تحریر : میر افسر امان گذشتہ دنوں کراچی کے ایک مقامی ہوٹل میں رابطہ فورم عالمی تھنک ٹینک نے ”انسانیت کی فلاح کے لیے جوھری توانائی کا استعمال”کے عنوان سے ایک عظیم المشان سیمینار کا انتظام کیا۔رابطہ فورم عالمی تھنک ٹینک کے سربراہ جناب نصرت مرزا، اسلامی پاکستان اوردو قومی نظریہ کے محافظ، سینئر صحافی، کالم نگار، ٹی وی اینکر،اردو انگلش رسالوں کے ایڈیٹر، ملکی اور قومی مسائل پر سیمنار منعقد کرانے ، ملک و قوم سے سچی محبت رکھنے والے محب وطن پاکستانی ہیں۔
ان کی بھر پور کوششوں سے اس سیمینار میں پاکستان جوھری توانائی کمیشن کے چیئرمین جناب محمد نعیم صاحب، ستارہ امتیاز،ہلال امتیاز، سید یوسف رضا صاحب ممبرآف پائور(پی اے ای سی) ، ڈاکٹر شاہدمنصور ستارہ امتیاز،ڈاریکٹر (این آئی بی جی ای) فیصل آباد،ڈاکٹر محمد علی میمن صاحب ڈاریکٹر جوھری تونائی کینسر ہسپتال،پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ وزارت صاحبہ ڈاریکٹر(آئی اوبی ایم)، چیف ایڈیٹر پاکستان بزنس ریویو(پی بی آر)اور پاکستان بھر سے جوھری توانائی سے تعلق رکھنے والے متعدد حضرات نے شرکت کی۔ اس منفرد اور عظیم الشان سیمینار کے سامعین میں، یونیورٹیز، کالجز کے پروفیسرز، لیکچررز، طالب علموں، الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا، اخبارات کے ایڈیٹروں، صحافیوں، سینئر کالم نگاروںاور کراچی شہر کے نمائندہ حضرات تھے۔١٥:٣ پر تلاوت قرآن پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔پُرخوش آمدیدی کلمات جناب ظفر امام ایڈوکیٹ نے ادا کیے۔ اس کے بعد پروفیسر ڈاکڑ شاہدہ وزارت صاحبہ نے اپنے موضوع فوڈ سیکورٹی پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
انہوں نے فرمایا کہ پیداور بڑھانے کے لیے مصنوی طریقوں(ایٹمی توانائی) سے پیدا کردہ اجناس، سبزیوں اور پھلوں میں کیمیکل اثرات داخل ہو جاتے ہیں جس سے انسانی زندگی پرخطرناک اثرت مرتب ہو تے ہیں۔ انہوں نے اپنے تحقیق کو ثابت کرنے کے لیے مختلف اور ٹھوس حوالاجات دیے۔ انہوں نے کہاایسی اجناس کو دنیا کے مختلف ملکوں جیسے روس اور یورپی یونین نے استعمال کرنے پرپابندی لگائی ہوئی ہے۔امریکا اور کچھ بیرونی اداروںنے ہمارے ملک میںدیسی طریقے سے پیدا کردہ زری اجناس کے لیے زمینیں مختص کی ہوئی ہیں جن کی پیدا وار ان کو درآمند کی جاتی ہے۔مصنوئی طریقہ سے بنے مہنگے نامیاتی بیج حاصل کرنے کے لیے پاکستان کا زر مبادلہ بھی خرچ ہو رہا ہے۔
مصنوئی طریقہ سے پیدا کردہ اجناس اور پھل جو ہم در آمند کرتے ہیں ان کو کبھی کبھی واپس بھی کر دیا جاتا۔ روئی کے بیج جو امریکا سے کثیر زرِ مبادلہ خرچ کر کے مہنگائے تھے ان سے وہ ریزلٹ حاصل نہیں ہوا جس کی فروخت کرنے والی کمپنی نے گرنٹی دی تھی۔ بلکہ پیداوار میں کمی واقع ہوئی۔ ڈاکٹر صاحبہ کے ان سارے تحفظات کا مدلل جواب ڈاکٹر شاہد منصور صاحب ایٹمی تونائی ایگریکلچر فیصل آباد نے اپنی تقریر میںدیا۔ اور کہا کہ جو بھی اجناس یا پھل باہر در آمند کئے جاتے ہیں ان کو چیک کرنے کے لیے بین الاقوامی معیار کے تصدیق شدہ ادارے بنائے ہوئے ہیں۔ ان کے سرٹیفیک کے بعد ان کو درآمند کیا جاتا ہے۔