کراچی (جیوڈیسک) افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے کنٹینرزکی پروسیسنگ میں شامل کسٹمزکلیئرنگ وبارڈرایجنٹس نے قومی احتساب بیورو (نیب) میں سماعت پردوبارہ اپنا موقف اور معلومات کی فراہمی شروع کردی ہے۔
متاثرہ کسٹمز کلیئرنگ وبارڈرایجنٹس نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غائب ہونے والے 28 ہزار کنٹینرز کی 8 روزہ فارمولے کی بنیاد پر دوبارہ تحقیقات سے عدم اتفاق کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ چمن اور امان گڑھ سے تین تا پانچ یوم میں کنٹینرز کی واپسی کا عمل ایک حقیقت ہے جس کا ریکارڈ متعلقہ ٹریکر کمپنی سے حاصل کیا جاسکتا ہے کیونکہ ٹی پی ایل ٹریکر کمپنی کے ریکارڈ سے اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے کہ کراچی سے جانے والاٹرانزٹ ٹریڈ کا ٹرک ڈیڑھ سے دودن میںامان گڑھ پہنچ جاتا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ ماضی میں افغان حکومت کی جانب سے بھی تحریری طورپر اس امر کی تصدیق کی جاچکی ہے کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے 28000 کنٹینرز سرحد عبور کر گئے تھے اور نیب کی جانب سے چمن اور طورخم کسٹمزاسٹیشن کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جس میں 28 ہزار کنٹینرز میں سے 26 ہزار 843 کنٹینرز کی باڈر پار کرنے کی تصدیق ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود نیب نے ایف ٹی اوکی رپورٹ کو بنیادبناکر 7922 غائب شدہ کنٹینرزپر چند افسران اور 400 سے زائد کلیئرنگ اور باڈر ایجنٹس کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا ہے۔
جس میں کلیئرنگ اور باڈر ایجنٹس کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا اور نہ ہی ان پر جرم ثابت ہو سکا۔
قومی احتساب بیورو کی جانب سے مرحوم حافظ انیس رپورٹ کے مطابق 8 روزہ فارمولے کے تحت افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے غائب ہونے والے 28 ہزار کنٹینرز دوبارہ تحقیقات شروع کرنے پر متاثرہ کسٹمز وبارڈر ایجنٹس کو تحفظات لاحق ہیں جن کا کہنا ہے کہ اس اسکینڈل کی گزشتہ دو سالوں سے جاری تحقیقاتی عمل کے نتیجے میں ٹرانزٹ کلیئرنس وترسیل کے کاروبار سے وابستہ 450 کسٹمز وبارڈرایجنٹس بری طرح متاثر ہیں۔
جبکہ افغان تاجروں نے بھی ان حالات کے تناظر میں پاکستان کے بجائے ایران کے توسط سے ٹرانزٹ ٹریڈ کو ترجیح دینے لگے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ گھٹ کرصرف 25 تا30 فیصد تک محدود ہو گئی ہے، نتیجتا اس کاروبار سے منسلک تقریبا 12 ہزار سے زائد افراد گزشتہ ڈیڑھ سال سے بے روزگار ہوچکے ہیں۔
اس ضمن میں کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر افتخار احمد وہرہ نے بتایا کہ نیب کی جانب سے ازسرنو تحقیقات کے لیے کسٹمزو بارڈرایجنٹس کو دوبارہ نوٹسز کے اجرا نے کراچی کے علاوہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے ان کسٹمزو بارڈرایجنٹس میں خوف وہراس کی فضا بڑھادی ہے جوپہلے ہی ڈیڑھ سال سے نیب کے کراچی دفتر میں ماہوار بنیادوں پر پیشیاں بھگت رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کراچی چیمبر مذکورہ اسکینڈل کی تحقیقات کے حق میں ہے لیکن تحقیقات کی سمت درست اور نتیجہ خیز ہونی چاہیے۔
گزشتہ کی طویل تحقیقات کے تاحال نتیجہ خیز نتائج برآمد نہیں ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ نیب کی مذکورہ ازسرنو تحقیقات بھی بے سود ہوگی لیکن ٹرانزٹ ٹریڈ سے منسلک تاجروں میں بے چینی ضرور بڑھے گی۔
کراچی چیمبر کی جانب سے ڈی جی نیب کو ایک خط جاری کیا گیا ہے جس میں نیب سے مطالبہ کیا گیاہے کہ وہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے متاثرہ کسٹمز وبارڈرایجنٹوں کو کراچی کے بجائے نیب کے علاقائی دفاتر میں طلب کر یں۔
ذرائع نے بتایا کہ نیب کے حالیہ نوٹسز کے بعدآل پاکستان کسٹمز ایجنٹس ایسوسی ایشن پر بھی ملک بھر کے کسٹمز وبارڈرایجنٹوں کا دباؤ شدت اختیار کر گیا ہے اور متاثرہ ایجنٹس طویل دورانیے سے جاری بے یقینی وبداعتمادی ختم کرانے کے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