اسلام آباد (جیوڈیسک) خصوصی عدالت کے تین رکنی بنچ کے ایک رکن جسٹس یاور علی نے پرویز مشرف کی جانب سے شریک ملزمان کو مقدمہ میں شامل کرنے کی درخواست منظور کرنے کے فیصلے پر اختلافی نوٹ تحریر کیا ہے۔ جس کے مطابق پرویز مشرف نے3 نومبرکو اپنی تقریر میں ایمرجنسی کے نفاذ کا خود اعلان کیا اور کہا کہ مشاورت کے بعد بذات خود ایمرجنسی نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
جسٹس یاور علی نے 5 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ دوران سماعت پرویز مشرف کے وکیل نے واضح طور پر کہا کہ پرویز مشرف نے بطور چیف آف آرمی سٹاف ایمرجنسی لگائی اور یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم نے آئین کی خلاف ورزی کی کوئی ایڈوائس نہیں دی تھی۔ اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ریکارڈ پر بھی ایسی کوئی شہادت موجود نہیں جس سے ثابت ہو کہ پرویز مشرف نے وزیراعظم شوکت عزیز کی ایڈوائس پر ایمرجنسی لگائی۔گورنر خالد مقبول نےاپنے بیان میں کہا کہ ایمرجنسی کے نفاذ پر ان سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی ہے۔
اختلافی نوٹ میں کہاگیاہے کہ پرویز مشرف کے وکلاء عدالت میں ایسا کوئی گواہ پیش نہیں کر سکے جس سے یہ ثابت ہو کہ سابق صدرمعصوم ہیں اور یہ فیصلہ کرنےمیں کئی افرادنے ان کاساتھ دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد وزیراعظم ، ارکان کابینہ، سینئر بیوروکریٹس اور پی سی او کا حلف لینے والے ججز نے اسے پورے دل سے قبول کیا۔
آئین کے آرٹیکل 48 کے تحت ایسی کوئی ایڈوائس اور شہادت سامنے نہیں آئی جس میں ایمرجنسی نافذ کرنے کا کہا گیا ہو۔ پرویز مشرف کے وکیل کے دلائل اس بات پر قائل نہیں کرسکے کہ دوبارہ تفتیش کا حکم دیا جا سکے۔جسٹس یاور علی کے اختلافی نوٹ سے ٹرائل پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