اس کے بعد سید یوسف رضا صا حب نے اپنے موضوع نیو کلیئرپائور پر اپنی تقریر کا آغاز کیا اور سلائیڈ کی مدد سے پاکستان میں جوھری توانائی کے ذریعے پیدا ہونے والی بجلی کی تفصیلا ت بتائیں۔ انہوں نے ایٹمی بجلی گھروں کی پاکستان میں تنصیب کی رودار سامعین کے سامنے رکھی۔چشمہ ون ،ٹو،تھری اور فور کی تنصیبات اور اب سے پیدا ہونے والی بجلی کے متعلق بتایا۔ انہوں نے بتایا کہ ایٹمی بجلی گھروں سے پیدا ہونے والی بجلی سستی اور ماحول دوست ہے۔
انہوں نے اپنی تقریر میں کراچی ٹو اور تھری کا بھی ذکر کیا۔کراچی کنیپ کی روداد بھی بتائی کہ کس طرح بیرونی ملک نے بھاری پانی اور اس کے پارٹس پر پابندی لگا دی تھی۔ کیسے ہمارے ایٹمی سائنسدانوں نے اس ر کاوٹ کو خود پاکستان میں حل کیا۔ اب کئی دہایوں سے یہ ایٹمی پلانٹ بجلی پیدا کر رہا۔ پُرزے بنانے میںہمارے دوست ملک چین کی مدد سے لگائے ٹیکسلا ہیوی کمپلیکس سے فاہدہ اُٹھایا گیا۔ سوال جواب کے سیشن میں ماحولیات پر ایک رسالے کے ایڈیٹر کے سوال، کہ کراچی میں جو مذید ایٹمی بجلی گھر لگائے جا رہے ہیں اورکنیپ کی معیاد ختم ہو جائے گی تو اس سے نکلی ہوئی ایٹمی تابکاری اورفضائی آلودگی سے کراچی کے عوام کو خطرہ تو نہیں ہو گا۔
جواب میں بتایا گیا کہ اس ایٹمی توانائی کوبین الاقوامی ادارے ہر تین ماہ بعد اس کی کارکردگی اور سیفٹی کو چیک کرتے ہیں اور باقاعدہ سرٹیفیکیٹ جاری کرتے ہیں۔نہ اس سے اور نہ نئے لگائے جانے والے ایٹمی بجلی گھروں سے کراچی کو کوئی خطرہ نہیں۔ ویسے بھی پاکستان ایٹمی توانائی کیمشن دنیا کے ایٹمی تابکاری کے تقریباً تمام اداروں کا ممبر ہے جو ایٹمی تونائی کے نقصانات سے بچنے اور اسے چیک کرتے ہیں۔ اس کے بعدر ڈاکٹر شاہد منصور صاحب نے اپنے مضمون، ایگریکلچر پر سلائیڈ سے ہی اپنے ڈیپارٹمنٹ کی کارکردگی سامعین کے سامنے رکھی۔ انہوں نے بتایا کہ کہ فیصل آباد اور ملک کے دوسری جگہوں میںایگریکلچر سے متعلق تحقیق ہو رہی ہے۔ زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے زری اجناس اور پھلوں کی نئی قسمیں ایجاد کی گئی ہیں۔ زیادہ طاقت ور بیج بھی تیار کر کسانوں کو مہیا کیے جاتے ہیں۔
پید واربڑھانے کے لیے زمین کے نمونے لیکر اس پر تحقیقات کی جاتی ہے۔ نہری ، کلراٹھی،بارانی اور ناہموار زمین کے صحیح اور مناسب استعمال کے متعلق کسانوں کو تعلیم دی جاتی ہے۔ کسانوں کے پاس جاکر وقت پر کاشت کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔اجناس اور پھلوں کو چیک کرنے کہ ان کے اندر مضر ایٹمی اثرات تو نہیں ہیں۔ اس کام کے لیے ایٹمی توانائی کیمشن کی طرف سے بین الاقوامی معیار کی تصدیق شدہ لیبارٹیز کام کر رہیں۔زری اجناس جیسے گندم ار اور چاول یا پھلوں کی بیرون ملک درآمند کے وقت ان کو چیک کر کے سرٹیفکیٹ جاری کئے جاتے ہیں جو بین الاقوامی طور پر منظور شدہ ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر محمد علی میمن صاحب نے اپنے موضوع نیو کلیئر ادویات اور علاج پر اپنی تقریر شروع کی۔ بقول ان کہ آپ لوگ کافی دیر سے سن رہے ہیں تھک گئے ہونگے۔ لہٰذا میں ایک میمن ہونے کے ناتے میمنوں کا ایک لطیفہ سناتا ہوں۔ ٹی وی اینٹینے کا زمانہ تھا کہ ایک میمن بھائی اپنے مکان کی چھت پر اینٹینا باندھ رہا تھا کہ اچانک گھر گیا۔
