوں کے انتخا ب کا ایک نیا طریقہ متعارف ہوا۔پوری دنیا نے اس جمہوری نظام کو تسلیم کر لیا لیکن مسلمان ریاستیں پھر بھی کسی نہ کسی انداز میں ملوکیت کے ساتھ چمٹی رہیں اور اس نئے جمہوری کلچر کو اپنانے سے قاصر رہیں جسے پوری دنیا نے اپنا نے میں ملک و قوم کی ترقی کی بنیاد سمجھا۔
پاکستان بھی ان خوش قسمتوں قوموں میں شامل ہے جسے جمہوریت تحفے میں ملی ہے کیونکہ پاکستان کی اپنی تخلیق ووٹ کی پرچی سے رو بعمل ہوئی تھی جو جمہوریت سے اس کی وابستگی اور محبت کی دلیل ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہاں پر ایک ایسا طبقہ جو انگریزوں کا نمک خوار تھا اس نے جائز و ناجائز طریقے پر اقتدار اپنی مٹھی میں بند کر کے عوامی خواہشات کا خون کر دیا اور اب اس قائم کردہ اقتدار سے کسی بھی صور ت میں دستبردار ہونے کیلئے تیار نہیں ہے۔یہ مخصوص طبقہ پچھلے ٦٧ سالوں سے نئے نئے روپ بدل کر آرہا ہے اور عوام کو دھوکہ دینے میں کامیاب رہا ہے اور یہی اس کی کامیابی ہے کہ اس کے ہر نئے روپ پر عوام یقین کر کے اس طبقے کو ایوانوں میں بھیجتے رہے ہیں لیکن شائد اب ان کا سفر اپنے منطقی انجام تک آپہنچا ہے کیونکہ عوام تبدیلی اور انقلاب کی آوازوں سے جاگ چکے ہیں ۔ استحصالی سیاست آخری ہچکیاں لے رہی ہے کیونکہ عوام میں اپنے حقوق کا شعور بیدار ہو چکا ہے اور وہ ان لٹیروں کو مزید برداشت کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ بقولِ اقبال (پرانی سیاست گری خوار ہے۔ زمیں میرو سلطان سے بیزار ہے)
مغربی جمہوریت کے فیو ض و برکات، میڈیا کی آزادی اور نئی نسل کی آزادانہ سوچ نے پرانی سیاست پر ایک سوالہ نشان لگا دیاہے۔ پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اور ان کی بغلی جماعتیں نئی صورتِ حال سے شدید پریشانی کی کیفیت میں مبتلا ہیں کیونکہ انھیں اپنا اقتدار ڈو لتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ملک کی ا غلب اکثریت آزا دی اور انقلاب کے نعروں کی غلام بنی ہوئی ہے اور اس پرانے گلے سڑے نظام کو جڑ سے اکھاڑ دینے کیلئے بے تاب ہے۔ان کی راہنمائی عمران خان اور ڈاکٹر علامہ طا ہر القادری کے مضبوط ہاتھوں میں ہے جھنوں نے دھرنا سیاست سے حکمرانوں کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔عمران خان کے حالیہ جلسوں میں عوام کی تاریخی شرکت سے حکمران اپنے حوا س کھو بیٹے ہیں۔ان کے پاس اس عوامی بیداری کو روکنے کا کوئی حل نہیں ہے ۔ وہ اس لہر کو زیادہ پھیلنے کا موقعہ نہیں دینا چاہتے کیونکہ اس طرح ان کی سیاسی موت یقینی ہو جائیگی۔ پی پی پی کے شریک چیرمین آصف علی زرداری بھی عید پر لاہور تشریف لائے تا کہ مسلم لیگ (ن) سے مل کر اس ابھرتی ہوئی عوامی قوت سے نپٹا جائے لیکن انھیں بھی کوئی ایسا فارمولا نہیں ملا جو اس نئی عوامی لہر کی راہ میں روک لگا سکے۔ان کے اس دورے کا مقصد پی پی پی کو منظم کرنا تھا لیکن لگتا ہے کہ انھوں نے بہت دیر کر دی ہے کیونکہ جیالے پچھلے پانچ سالوں میں جسطرح ذلیل و رسوا ہوئے۔
Imran Khan
اس کے بعد ان کیلئے نئی آوازوں کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچا لہذا اب وہ تبدیلی اور انقلاب کی نئی راہوں کے راہی بن چکے ہیں ۔پی پی پی کی اگر پنجاب میں حالت پتلی ہے تو مسلم لیگ (ن) کی حا لت بھی کوئی اتنی اچھی نہیں ہے۔ہر آنے والے دن کے ساتھ میاں محمد نواز شریف کی حکومت غیر مقبول ہوتی جا رہی ہے کیونکہ گو نواز گو کے نعرے کی ملک گیر مقبولیت ان کی حکومت کیلئے سوہانِ روح بنی ہوئی ہے۔اس سارے پسِ منظر میں مسلم لیگ(ن) کے پاس ایک ہی آپشن بچا تھا کہ وہ ایک سازش تیار کرتی اور تحریکِ ا نصا ف کا راستہ تشدد اور انتظامی غنڈہ گردی سے روکتی اور اس کے جلسوں میں اپنے کارندے بھیجتی اور یوں جلسے کے ما حول کو خراب کرتی تا کہ لوگ تحریکِ ا نصاف کے جلسوں میں شرکت سے اجتناب کرتے۔اس سازش کا پہلا مظاہرہ ملتان کے جلسے میں دیکھنے میں آیا جس میں لاکھوں لوگوں کی شرکت سے حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی۔غیر جانبدار مبصرین کی متفقہ رائے کہ ملتان کی سرزمین پر انسانی آنکھ نے اتنا بڑا اجتماع اس سے قبل کبھی نہیں دیکھا تھا۔
