تحریر : صباء نعیم صوبہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری نے کہا ہے کہ ہم نے ان مٹھی بھر انتہا پسندوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف کھلی جنگ شروع کر دی ہے جو پاکستان کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں۔ ان علیحدگی پسندوں کو ہمارے دشمنوں کی طرف سے فنڈز مل رہے ہیں۔ لیکن وہ بھاگ رہے ہیں۔ انہیں بری طرح شکست ہو گی۔ بلوچستان میں ان عناصر کے لئے کوئی جگہ نہیں جو پاکستان کی سالمیت کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پورے بلوچستان میں لوگ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے حالیہ اشتعال انگیز بیانات کے خلاف باہر نکل آئے ہیں لیکن کسی بھی جگہ دس آدمی بھی نریندر مودی کی حمایت میں سامنے نہیں آئے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ نام نہاد علیحدگی پسند عناصر کو عوام کی کوئی حمایت حاصل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ گمشدہ افراد کا معاملہ بلا وجہ اٹھایا جا رہا ہے اور گمشدگان کی جعلی فہرستیں سامنے لائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ ان کے سات ماہ کے دور میں ایک بھی شخص غائب نہیں ہوا زیادہ سے زیادہ یہ پچاس لوگ گمشدگان میں شامل ہیں ان میں سے بھی زیادہ تر سرحد پار بیٹھے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی حکومت آئندہ برس مردم شماری کے لئے تیار ہے اس وقت تک فوج کی جانب سے افرادی قوت دستیاب ہو جائے گی۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار سینئر میڈیا پرسنز کے ساتھ اپنے سیکرٹریٹ میں بات چیت کرتے ہوئے کیا۔
نواب ثناء اللہ زہری نے جو باتیں کی ہیں وہ بلوچستان کے عوام کے دل کی آواز ہیں بلوچستان کے عوام نے نریندر مودی کی اشتعال انگیز تقریر کے خلاف صوبے کے چپے چپے میں اپنے جذبات کا اظہار کر دیا تھا نہ معلوم وہ لوگ کہاں تھے اور کہاں ہیں جن کا ذکر مودی نے اپنی لال قلعے کی تقریر میں کیا تھا ان کی وہ تقریر اس حد تک بے سرو پا اور بے وزن تھی کہ خود بھارت کے اندر سینئر سیاستدانوں نے اس تقریر کو بے وقت کی راگنی قرار دیا۔ نریندر مودی نے اپنے تئیں یہ سمجھا تھا کہ وہ اس تقریر کے ذریعے بلوچستان کا ذکر کر کے کشمیر سے لوگوں کی توجہ ہٹانے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن کشمیر اور بلوچستان کا کیا موازنہ؟ کشمیر کو خود بھارت نے ہمیشہ متنازعہ علاقہ تسلیم کیا ہے۔
kashmir Problem
خود مودی اور بھارت کے دفترِ خارجہ نے کہا کہ کشمیر بھارت اور پاکستان کا باہمی تنازعہ ہے پاکستان اسے عالمی سطح پر کیوں اٹھا رہا ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ بھارت بھی کشمیر کو متنازعہ تو تسلیم کر رہا ہے اور اس پر باہمی بات چیت سے بھی منکر نہیں تو پھر ان حالات میں بلوچستان کے ساتھ اس کا موازنہ کیسے درست ہو سکتا ہے؟ بلوچستان کے چند لوگوں کو اگر کوئی شکایت ہے تو اس کے لئے پاکستان کے اندر پلیٹ فارم موجود ہے ان میں سے کسی کو نریندر مودی سے رابطے کی ضرورت نہیں البتہ جو چند عناصر ان کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں اور ان کی زبان بول رہے ہیں ان کا معاملہ الگ ہے۔ ان سب لوگوں کو نواب ثنائ اللہ زہری نے بہت اچھی طرح جواب دے دیا ہے اور ان افسانوں کی قلعی بھی کھول دی جو گمشدہ افراد کے سلسلے میں بڑھا چڑھا کر بیان کئے جاتے ہیں۔
