اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس افتخار چودھری نے ترقیاتی فنڈ کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے ہیں کہ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ وزیراعظم کو اخراجات کا صوابدیدی اختیار دیا جا سکتا ہے۔
یہ عوام کا پیسہ ہے اس کو ضائع نہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ میں ترقیاتی فنڈ کیس کی سماعت کے دوران سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے وکیل وسیم سجاد نے اپنے دلائل میں موقف اختیار کیا کہ ترقیاتی فنڈ کے جائزے کیلئے آڈیٹر جنرل اور پبلک اکاونٹس کمیٹی موجود ہے۔
اس سے پہلے درخواست گزار عبدالرحیم زیارت وال کے وکیل افتخار گیلانی نے موقف اپنایا تھا کہ ترقیاتی فنڈ سپلمنٹری گرانٹ اور پی ایس بی پی میں ردوبدل کر کے نہیں دیئے جا سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ سابق رکن اسمبلی فوزیہ بہرام نے بھینسوں کے سوئمنگ پول کیلئے ترقیاتی فنڈ لیے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ساڑھے چھ ارب روپے کی رقم ایسے افراد کو دی گئی جو رکن پارلیمنٹ بھی نہیں تھے۔ عوام کو ترقیاتی فنڈ کا فائدہ نہیں پہنچ رہا تو اسکا مطلب ہے فنڈ کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ سابق وزیراعظم کو معلوم تھا کہ اسمبلیوں کی مدت ختم ہو رہی ہے تو انہوں نے فنڈ کیوں جاری کیے۔