یہ سچ ہے کہ ہمارے ہاں قومی مزاج میں بھانڈ پنا سرایت کر چکا ہے ۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ مذاق اور تذلیل میں کب حد فاضل قائم کرنا ہوتی ہے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ مذاق کس سے کیا جا سکتا یے اور کس سے نہیں۔
کچھ روز قبل ایک ٹریولر پیج ہر کسی صاحب نے پوچھا کہ کم سے کم خرچ میں وہ کہیں جانا چاہیں تو کہاں کہاں جا سکتے ہیں ؟ اگر یہ سادہ سا سوال دنیا کی کسی بھی مہذب قوم کے کسی پیج پر ہوتا ہے تو وہاں وہ جواب میں اسے کومنٹ بکس میں ہی ایسے تمام مقامات کی تفصیلات اور اخراجات کا حوالہ فراہم کرتا ۔ یا اسے ان بکس میں اس کا جواب دیکھنے کی ہدایت کرتا ۔ لیکن اس سادہ سے سوال کے جواب میں ہمارے بڑے سے بڑے نام نہاد تعلیم یافتہ سے لیکر عام سے پرائمری پاس نے بھی خوب مسخرہ پن دکھانے کی کوشش کی۔
کسی نے اسے تانگے پر جانے کا مشورہ دیا ، تو کسی نے اسے محلے کی سیر تجویز کی ۔ کسی نے اسے بسوں میں ریوڑیاں، ٹافیاں ، منجن بیچتے بیچتے پہنچنے کا مشورہ دیا تو کسی نے اپنی اوقات کے مطابق کوئی اور فضول ترین بات کی ۔ جسے پڑھ کر ہر ذی شعور انسان کو سخت افسوس بھی ہوا اور شرمندگی بھی ۔ ان سارے کومنٹس میں کسی کی ڈگری تھی یا وہ پرائمری پاس تھا سب کے سب کا ذہنی معیار ایک سا ہی نظر آیا ۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سوال اس پیج کے ایڈمن سے معلومات کے حصول کے لیئے کیا گیا ہے تو باقی اراکین کو اس میں اپنا زہنی پٹارہ کھولنے کی کیا ضرورت ہے ؟
کیا جسے آپ اپنے ذہنی معیار کے گھٹیا مذاق سے نواز رہے ہیں آپ اسے ذاتی طور پر جانتے ہیں ؟
اگر جانتے بھی ہیں یا وہ آپ کا قریبی بے تکلف ترین دوست بھی ہے تو کیا آپ اس کی مالی حیثیت کا مذاق یوں عوامی سطح پر اڑا کر اپنی دوستی کا کوئی حق ادا کر رہے ہیں ؟
یا پھر وہ آپ سے کئی لحاظ میں ہزار گنا بہتر ہے اور آپ اسے ان گھٹیا جوابات کے ذریعہ کمتر ثابت کر کے اپنی چھوٹے ذہن کی چھوٹی اور گھٹیا سوچ کو کوئی تسکین پہنچانا چاہتے ہیں ۔
اور پھر ایک سیدھی سے بات ایک پبلک پلیٹ فارم پر اگر آپ کا اپنا کوئی قریبی اور بے تکلف دوست بھی پوچھ رہا ہے تو اس کا پوری سنجیدگی اور سمجھداری سے جواب دیجیئے ۔ ہمیں یہ یاد ہی نہیں رہتا کہ ہر انسان کی جیب ایک جتنی نہیں ہوتی لیکن دل تو ایک جیسے ہی ہوتے ہیں ۔
میں نے اور مجھ جیسے اربوں لوگ ہمیشہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کب کہاں کم قیمت پر کوئی اچھی چیز یا پیکج مل سکتا ہے تو ہم اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔ تو اس میں شرم کی کیا بات ہے ۔ بچت کرنا اور اپنی جیب کے مطابق رہ رہنمائی لیکر کوئی کام کرنا بہت سمجھداری کی بات ہے ۔ ناکہ جیب میں چونی بھی اپنی کمائی کی نہ ہو اور ہم باپ اور بھائی کی مال پر جا کر لوگوں میں “پھڑیں” مارتے پھریں ور نوٹوں کو آگ لگا کر خود کو مال دار ثابت کرنے کی واہیات حرکتیں کرتے رہیں ۔ پہلے اپنی محنت سے چار پیسے کما کر دیکھیئے تاکہ آپ کو معلوم ہو کہ اسے خرچ کرنے میں کتنی تکلیف ہوتی ہے ۔
ہم لوگ اس فرق سے بالکل ہی نابلد ہو چکے ہیں کہ مذاق کیا ہوتا ہے اور جگت کیا ہوتی ہے اور حاضر جوابی کسے کہتے ہیں ۔ حاضر جوابی ایک بہت بڑی خوبی ہوتی ہے جبکہ بات سمجھ میں آئے نہ آئے منہ کھول کر کوئی بھی بات سامنے والے پر پھینک دینا بدتمیزی ، منہ پھٹ ہونا اور بدزبانی تو ہو سکتا ہے حاضر جوابی نہیں ۔ حاضر جوابی کا مطلب ہے کہ آپ کے سامنے کوئی بھی بات ہو تو آپ کا ذہن اس قدر متوجہ اور قابل ہو کہ اس بات سے متعلق درست جواب یا رائے فوری طور پر سامنے پیش کر سکیں ۔ جبکہ اوپر دیئے گئے جوابات حاضر جوابی تو کسی بھی لحاظ سے نہیں کہلا سکتے ۔ ہاں بیہودگی ، بداخلاقی ، بدتمیزی اور تکبر کے پہلے پائیدان پر ضرور موجود ہوں گی ۔ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ ان جوابات سے پوچھنے والے کو کس قدر شرمندگی اور دکھ ہوا ہو گا ۔ اور ہم نے اپنی نیکیوں میں کون سا اضافہ کر لیا، ہاں البتہ گناہوں کے بورے بھر بھر کر اپنے کندھوں پر ضرور باندھ لیئے۔
یاد رکھیئے ہمارے الفاظ ہمارے منہ میں اسی طرح سے بھرے ہوئے ہیں جس طرح پستول میں گولیاں بھری ہوتی ہیں۔ اور اس پستول کا استعمال اتنا تکلیف دہ نہ بھی ہو کہ اس کا زخم تو بھر ہی جائے گا یا زخمی ایک ہی بار میں مر جائے گا ، لیکن منہ سے نکلی گولی روح تک کو چھیدنے کے لیئے کافی ہوتی ہے۔
کاش ہم زبان چلانے سے پہلے دماغ چلا لیا کریں تو یوں کسی کی دلآزاری کا گناہ ہمارے اچھے اعمال کے تھیلوں میں سوراخ نہ کرتا۔