انہوں نے ایسے عناصر کے خلاف کھلی جنگ کا اعلان کیا ہے وہ دہشت گردوں کے خلاف کھل کر بات بھی کرتے ہیں اس دہشت گردی میں ان کے خاندان کے نوجوان افراد نے قربانیاں پیش کی ہیں لیکن ان کے حوصلوں کو پست نہیں کیا جا سکا۔ نواب ثنائ اللہ زہری جب سے صوبے کے چیف ایگزیکٹو کے منصب پر فائز ہوئے ہیں وہ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر دہشت گردوں کا پیچھا کر رہے ہیں اور ان کوششوں میں انہیں کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے اگر دہشت گرد اکا دکا بڑی وارداتیں کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ دہشت گرد ہر جگہ کامیاب ہو رہے ہیں یہ ان کی مایوسانہ کارروائیاں ہیں جو جلد ختم ہو جائیں گی۔ نواب ثنااللہ زہر ی نے اگر وطن کے خلاف سازشیں کرنے والوں کو چیلنج کیا ہے تو کچھ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہوگا۔
Missing Persons
جہاں تک گمشدہ افراد کا تعلق ہے اس سلسلے میں ان کا یہ دعویٰ اپنی جگہ ایک چیلنج ہے وہ کہتے ہیں کہ ان کے سات ماہ کے دور میں کوئی ایک شخص بھی غائب نہیں ہوا اور جو پچاس کے لگ بھگ لوگ پہلے سے لاپتہ ہیں ان میں سے اکثر بھی سرحد پار بیٹھے ہیں۔ اگر وزیر اعلیٰ کے اس دعوے سے ان کے کسی مخالف کواختلاف ہے تو وہ سامنے آئے اور بتائے کہ کون لوگ ان کی وزارت علیا کے دور میں غائب ہوئے جو لوگ اپنی مرضی سے بیرون ملک بیٹھے ہیں، انہیں تو گمشدگان کی فہرست میں شامل کرنا زیادتی ہے غالباً یہی وہ لوگ ہیں جو بیرون ملک بیٹھ کر بلوچستان میں نام نہاد زیادتیوں کے افسانے تراشتے ہیں اور ان کا ذکر بڑھا چڑھا کر کرتے ہیں۔
بلوچستان میں جن لوگوں کو حقیقی مسائل درپیش ہیں ان کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے اور اس کے لئے مل بیٹھ کر کوئی نہ کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ بات بات پر ہتھیار اْٹھا لینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ جو بھی مسائل ہیں ان کو سامنے لا کر ان کا پر امن حل بات چیت کے ذریعے نکالنا چاہیے۔ بلوچستان اور وفاق کی حکومت نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا تاہم جو لوگ پاکستان کے خلاف سازشیں کرتے ہیں، پاکستان کے آئین کے خلاف بات کرتے ہیں اور پاکستانی مفادات کے خلاف ہتھیاروں کی زبان میں بات کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، ان کے ساتھ تو مذاکرات ممکن نہیں گزشتہ تین برسوں میں بہت سے فراریوں نے ہتھیار ڈالے ہیں اور پر امن زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے بچے سکولوں میں تعلیم پا رہے ہیں اور چند برسوں کی تعلیم کے بعد وہ بہتر مستقبل کی امید رکھ سکتے ہیں ان فراریوں نے اپنے بچوں کا مستقبل تعلیم میں تلاش کیا ہے تو دوسروں کو بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے ہتھیار رکھ دینے چاہئیں اگر وہ ایسا کر کے قومی دھارے میں شامل ہوتے ہیں تو ان کے لئے مستقبل کی راہیں کشادہ ہوں گی، جو لوگ ملک کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں ناکامی ان کا مقدرہے۔ وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری نے ان کو انتباہ کر دیا ہے اس لئے وہ اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں۔