تحریر: میر افسر امان، کالمسٹ ٹی وی ٹاک شو میں جناب حمید گل صاحب (ر) جرنل سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب کے ساتھ تبصرہ کرتے ہوئے اپنی قیمتی رائے سے پاکستان کے عوام کو آگاہ کیا کہ کوئی بات نہیں اگر پاکستان کا اسلامی آئین ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جائے تبدیلی ضرور آنی چاہیے آئین حرف آخر نہیں پھر بن جائے گا۔
مزید فرمایا چاہے مارشل لاء آئے کچھ بھی ہو پاکستان کی زمین اب اس کے لیے تیار ہے۔ شارٹ کٹ اور حالات کے ہاتھوں پریشان سوچ کے لوگ ایسا سوچتے رہتے ہیں ۔مگر حمید گل جیسے زیرک انسان نے شاید اس بات کا ادراک نہ کیا کہ ملکوں کے آئین بار بار نہیں بنا کرتے ۔خاص کر پاکستان جیسے نظریاتی ملک جس کا آئین ایک مدت بعد ١٩٧٣ء میں اتفاق رائے سے بنا تھا۔ جس کے پیچھے سیکولر لوگ ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں کہ اس آئین میں سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نام نکال دینا چاہیے اور اس کا نام صرف جمہوریہ پاکستان ہونا چاہیے۔اس میں یہ کیو ںدرج ہے کہ ملک میں بتدریج اسلام کو غلبہ ہونا چاہے۔ اس میں دفعہ ٦٣٦٢ کیوں درج ہے۔ اس میں نظریاتی کونسل کیوں بنائی گئی جس کا کام ہے کہ ملک کے اندر راج غیر اسلامی چیزوں کو اسلام کے مطابق ڈھالنا ہے۔ جس کے اندر حدود آرڈینس کیوں ہے۔ جس میں قادیانیوں کو غیر مسلم کیوں قرار دیا گیا ہے۔پاکستان کے عوام حمید گل صاحب کی قدر جہاد اور اسلام سے محبت کی وجہ سے کرتے ہیں۔
پتہ نہیںکیوں ان کو اس چیز کا خیال نہیں رہاکہ اس سے قبل ڈکٹیٹرایوب خان نے پاکستان کا آئین توڑ کر بہت بڑا جرم کیا تھا۔ بعد میں ١٩٧٣ء کے آئین کو ڈکٹیٹر ضیا اور ڈکٹیٹر مشرف نے معطل کیا۔ جس کی سزا ڈکٹیٹر مشرف ابھی تک بھگت رہا ہے۔ ملک میں ایک عرصہ تک آئینی جد وجہد ہوتی رہی تھی اور بلا آخر ١٩٧٣ء کا متفقہ اسلامی آئین بنا ۔ بے شک جس کا سہرا مرحوم بھٹو کے سر ہے۔ حمید گل صاحب جیسے لوگ جوسیاسی جد وجہد میںنہیں ہوتے وہ تجزیے تو بہترین کر سکتے ہیں لیکن پتہ مار جمہوری جد وجہدقسم کا کام ان کے بس کا نہیں ہوتا۔ ملکوں میںآئین ساز پارلریمنٹ کے لیے سیاسی پارٹیوں کا وجود ضروری ہے۔ پھر ان میں سوچ کی یکسانیت کو ہونا بھی ضروری ہوتی ہے۔
Constitution
وہ لوگوں کے پاس جاتے ہیں اپنا اپنا پروگرام پیش کرتے ہیں۔ جب وہ ٹو تھرڈاکثریت سے منتخب ہوتے ہیں تو پھر آئین کی تشکیل ہوتی اور اس آئین میں اگر کوئی تبدیلی کی ضرورت ہو تو ٹوتھرڈ کی اکثریت سے ہی آئین میں تبدیلی کر سکتے ہیں۔ یہ اس لیے ہی کہ آئے دن آئین میں تبدیلی نہ ہوتی رہے اور ملک کا نظام آئینی طریقے سے ٹھیک ٹھیک چلتا رہے۔ یہ تو ہم نے عام ملکوں کی طریقے کا ذکر کیا ہے جو مروجہ جمہوری طریقے پر اپنے ملکوں کو چلانا چاہتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں سیکولر نظام زندگی رائج ہے۔ جس میں عوام جو بھی چاہتے ہیں ان کے نمائیدے اُ نکے لیے آئینی طور پر مہیا کر دیتے ہیں۔ چائے وہ ان کے لیے زہر قاتل ہی کیوں نہ ہوں۔ ایسی مادر پدر آزادی کو مغربی ملک دیکھ رہے ہیں۔اس کی وجہ سے ان کا خاندانی نظام بگڑ چکا ہے۔ طلاق کی شرع انتہائی اوپر ہے۔
