تحریر : چودھری عبدالقیوم مکرمی؛ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 میں ہونے والے ضمنی الیکشن پر پورے ملک کی نظریںجمی ہوئی ہیں۔یہ سیٹ سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کو سپریم کورٹ سے نااہل قرا دئیے جانے کے بعد خالی ہوئی تھی جہاں ان کی بیگم محترمہ کلثوم نواز مسلم لیگ ن کی امیدوار ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں تحریک انصاف کی ڈاکٹر یاسمین راشد،پیپلزپارٹی کے فیصل میر، محمدیعقوب شیخ آزاد اُمیدوار اور دیگر 43 امیدوار مدمقابل ہیں۔اصل مقابلہ بیگم کلثوم نواز اور ڈاکٹر یاسمین ارشد کے درمیان ہوگا جو عام انتخابات میں بھی میاں نوازشریف کے مقابلے میں امیدوار تھیں۔
میاں نوازشریف 91 ہزار نو سو چھیاسٹھ ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ڈاکٹریاسمین راشد کو 52 ہزار تین سو اکیس ووٹ ملے تھے۔اس کے بعد بلدیاتی الیکشن میں اس حلقے کی بائیس یونین کونسلز سے مسلم لیگ ن کو 52 ہزار اور تحریک انصاف کو اڑتیس ہزار ووٹ ملے تھے اگر دیکھا جائے تو عام الیکشن کے بعد بلدیاتی الیکشن میں مسلم لیگ ن کو کم ووٹ حاصل ہوئے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ میاں نوازشریف کے نااہل ہونے کے بعد اب اس حلقے کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن اپنی سیٹ بچانے میں کامیاب ہوتی ہے کہ نہیں؟ عام طور پر ضمنی الیکشن میں برسر اقتدار پارٹی ہی کامیاب ہوتی ہے لیکن تبدیل ہوتی ہوئی ملک کی سیاسی صورتحال اور حالات و واقعات کے پیش نظر ا س ضمنی الیکشن کے بارے میں قطعی طور پر کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا۔ این اے 12O کا ضمنی الیکشن اس وقت ملک کی سیاست میں بڑی اہمیت اختیار کرچکا ہے۔بیگم کلثوم نواز اپنے علاج اور میاں نوازشریف ان کی تیمارداری کے لیے لندن میں مقیم ہیں جبکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز بڑے بھرپور طریقے سے اپنی والدہ کی انتخابی مہم چلارہی ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے میاں نوازشریف کے بھتیجے حمزہ شہبازشریف جو لاہور کی سیاست میں بہت فعال ہیں اپنی تائی کے الیکشن مہم میںنظر نہیں آرہے۔
البتہ پنجاب حکومت،اور لاھور کے بلدیاتی ادارے بیگم کلثوم نواز کی الیکشن مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے بھی اس بات کا نوٹس لیا ہے کہ مسلم لیگ ن انتخابی مہم میں سرکاری مشینری اور وسائل ستعمال کررہی ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی امیدوار ڈاکٹریاسمین راشد اپنے مدمقابل مریضہ امیدوار کے مقابلے میں مردانہ وار طریقے سے الیکشن لڑرہی ہیں جبکہ ان کی جماعت کے راہنما اور کارکن بھی دن رات الیکشن مہم میں مصروف ہیں۔جبکہ پی پی کے امیدوار فیصل میر اور محمدیعقوب شیخ بھی اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ کی الیکشن مہم میں بی بی مریم نواز نے عدلیہ کو نشانے پر رکھا ہوا ہے وہ کہتی ہیں کہ سترہ ستمبر کو لاھور بولے گا ہم نے عدلیہ کی طرف سے نواز شریف کو نااہل قراردینے کا فیصلہ تسلیم کیا لیکن عوام نے نوازشریف کی ناہلی قبول نہیں کی وہ کہتی ہیں چند لوگوں نے عوام کے مینڈیٹ کو پامال کیا ہے۔
