تحریر : حفظہ بخاری ایڈووکیٹ پاکستان کی سیاسی تاریخ عدم استحکام و تشدد سے عبار ہے۔ ماضی کے سیاسی انقلا بات و واقعات سے سب سیکھنا ہر معاشرے اور سیاسی استحکام کی بنیادی ضرورت ہے ۔ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح بالعموم اور پاکستا ن میں بالخصوص سیاسی تبدیلیاں اور عدم استحکام میں داخلی و خارجی عناصر شامل رہے ہیں ۔ کہا جا سکتا ہے کہ جمہوری تسلسل کے باعث رہاستی سیاسی و سماجی نقائص وقت کے ساتھ درست سمت پر ازخودرواں ہو سکتے ہیں۔
بد قسمتی سے پاکستان میں 1970و 1980کے عشرہ میں مذہب کو سیاست سے اس طرح جوڑ دیا گیا ہے کہ اب ریاستی ادارے فکری طور پر منقسم نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے پیشہ ور بیور کریٹک نظام منضبط نہیں ہو رہا اور ریاست کی مثال اس مریض جیسی ہے جس کے معدے میں ہر وقت گڑبڑ رہتی ہے ۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کا باشعو طبقہ مل بیٹھے اور اس بات پر غور کرے کہ پاکستانی سماج میں یکجہتی اور فکری ہم آہنگی کو کس طرح فروغ دیا جا سکے۔ اس ضمن میں سب سے پہلے پاکستانی نیشنلزم کا فروغ شرف اول ہے۔ پاکستان میں عم اعتماد کی فضا کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی تمام ریاستوں میں پاکستان شاید وہ واحد ریاست ہے جہاں ایک مخصوص طبقہ ہر وقت اسٹیبلشمنٹ کو ملک دشمن اور قوم دشمن ثابت کر نے میں مصروف رہتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا کمزور کر نے کو اپنا سیاسی ہدف سمجھتا ہے ۔ اگر اس سوال پر غور کیا جائے کہ اسٹیبلشمنٹ کیا ہوتی ہے تو آپ اس کے مرکز کی نشاندہی نہیں کر پاتے بلکہ اسٹیبلشمنٹ ، ملٹری اور سول بیور وکریسی کا وہ نظم ہے جو ریاست کی رٹ کو قائم کر تا ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ فرد کے حقوق کی محافظ بنے تاکہ ہر شہری کو باعزت ہونے کا حساس ہو جس کی وجہ سے عوام کے جذبہ حب الوطنی میں اضافہ ہوگا۔ دوسرا ہم سوال اس مبحث کا اسٹیبلشمنٹ کی چیرادستیوں اور بداعتدالیوں کو کیسے روکا جائے۔
ظاہر ہے اس کیلئے عوام کو کوئی نئی فوج نہیں قائم کر نی پڑے گی بلکہ آئین ہی وہ ضابطہ عمل ہے جو فرد اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تعلق کو باہمی طور پر استوار کر تا ہے ، اس طرح ایک اازاد جمہوری معاشرے کی داغ بیل ڈال دی جاتی ہے ۔ یہ کہنا کہ صرف الیکشن پر اس ہی ہر خرابی کا تریاق ہے ایک غلط مفروضہ ہے ۔ ہماری رائے میں آئین اور قانون کی بالادستی ریاست کی مضبوطی ، نیشنلزم کے فروغ اور فرد کی آزادی کی ضمانت ہے۔
پاکستان میں جمہوریت کے نام پر قائم ہونے والی ہر حکومت کا بنیادی ہدف آئین و قانون کی بالادستی نہیں بلکہ ذاتی اختیار کا دوام اور معاشرے پر گرفت کو قائم رکھنا ہوتا ہے ۔ چناچہ اس طرز عمل اور سوچ کے نتیجے میں ریاست اور معاشرے میں افراتفری جنم لیتی ہے جو کہ آج کل دیکھنے میں آرہی ہے ۔ موجودہ حکومت جس بحران میں پھنسی ہوئی ہے اس کی دیگر وجاہات میں اس ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت آئین و قانون کے سامنے سرنگوں ہونے کے بجائے طاقت کے ذریعے اپنا راستہ تلاش کر نے کی ناکام سعی کر تی ہے۔ ابھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو چند دن باقی ہیں موجودہ حکومت اگر جمہوری تسلسل سے مخلص ہے تو اسے جماعت کو فرد کی گرفت سے آزاد کر کے ایوان کو مسئلے کے حل کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ ایوان جو کہ عوامی امنگوں کا ترجمان ہوتا ہے ۔ جو بھی فیصلہ کرے اس کو جمہوری تسلسل کی بقاء کی خاطر قبول کر لینا چاہیے۔ اگر موجودہ حکمران یہ روش اختیاررک تے ہیں کہ ہم نہیں تو کوئی بھی نہیں تو یہ جمہوریت پر خود کش حملہ ہو گا۔