انسانوں کا ایک سمندر تھا جو کناروں سے امڈ تا جا رہا تھا او ر گو نوا زگو کے فلک شگاف نعروں سے موجودہ نظام کی رخصتی کا اعلان کر رہا تھا۔لاکھوں لوگوں کی زبان پر گو نواز گو کا نعرہ کوئی مذاق نہیں ہے اور شائد یہی وجہ ہے کہ حکومت نے تحریکِ انصاف کے اس سیلِ رواں پر بندھ باندھنے کی سازش تیار کی تا کہ عوامی دبائو سے کسی طرح جان چھوٹ جائے لیکن عوامی نفرت کے پیشِ نظر اب ایسا ہو نا ممکن نہیں ہے کیونکہ جب عوام ایک دفعہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو پھر انھیں روکنا کسی کیلئے بھی ممکن نہیں رہتا ۔اب عوام کا فیصلہ یہی ہے کہ موجودہ کرپٹ نظام کی جگہ ایک ایسا نظام لایا جائے جس میں جوابدہی کا مضبوط نظام ہو، کرپشن کا خاتمہ ہو ،عدل و انصاف اور میرٹ کا احیا ہو اور قانون کی نظر میں سب برابر ہوں ۔عوام کو جتنا دبانے کی کوشش کی جائیگی عوام اتنی ہی شدت سے اپنا ردِ عمل ظا ہر کریں گئے۔ بقولِ شاعر۔ تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب۔۔یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے۔
Multan Killed
ملتان میں اس نئی تیار کردہ سازش کے تحت لوگوں کو جلسے میں شرکت سے روکنا تو ممکن نہیں تھا لیکن یہ ممکن تھاکہ جب عوام سٹیڈیم میں داخل ہو جائیں تو پھر نکلنے کے سارے دروازے بند کر دئے جائیں تا کہ جلسے میں بگھدڑمچ جائے اور لوگ تحریکِ انصاف سے دور ہٹنا شروع ہو جائیں۔اس مقصد کے حصول کی خاطر بجلی بند کر دی گئی، گیٹ کے باہر پائپ رکھ دئے گئے اور فائر بریگیڈ سے پانی بھی چھڑک دیا گیا تا کہ گرائونڈ میں پھسلن ہو جا نے کی صورت میں جو بھی باہر نکلنے کی کوشش کرے وہ منہ کے بل گر جائے اور یوں سراسیمگی کا ما حول پیدا ہو جائے جس سے جلسے کی ناکامی کا تاثر ابھارا جا ئے ۔ اس سازش کے نتیجے میں سات افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے اور پچاس سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ملتان انتظامیہ نے اس سارے واقعہ پر ایک رپورٹ تیار کی جو جھوٹ کا پلندہ تھی لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ آزاد میڈیا کی موجودگی میں جھوٹ اب زیادہ دیر چل نہیں سکتا کیونکہ میڈیا نے ٹیلیویژن پر بند گیٹ بھی دکھا دئے اور بجلی بند کرنے کی فلم بھی چلا دی۔
انتظامیہ جھوٹ پر جھوٹ بولتی جارہی ہے اور اپنے اخلاقی بانجھ پن کا ثبوت بھی دے رہی ہے لیکن میڈیا سارا چٹا چٹھااگل رہا ہے ۔حکومت کاکھلا جھوٹ عوامی جذبات کو مزید بھڑکائیگا اور وہ نئے عزم کے ساتھ موجودہ حکومت کے خلاف سینہ سپر ہو جائیں گئے۔ایک زمانے میں حکومت اپنے مخالفین کے خلاف بڑے گندے حربے استعمال کرتی تھی ۔کبھی گرائونڈ میں پانی چھوڑ دیتی تھی، کبھی سانپ چھوڑ دیتی تھی اور کبھی فائرنگ کروادیتی تھی لیکن اب کیمرے کی کھلی آنکھ کے سامنے یہ سب کچھ کرنا ممکن نہیں رہا لہذا سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ سے بدلا نہیں جا سکتا۔حکومت ملتان کے اس خونِ ناحق سے استحکام نہیں پا سکتی بلکہ اس طرح کی حرکتوں سے اس کے اقتدار کا سورج جلدی غروب ہو جائیگا۔تحریکِ انصاف کو یاد رکھنا چائیے کہ راہِ عشق میں کئی کٹھن مراحل آ ئیں گئے اور مخالفین بڑے اوچھے وار کریں گئے لیکن انھیں صبرو استقامت کا دامن مضبوطی سے تھامنا ہو گا کیونکہ راہَِ عشق میں یہی کامیابی کی نوید ہوتی ہے۔