حلقہ کے عوام ضمنی الیکشن میں بیگم کلثوم نواز کا کامیاب بناکر نوازشریف کی نااہلی کیخلاف فیصلہ دیں گے ۔دیگر امیدوار بھی اپنی اپنی مہم چلا رہے ہیں۔اس حلقے سے میاں نوازشریف کامیاب ہوکر وزیراعظم منتخب ہوئے تھے یہاں ضمنی الیکشن ہونے کے نتیجے میں یہ بات عیاں ہوئی ہے کہ اس حلقے میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر ہوئے یہاں کی سڑکیں اور گلیاں کسی پسماندہ علاقے کی تصویر پیش کرتی ہیں۔شہریوں کے علاج معالجے کے لیے کوئی قابل ذکر ہسپتال نہیں بلکہ یہاں تک کہا جارہا ہے حلقے میں عوام کو پینے کا صاف پانی میسر نہیںحالانکہ وزیراعظم کے حلقے کو ترقیاتی کاموں کے حوالے سے مثالی ہونا چاہیے تھا لوگ کہتے ہیں کہ اگر وزیراعظم کے اپنے حلقے کا یہ حال ہے تو دیگر حلقوں کا کیا حال ہوگا اب اس حلقے میں غیرمعمولی طریقوں سے ترقیاتی کام کرائے جارہے ہیں حلانکہ اصولی اور قانونی طور پر الیکشن مہم کے دوران ترقیاتی کام کرانا ہر ظرح سے غلط ہے ۔ضمنی الیکشن کی انتخابی مہم میں مسلم لیگ ن ،تحریک انصاف سمیت تمام جماعتوں نے میاںنوازشریف کی سپریم کورٹ سے ناہلی کو اپنا اپنا موضوع بنایا ہوا ہے۔مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی ناہلی ایک سازش اور غلط فیصلہ ہے عوام اس فیصلے کے ردعمل کے طور پر بیگم کلثوم نواز کو پہلے سے کہیں زیادہ بھاری اکثریت سے کامیاب بنائیں گے اور ثابت کریں گے کو عوام میاں نوازشریف اور مسلم لیگ ن کیساتھ ہیں۔
دوسری طرف تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ عدلیہ نے ملک کی تاریخ میں پہلی بار کرپشن کرنے پر کسی بڑے آدمی پر ہاتھ ڈالا ہے اب عوام ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کیخلاف ووٹ دے کر ثابت کریں گے کہ قوم عدلیہ کے فیصلے پر خوش ہے اورعدلیہ کیساتھ ہے۔ بحرحال یہ حقیقت ہے کہ حلقہ این اے 12Oکا ضمنی الیکشن واقعی ملک کی تاریخ کا بہت اہم الیکشن ہے اس کا نتیجہ نہ صرف ملک کے سیاسی مستقبل کی نئی راہوں کا تعین کرے گا بلکہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کو آئندہ عام الیکشن میں انکی پوزیشن اور مقبولیت سے بھی آگاہ کرے گا جس سے دونوں جماعتوں کو اپنے سیاسی مستقبل کی تصویر نظر آئیگی۔ملک کی تمام سیاسی قوتوں سمیت عوام کی نظریں بھی اس الیکشن کے نتیجے پر لگی ہوئی ہیں۔الیکشن میں چند دن ہی باقی ہیں سترہ ستمبر کو الیکشن لڑنے والی جماعتوں اور امیدواروں کیساتھ پاکستانی عوام کے شعور کا بھی امتحان ہے اور یقینی طور پر سترہ ستمبر کو عوام کامیاب ہونگے پاکستان کامیاب ہوگا کیونکہ پاکستان کے عوام نے ماضی اور تاریخ سے بہت کچھ سیکھا ہے اور قوم کا شعور کافی بیدار ہو چکا ہے۔ اُمید ہے پاکستان کے باشعور عوام سترہ ستمبر کو اپنے بہترین شعور کا مظاہرہ کریں گے۔