اسلام آنے کے بعد دو طرح کے طبقے وجود میں آئے ایک وہ جس نے علم قرآن و حدیث سے سیکھا نہیں اِدہر اُدہر سے سن سنا کر اپنا لیا دوسرا وہ جس نے باقاعدہ قرآن و حدیث سے سیکھا اور پھر آگے درست انداز میں بیان کیا مخلوق کی بھلائی کیلئے اسے پھیلایا ضابطہ کہ کر گھریلو رشتوں کو صلہ رحمی سے محروم کر کے اللہ اور نبیﷺ کی ناراضگی مول لی حالانکہ ضابطہ رابطے سے متصل ہے یہ وہی جان سکتا ہے جس نے قرآن و حدیث کو کھول کر مطالعہ کیا ہو مثالوں سے سمجھتے ہیں ضابطہ تھا کہ ایک بوڑھی عورت محمدﷺ کو کوس رہی ہے اور آپﷺ اس کا سامان اٹھائے خاموش چل رہے ہیں ضابطہ کہتا تھا کہ سامان پٹخ دیں اور اپنی راہ لیں مگر رابطہ کہ رہا تھا کہ نہیں کمزور بوڑھی عورت ہے اسے منزل پر پہنچانا ہے
ضابطہ کہ رہا تھا کہ کوڑا پھینکنے والی بوڑھیا نے کئی روز سے کوڑا نہیں پھینکا اسے نظر انداز کیا جائے رابطہ کہ رہا تھا اس کو دیکھا جائے اور بیمار دیکھ کر اس کی عیادت تیمار داری بھی کی جائے
وہ محمدﷺ جو رات کو ایک بے بس غلام کی آہ و بکاہ سن کر اس کو روداد سنتے ہیں ضابطہ تو کہتا تھا کہ وہ غلام اسکی بیماری پیارے نبیﷺ کی ذمہ داری ہرگز نہیں وہ اپنی راہ لیتے یا اسے پوچھتے ہی ناں مگر رابطہ کہ رہا تھا کہ پوچھا جائے پھر اس بے کس کی ممکنہ حد تک مدد بھی کی جائے
ضابطہ کہ رہا تھا کہ جنگ احد میں قیدی پکڑے جاتے ہیں تو قیدی بھوکے پیاسے بندھے رہیں کوئی پرواہ نہیں یہ مسلمانوں کے دشمن تھے مگر رابطہ مصر تھا کہ انہیں اچھا کھانا کھلاؤ پانی پلاؤ خود جو میسر آئے اس پر گزارہ کرو یہ ہیں ضابطوں سے متصل اسلام کے رابطے جو زندگی میں نکھار لاتے ہیں بھلائی پیدا کرتے ہیں رابطے ضابطے ذرا رشتوں کے تناظر میں دیکھیں
اسلام سے پہلے اور بعد میں بھی مکہ میں محدود وسائل روزگار کی وجہ سے لوگوں کے چھوٹی کوٹھڑیاں نما کمرے بنے ہوتے تھے ایسے میں بڑے کنبے کا ایک ساتھ رہنا ناممکن تھا اس تصور کو کچھ لوگوں نے اس حد تک مسخ کر دیا کہ قرابت داری میں صلہ رحمی کو سرے سے کاٹ باہر پھینکا کہ شوہر بیوی کا اکیلا رہنا ثابت ہے اور ساس سسر کی خدمت کا حکم نہیں ہے مندرجہ بالا مثالیں جو دی گئیں ذرا غور کریں کہ بوڑہی خواتین غلام کیلئے تو آقائے نامدار ﷺ اتنی تکلیف اٹھائیں اور سگے والدین کیلئے کوئی رعایت کوئی آسانی بہو کے ذمہ نہیں؟ صلہ رحمی کا حکم اللہ پاک دیتے ہیں جس میں تمام رشتے آجاتے ہیں “ضابطہ”” آپ نے اسلام سے لے لیا تو “”رابطہ”” بھی اسلام سے لینے کی ضرورت ہے ہمدردی محبت ایثار قربانی مروت اخوت صلہ رحمی یہ سب وہ “”رابطے”” ہیں جو اسلامی تعلیمات پڑھنے کی صورت ہمیں قدم قدم پر ملتے ہیں جو دل اللہ کی خشیعت کا پابند ہوتا ہے وہ روز جزا اپنے حساب کے خوف سے لرزیدہ رہتا ہے اور رشتوں میں قطع رحمی کی کوشش نہیں کرتا آج ہمارا معاشرہ اور ماحول ماضی کی نسبت بہت تبدیل ہوگیا ہے آج عام آدمی کے پاس ایسا گھر ضرور ہے جس میں وہ والدین کو ساتھ رکھ سکے اب سوچیں جن والدین نے اولاد کو سخت محنت کے بعد پال پوس کر اچھے مستقبل کے خواب دیکھتے ہوئے بڑا کیا ہو وہاں ایسی بہو آ جائے جو دین کا حوالہ دے کہ ساس سسر کی ذمہ داری اسلام مجھ پر نہیں ڈالتا وہ کنارہ کشی اختیار کر لے اور بیٹے کو بھی آگے بڑھ کر خدمت نہ کرنے دے تو کیا ہوگا؟ “”ضابطہ”” تو آپ نے اپنا لیا مگر رابطہ کہتا ہے کہ ساس سسر کے ساتھ بہترین معاملات کرنا ہماری دینی دنیاوی دونوں طرح کی ذمہ داری ہے بہو ناک منہ چڑہاتی ہے تو بیٹا خود والدین کی خدمت کرے ساس سسر کی عزت کرنا ان کی تیمار داری کرنا ان کے کھانے پینے کا خیال رکھنا دراصل آپ کے خاندان اور تربیت کی پہچان ہے شوہر کی ذمہ داری بیوی بچوں کا خیال رکھنا ہے جو بچیاں شوہر کو والدین سے دور رکھتی ہیں وہ دعاؤں سے محروم ہیں ذرا سی ظبیعت میں لچک لانے کی ضرورت ہے ماں کی اچھی تربیت بیٹی کیلئے کامیابی ہے اور طبیعت میں جھکاؤ کی بجائے مقابلہ بازی کو پروان چڑہایا ہو تو بیٹی سے زیادہ ماں کیلئے صورتحال اذیت ناک ہو سکتی ہے شوہر کے والدین کے ساتھ اچھا سلوک شوہر کے دل میں گھر کرتا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے اگر بیٹی کی تربیت اچھی اور دینی کی جائے والدین چاؤ سے دلہن لاتے ہیں گھر میں رونق اور خوشیاں بڑیانے کیلیۓ ذرا سوچیں بہو گھر میں آئے تو دعا لینے کیلیۓ بیٹا ماں کے آگے سر جھکائے تو اس کو برا لگتا ہے ؟ ماں کی ترستی نگاہیں بیٹے کو دیکھتی ہیں اور بیٹا بیوی کی ناراضگی کے خوف سے ماں سے کنّی کتراتا ہے؟ لیکن ماں ڈبڈبائی نگاہوں سے بیٹے کی پشت دیکھتی ہے
بد نصیبی سےیہ وہ لوگ ہیں جو علم تو حاصل کرتے ہیں مگر علم کے ساتھ جو عملی تربیت کا نفاذ کرنا بھول جاتے ہیں حالانکہ وہ دینی سوچ کے حامل ہیں با شعور ہیں مگر اصل قرآنی تعلیمات سے دور ہیں اسی لئے عمریں گزار کر بھی علمی درسگاہیں انہیں کچھ بھی نہیں سکھا تیں نہ ہی کوئی تبدیلی لاتی ہیں طبیعت میں اکڑ دھونس وہی غرور وہی ہٹ دھرمی حسد کم ظرفی حاکمیت برقرار رہتی ہے خاص طور سے اگر بیٹیاں ہیں شادی کے بعد جب وہ سسرال جاتی ہیں تو ملائمت سے محروم کھردرے رویّے اذیت کا باعث بنتے ہیں گھر میں والدین ارذل عمر کی طرف بڑھ رہے ہوں ایسے میں انہیں بہو بیٹی جیسی چاہیے جو انہیں مسکرا کر پوچھے تو ان کا سیروں خون بڑھ جائے بیٹا کاندھے پر ہاتھ رکھے تو باپ جوان ہو جائے ماں کے آگے سر جھکا کر درازی عمر کی دعا لے تو سارا دن فرحاں گزرے بچوں کی قلقاریوں سے گھر گونجے تو والدین پھر سے تازہ دم ہو جاتے ہیں قرآن صرف قرآن عاجزی سے رشتوں کو نبھانے کا گُر بتاتا ہے نئی نسل کی نمائیندہ بہوئیں ساس سسر کو”” ضابطہ”” کے تحت نہیں “”رابطہ”” کے تحت عزت احترام دیں اور دعاؤں سے دامن بھریں “”اسلام کے ضابطے”” بغیر تحقیق بیان کرنے والے اسی پیارے اسلام کے”” رابطے”” ملاحظہ فرمائیں تا کہ اصل صحتمند نکھرا ہوا اسلام لوگوں میں مقبول ہو اسلام “”ضابطے”” کو “”رابطے “” کے ساتھ نافذ العمل کرتا ہے جو لوگ ضابطے اپنا لیتے ہیں اپنی جان کی آسانی کیلئے یاد رکھیں آپ بھی ادھورے ہیں اور آپ کا علم بھی ادھورا ہے