محققین کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر اور عام افراد قبض کی علامات سے متعلق متفق نہیں ہیں جس کی وجہ سے کچھ لوگ معالج سے مشورہ لینے یا پھر سرے سے کوئی علاج کرانے سے ہی محروم رہ جاتے ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق طبی ماہرین کا خیال ہے کہ قبض کی بڑی علامت یہی ہے کہ جب کسی فرد کی (دن یا ہفتے میں) حاجت میں صحت مند انسان کے مقابلے میں تین گنا کمی واقع ہو جائے۔
دی کنگز کالج، لندن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ مریضوں کے تجربات کی روشنی میں قبض کی تعریف از سر نو متعین کرنے کی ضرورت ہے۔ فلاحی تنظیم ’چیریٹی گٹس یو کے‘ کے مطابق اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ فضلے سے متعلق بات کرنا اب باعث شرم نہیں رہا۔
قبض ایک بہت ہی عام کیفیت ہے اور بظاہر سات صحت مند افراد میں سے ایک اس کا شکار ہوتا ہے۔ فضلے کے اخراج یا آنتوں کے خالی کرنے میں مشکلات قبض کی بڑی علامات میں شامل ہیں لیکن اس کے باوجود اس کی تشخیص کا طریقہ سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ محققین کے مطابق چھ علامتوں کی روشنی میں قبض جیسی بیماری کی نئی تعریف متعین کی جا سکتی ہے:
٭کپڑے کا جسم پر معمول کے مطابق فٹ نہ آنے پر پیٹ میں تکلیف، درد اور مروڑ کا ہونا۔
٭پاخانے کے اخراج میں تکلیف ہونا، زیادہ زور سے اخراج کی کوشش پر خون کا رسنا، پاخانے کے راستے میں جلن اور سوزش کا ہونا۔
٭پاخانہ کم آنا اور پاخانے کا سخت ہونا، ایک دن میں زیادہ سے زیادہ تین بار یا ہفتے میں کم از کم تین بار پاخانہ کا آنا ایک نارمل کیفیت ہے۔
٭رفع حاجت کی ضرورت محسوس نہ ہونا یا معدے کے نامکمل طور پر خالی ہونے جیسی حسی خرابیاں۔
٭نفخ شکم یا سوجن کا آنا یا بلند آواز میں بدبو دار ریاح کا خارج ہونا۔
٭پاخانے کے اخراج پر کنٹرول نہ رہنا اور پاخانے کے راستے سے خون کا بہنا۔
اس فہرست کی بنیاد کیا ہے؟
محققین نے سروے میں 2557 عام لوگوں کے ساتھ 411 عام ڈاکٹر اور 365 گیس کے امراض کے ماہرین کو شامل کیا تھا۔ اس سروے کے نتائج ’امریکن جنرل آف گیسٹرو انٹرولوجی‘ میں شائع ہوئے۔ سروے کے نتیجے میں ماہرین نے یہ دریافت کیا کہ زیادہ تر لوگ قبض کی علامات کے بارے جو سمجھتے ہیں وہ باضابطہ تشخیص کی علامات کا حصہ ہی نہیں ہیں۔ ان میں مندرجہ شامل ہیں:
٭ٹوائلٹ میں زیادہ دیر تک بیٹھے رہنا اور پاخانہ اخراج میں مشکلات کا سامنا کرنا۔
٭زور لگانا۔
٭قبض کشا دواؤں کے استعمال سے حاجت کا ہونا۔
زیادہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ انھیں قبض ہے ان کی علامات باضابطہ طور پر تسلیم کردہ علامات سے ملتی ہیں جبکہ تین میں سے ایک بظاہر صحت مند شخص اپنی قبض کی علامات سے بے خبر رہتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ڈاکٹرز اور عام لوگ قبض کی علامات پر متفق نہیں ہیں۔اگرچہ طبی ماہرین پاخانہ اخراج میں کمی کو قبض کی بڑی علامت قرار دیتے ہیں لیکن ایسے لوگ جو قبض کا شکار رہ چکے ہیں ان کی آدھی تعداد ہی اس تجربے سے گزری ہے۔
محققین کیا کہتے ہیں؟
کنگز کالج لندن کی ڈاکٹر ارینی ڈیمیڈی نے جو تحقیقاتی رپورٹ کی مصنفہ بھی ہیں کہا: ’ہماری تحقیق کے مطابق ایسا ممکن ہے کہ جو لوگ قبض کے علاج کی درخواست کرتے ہیں ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ خود ان علامات کی پہچان، تشخیص اور علاج سے متعلق جانتے ہوں۔ ان کا کہنا ہے کہ قبض غذا میں فائبر یا پانی کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے لیکن اس کا سبب دوسرے امراض بھی ہو سکتے ہیں جیسے کہ معدے کا کینسر یا نظام انہضام سے متعلق بیماریاں وغیرہ۔
ڈاکٹر ڈیمیڈی نے کہا:’جب نظام انہضام کی علامات واضح ہو جائیں تو پھر ڈاکٹر سے رجوع کرنا لازمی ہے۔‘
چیریٹی گٹس یو کے کی ڈاکٹر جولی ہیرنگٹن کا کہنا ہے کہ قبض سے متعلق مریض کی باتوں کو سننا اہمیت کا حامل ہے۔
’مریض اپنے تجربے کی بنیاد پر مرض کو بخوبی جاننے لگتے ہیں اور جب ماہر معالج ان کے ساتھ ہوں تو پھر یہ ایک خوبصورت ملاپ بن جاتا ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ہر قبض ایک ہی طرح کا نہیں ہوتا ہے اور مریضوں میں مختلف علامات دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ڈر اور شرمندگی کی وجہ سے لوگ پاخانے کے اخراج سے متعلق بیماری کے بارے میں چھ ماہ یا ایک سال تک بتاتے ہی نہیں ہیں۔ آپ کو اپنے جسم سے ہم آہنگ ہونے کی ضرورت ہے۔
صحت مند انسان کو کتنی بار پاخانہ کرنا چاہیے؟
شاید اس کا جواب دینا مشکل ہے کیونکہ یہ ہر فرد کے لیے ڈرامائی طور پر مختلف ہو سکتا ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق جن افراد کو قبض نہیں ہوتی وہ اوسطاً ہفتے میں سات بار پاخانہ کرتے ہیں لیکن ماہرین کے مطابق دن میں یا ہفتے میں تین بار بھی حاجب کا رفع ہونا صحت مند ہونے کی علامت ہے۔ اس لیے آپ کو یہ دیکھنا لازم ہے کہ آپ کے لیے کیا نارمل ہے اور آپ کو پھر کن تبدیلیوں کی ضروت ہے۔
علاج کے کون سے آپشنز موجود ہیں؟
این ایچ ایس ایڈوائس کے مطابق بہت سے لوگ اس بیماری کی تشخیص خود سے کر لیتے ہیں اور پھر غذا میں فائبر اور پانی کی مقدار بڑھا کر اس کا علاج کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔
فائبر سالم اناج کی بنی بریڈ اور پاستے، پھلوں، دال اور اناج میں پایا جاتا ہے۔
زیادہ ورزش اور خوراک میں باقاعدگی سے بھی بہتری آ سکتی ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر اس سے بھی بہتری نہ آئے تو پھر ایسے میں کیمسٹ سے دافع قبض ادویات لی جا سکتی ہیں لیکن اگر قبض برقرار رہتی ہے اور کچھ دیگر علامات بھی ظاہر ہو جائیں تو پھر ایسی صورت حال میں معالج سے رابطہ کرنا ضروری ہے۔