آجکل جو جمہوریت دنیا میں رائج ہے یہ اسلام کی مرہون منت ہے۔ اسلام سے پہلے دنیا میں بادشاہت اور سرداری نظام تھا۔ بادشاہ اور سردار مطلق العنان تھے۔بادشاہوں نے رعایا پر رعب ڈالنے کے لیے اپنے اپنے مختلف نام ایجاد کئے ہوئے تھے۔ مصر کے بادشاہ فرعون، روم کے بادشاہ قیصر اورایران کے بادشاہ کسرا کہلاتے تھے۔ملک اورخزانے بادشاہوں کے ہوتے تھے۔ باپ کے بعد بیٹا ملک کا وارث بن جاتا تھا۔ خاندانوں میں ہی بادشاہت تقسیم ہوتی رہتی تھی۔ انسان، جس کو اللہ نے آزاد پیدا کیا تھا اس کو غلام بنا لیا گیا تھا۔
انسانوں کی موت اور زندگی کا فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لیا ہوا تھا۔ان کا حکم اور فیصلہ آخری ہوتا تھا۔ دشمنوں کو وحشی جانوروں سے لڑا کر ان کی زندگیاں ختم کر نا،ان کا کھیل تھا۔ملکی معاملات میں مشاوَرِت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ بادشاہ کے سامنے زبان کھولنے سے پہلے جان کی امان مانگ کر بات کی جاتی تھی۔ یعنی جمہوریت نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔
ان حالات میں اسلام آیاد اور یہ سارے باطل طریقے ختم کئے۔ اسلام کا جمہوری نظام قائم کیا۔ جس میں بادشاہ کی بجائے خلافت کی بنیاد رکھی گئی۔ خاندانی بادشاہت اور قبیلے کے بجائے ،خلیفہ تقوی اور تفقہ فی الدین کی بنیاد پر چننے کی بنیاد رکھی۔ مطلق العنان باد شاہ کے بجائے اپنے میں سے کسی کو بھی آزاد رائے سے خلیفہ چننے کا طریقہ سکھایا۔ ملک اور خزانے بادشاہ کے بجائے اللہ کے قرار پائے۔ اس میں تصرف کے طریقے وضع کیے گئے۔
معاملات آپس میں مشورے سے چلانے کے طریقے سکھائے۔ آخرت کی جواب دہی کی بنیاد پر فانی دنیا کی زندگی گزارنے کے طریقے سکھائے۔ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے”اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں”(الشورٰی ٢٨)۔ قرآن شریف میں دوسری جگہ اللہ تعالیٰ رسولۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے صحابہ کے متعلق ہدایات دیتا ہے کہ” اور دین کے کام میںان کو شریکِ مشورہ رکھو”( ال عمران ١٥٩)ان ہدایات کی بنا پر مشاوَرِت یعنی ایک دوسرے سے مشورہ دین اسلام کاایک اہم ستون ہے۔ اس کی تشریح کرتے ہوئے مفسرین قرآن کہتے ہیں کہ مشورے کے بغیراجتماعی کام چلانا جاہلیت کا طریقہ ہے۔
یہ اس لیے کہ جس معاملے کا تعلق ایک سے زائد آدمیوں کے مفاد سے ہو،اس میں کسی ایک کا اپنی رائے سے فیصلہ کر ڈالنا سب کے ساتھ زیادتی ہے۔اس میں سب سے رائے لینا جمہوریت ہے۔ جس فرد کو دوسروں کے معاملات چلانے کا اختیار دیا گیا ہو ان کا چناو بغیر جبر کے لوگوں کے آزاد رائے سے ہونا چاہیے۔ ملک کے سربراہ کو مشورے دینے والے یعنی ممبران شوریٰ ایسے ہونے چاہیں جن کو دباو ڈال کر یامال سے خرید کر یا جھوٹ اور مکر سے کام لے کر نہ چنا گیا ہو۔مشورہ دینے والے اپنے علم و ضمیر کے مطابق رائے دیں ان کو مکمل آزادی ہونی چاہیے۔کسی لالچ، خوف یا جھتا بندی میں پڑھ کر اپنے ضمیر کے خلاف رائے نہ دیں۔
Holy Quran
ان حالات کو مدنظر رکھ کر جو مشورہ اہل شوریٰ کے سربراہ کودے اسے جمہور کی رائے سمجھتے ہوئے تسلیم کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ اللہ کے فرمان کے مطابق ہے یعنی” ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں” ہیں۔ یہ ہیں اسلام کے اصول جو جمہوریت کے لیے وضع کئے گئے ہیں ۔ مگر ایک بات جو مروجہ جمہوریت میں رائج ہے کہ عوام جو کچھ چاہیں اسی پر عمل ہونا ہے یہی جموریت ہے ۔یہ تصور جمہوریت اسلام میں نہیں ہے۔اللہ نے دنیا میں انسان کو مختار کل اور مطلق العنان نہیں بنایا ہے۔ اللہ نے انسانوںکے لیے کچھ حدود مقرر کی ہیں۔اسلامی جمہوریت ان حدود کی پاپندی کرتے ہوئے آپس کے باقی معاملات میں جمہوری طریقے سے عمل کر سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے تمھارے درمیان جس معاملے میں بھی اختلاف ہو ،اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے اورتمھارے درمیان جو نزاع بھی ہو،اس میںاللہ اور رسولۖ کی طرف رُجوح کر و۔ نص کا صحیح مفہوم کیا ہے اور اس پر عمل کس طریقے سے کیا جائے اس پر تو مشورہ ہو سکتا ہے تاکہ اُس کا منشا ٹھیک طور پورا ہو ۔ باقی معاملات آپس کے مشورے سے چلائیں جائیں یہی اسلامی جمہوریت ہے۔ مغرب کی بے لگام جمہوریت مسلمانوں کے لیے زہر قاتل ہے۔ اُس میں اگر عوام کہتے ہیں سود کا کاروبار ہو، جو اللہ اور رسولۖ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جنگ ہے۔
بے حیائی عام ہو، اسلام کے نزدیک جو شیطانی فعل ہے۔ ہم جنس یعنی مرد مرد سے شادی کرے جو فعل قوم لوط ہے۔ عورت کو محفل کی شمع بنا دیا، جبکہ عورت کا دائرہ کار اُس کا گھر ہے۔ عورت کے نیم عریاں تصویر کے بغیر کوئی بھی پروڈکٹ فروخت نہ ہو، جب کہ عورت کا تقدس پردے میں ہے۔ عورت ماں ،بیٹی، بہن کی صورت میں قابل احترام ہے۔ خاندانی نظام کاتصور با کل ختم کر دیا گیا ہے، جس سے ان کے ہی اعداد شمار کے مطابق چالیس فی صد حرامی بچے پیدا ہو رہے ہیں
جو اللہ کے عذاب کو دعوت ہے۔ یہ ہے بے راہ روا مغربی جمہوریت۔ جس کو اسلامی جمہوریت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ اسلام نے تو دنیا میں چودہ سو سال پہلے صاف ستھری جمہوریت رائج کی تھی جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانیت پر احسان تھا۔ مگر مغرب کی انسانی خواہشات نے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ اللہ مسلمانوں کو اپنی احکامات پر چلنے کے توفیق عطا فرمائے آمین۔