ہسپتال جاتے ہوئے اپنی بیٹی سے کہتا ہے” اے حمیدہ دو روٹی کم پکانا میں ہسپتال جا رہا ہوں” میمن کی بچت کا لطیفہ سن کر تمام حال ہنس پڑا۔ انہوں نے بھی سلائیڈ کی مدد سے اپنے ڈیپارمنٹ کی کارکردگی سامعین کے سامنے رکھی۔ کینسر کے ایٹمی توانائی سے علاج کے تحت جہاں جہاں بھی پاکستان میںادارے کام کر رہے ہیں ان کی تفصیل سے آگاہ کیا۔ خاص کر کنیپ میں ارد گرد کی آبادی کے لیے پانی، صحت اور تعلیم کے انتظام کے متعلق بھی بتایا۔ ایٹمی توانائی کیمشن کی طے شدہ پالیسی ہے کہ نوکری کے لیے ارد گرد کی آبادی کو ترجیی دی جاتی ہے۔ ایٹمی تونائی کیمشن کے تحت چلنے والے ملک کے تمام اداروں میں کینسر کے علاج کے لیے مہنگی اور جدیدترین مشینری موجود ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کینسر جب پھیل جاتا ہے تو تب مریض ہمارے اداروں میں آتے ہیں۔ نجی کینسر کے ادارے تو ایسے مریضوں کے علاج سے انکاری ہو جاتے ہیں۔
ایٹمی توانائی کیمشن کی یہ طے شدہ پالیسی ہے کہ کینسر کا کوئی بھی مریض ان کی ہسپتال کے اندر علاج کے لیے آئے گا اس کا علا ج کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا سامعین آپ کو معلوم ہے کینسر کا علاج مہنگا ترین ہے اس لیے اس میں ہمار وسائل کے ساتھ ساتھ ہماری مدد پاکستان کے فلاحی ادارے بھی کرتے ہیں تب جا کر ہم اپنے مریضوں کا علاج کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ صاحبو!ہم نے چاروں مقریرین کی چیدہ چیدہ باتیں عوام کے فاہدے اور آگاہی کے نقطہ نظر سے اس کالم میں درج کی ہیں۔ پاکستانی عوام کو اپنے ایٹمی توانائی کیمشن کے پروگرام سے دلی لگائو ہے۔ کیوں نا ہو اسی ایٹمی طاقت نے پاکستان کی سالمیت کو یقینی بنایا ہے۔ عوام کی آگاہی کے لیے ایسے پروگرام ملک کے ہر بڑے میں منعقد ہونے چاہیں تک عوام کو پتہ چلے کہ ایٹمی تونائی نہ صرف ملک کی بیرونی خطرات سے تحفظ مہیا کرتی ہے بلکہ عوام کے لیے سستی ماحول دوست بجلی بھی پیدا کرتی ہے۔، زری اجناس،کیش کراپس، پھلوں اور دوسری پیداوار کو جدید طرز پر مدد فراہم کر رہی ہے۔ عوام کی صحت اور خاص کر کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کے لیے کام کر رہی ہے۔
اس کے بعد مہمانِ خصوصی کا خطاب اور سوال وجواب کا سیشن ہوا جس میں سامعین نے سوال کئے اور ایٹمی توانائی کے تمام حضرات نے اپنے شعبہ کے متعلق جواب دیے۔آخر میں جناب نصرت مرزا صاحب نے صدارتی خطاب کیا۔جوھری توانائی کیمشن کے تمام حضرات اورحاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ ایٹمی توانائی کیمشن کے تینوں حضرات کی طرف طالبعلوں کو بیان کیے گئے تینوں موضوعات پر لکھنے کی دعوت دی۔ پہلے نمبر پر آنے والے ہر مضمون پر پانچ ہزار انعام کا بھی اعلان کیا۔ ایٹمی توانائی کے چیئر مین صاحب نے اس میں اپنی طرف سے پانچ ہزار ڈال کر انعام کی رقم دس ہزار کر دی۔ اس کے بعد پروگرام اختتام پذیر ہوا۔آخر میں حاضرین کو لائٹ ریفریشمنٹ اور چائے سے تواضع کی گی۔
Mir Afsar Aman
تحریر : میر افسر امان کنوینر کالمسٹ کونسل آف پاکستان