ان کے ہاں ٤٠ فی صد حرامی بچے پیدا ہو رہے ہیں۔اخلاقی قدریں ناپید ہو چکی ہیں۔مذہب بیزاری عام ہے۔ عورتوں کو معاشی ذمہ داریاں ڈال کر اس کی فطرت کو مجروع کیا گیا ہے۔وہ ایئر ہوسٹس بن کر مسافروں کے دل بہلاتی ہے۔ اس کو شمع محفل بنا دیا گیا۔ اس کو نیم عریاں کر کے بیلے ڈانس کرایا جاتا ہے۔مغرب کا کوئی پروڈکٹ اس وقت تک فروخت نہیں ہوتا جب تک کوئی خو ب صورت عورت اسے کے لیے اپیل نہ کرے۔ان کی پارلیمنٹ قوم لوط فعل کو آئین کا حصہ بناتے ہیں۔ ہم جنسوں کی شادیوں کا عام رواج ہے۔عریانی اور بے حیائی مغرب میں عام ہے۔اس لے ان ملکوں کے آئین اگر ٹوڑ دیے جائیں اور نئے بنائے جائیں تو کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ پاکستان جو ایک نظریاتی ملک ہے۔ جو ایک نظریے کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا جس کے بنانے والے نے جمہوری جد جہد کی وجہ سے اسے حاصل کیا تھا۔حاصل کرنے کے دوران ہی اس کی آئینی منزل بھی طے کر دی تھی۔جو ساری دنیا میں منفرد تھی۔ جس کا وجود ہی مذہب کے نام پر بنا تھا۔
اس کو حاصل کرنے کے لیے کہا گہا تھا پاکستان کا مطلب کیا لاالااللہ۔لیکر رہیں پاکستان ۔بن کے رہے گا پاکستان۔پھر برصغیر کے جن علاقوں میں پاکستان نہیں بننا تھا اس علاقوں کے مسلمانوں نے صرف اور صرف مذہب کے نام پر ہی پاکستان کے حق میں رائے تھی اور ہجرت کی تکلیفیں بر داشت کر کے پاکستان آئے تھے۔حمید گل صاحب خوب جانتے ہیں کہ ساری دنیا میں واحد پاکستان ہے جو مذہب کے نام سے جمہوری طریقے پر وجود میں آیا ہے۔ اس کا اسلامی آئین بڑی مشکل سے بنا تھا۔اس لیے کسی بھی حالت میں اسے ٹوٹنا نہیں چاہے۔ اس میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس کو اپنی اسلامی روایات کے مطابق خوب سے خوب بنایا جا سکتا ہے۔حمید گل صاحب کی ساری زندگی فوج کی ہے ۔انہیں آئین بننے کی بارکیوں کا ادراک نہیں۔اس لئے انہوں اس کا اظہار کیا ہے جو نامناسب ہے۔ان کو اس بیان سے سے رجوع کرنا چاہے ورنہ پاکستان کے عوام میں ان کی چاہت کا گراف گر جائے گا۔
Pakistan
جو اچھی بات نہیں ہے۔حمید گل صاحب کی اسلام سے محبت کوئی ڈھکی چھپنی بات نہیںاور میں دو رائے نہیں ہوسکتی مگر ان کی کوئی سیاسی جماعت نہیں کوئی سیاسی جدو جہد نہیں۔ اور آئین تو نام ہے سیاسی جد وجہد کا اور آئین سیاسی جد وجہد کا ہی پروڈکٹ ہے۔ آئین فوجی سروس کا پروڈکٹ نہیں۔ فوجی تو آئین کو توڑتے رہے ہیں یا معطل کرتے رہے ہیں۔ اس لیے حمید گل صاحب سے درخواست ہے کہ وہ حسب سابق قوم کو اپنی سوچ سے مستفیض کرتے رہیں۔
انقلاب لانے کے جمہوری طریقے بتاتے رہیں۔ اسلامی فکر کو پروان چھڑاتے رہیں لیکن آئین جسے معاملے کو سیاست دانوں پر چھوڑ دیں۔ یا اگر بل لکل ایسی سوچ دل میں آ ہی گئی ہے تو کسی سیاسی پارٹی میں شریک ہو جائیں یا پھر اپنی سیاسی پارٹی بنائیں، آئینی جدوجہد کریں پھر عوام کی عام رائے سے پاکستان کے موجودہ اسلامی آئین کو توڑ کر اس سے بہتر اسلامی آئین تشکیل دیں تاکہ آپ کے نیک خیالات کے مطابق پاکستان میں تبدیلی آئے۔ نہیں توموجودہ آئین کسی بھی حالت میںٹوٹنا نہیں چاہے۔ یہ بڑی مشکل سے ہمارے اقابرین نے بنایا ہے۔