تحریر:انجینئر ذیشان وارث آج کی دنیا میں ترقی، تہذیب اور برتری کامعیار سائنسی علوم کو قرار دیاجاتاہے۔ ایسی اقوام جنہوں نے سائنس کے میدان میں کارہائے نمایاں سرانجام دیے ہوں،ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ کہلاتی ہیں جبکہ باقی ماندہ دنیا تقریباً ہر میدان میں ان کی دستِ نگر دکھائی دیتی ہے۔ہر قوم کی یہ کوشش ہے کہ وہ سائنس اورٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرے تاکہ اس کا نام دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں آسکے۔ اس حوالے سے مسلم دنیا میں خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ ہمارے بعض دانشور یہ طعنہ بھی دیتے دکھائی دیتے ہیں کہ مسلمان ایک Pamperتک نہیں بنا سکتے۔ اس کے علاوہ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ مسلمان ماضی کے ناسٹلجیاسے باہر آنے کو تیار نہیں اور ہر وقت عہدرفتہ کو یاد کر کے مطمئن ہوتے رہتے ہیں۔ اس ضمن
میں ایک ممتاز مزاح نگار کایہ قول بے حدمشہورہے : (جتنازور ہم اپنے بچوں کو”مسلمانوں کاسائنس میں کردار” پڑھانے پرلگاتے ہیں اتنا زور اگرسائنس پڑھانے پرلگائیں تو ہم سائنس میں ترقی کرجائیں۔ ہمارے ”ملامتی”دانشوروں کی باتیں ایک طرف مگر حقیقت اس سے کچھ مختلف ہے۔ ہرقوم اپنے ماضی کو یاد رکھتی ہے اور اگریہ ماضی شاندار ہو تو اس سے یقینا سبق بھی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ماضی سے ہٹ کر آج بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کاکوئی ایسامیدان نہیں جس میں مسلمان سائنسدانوں نے اپنی قابلیت کے جوہرنہ دکھائے ہوں۔ آج بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیامیں ہمارے پاس ایسے نابغے موجود ہیں جن پر بجاطورپر فخرکیاجاسکتاہے۔ ان ناموں کی ایک طویل فہرست ہے مگر یہاں چند ایک کا تعارف پیش کیاجاتاہے۔
Dr. Abdul Qadeer Khan
ڈاکٹرعبدالقدیرخان: ”محسن پاکستان” کے نام سے جانے جانے والے ڈاکٹر عبدالقدیرخان نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالم اسلام میں ہر دلعزیز ہیں۔ان کا نمایاں کارنامہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تعمیر اوراس کی کامیاب تکمیل ہے۔ آپ پاکستان کے واحد سائنسدان ہیں جنہوں نے دومضامین یعنی فزکس اور میٹلرجی(دھات کاری)میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری لے رکھی ہے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ابتدائی تعلیم پاکستان سے مکمل کی اور پی ایچ ڈی جرمنی سے کی۔بعدازاں بطور ایٹمی سائنسدان ایمسٹرڈیم میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 1974ء میں پاکستان واپس آئے اور پاکستان کے لیے ایٹمی پروگرام تعمیر کرنے کی ضمانت دی۔ چنانچہ 1976 میں انہیں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کاسربراہ بنادیا گیا۔ وہ اس عہدے پر 2001ء تک فائزرہے جبکہ ان کی ذاتی اور ان کی ٹیم کی کوششوں کے باعث پاکستان مئی 1998ء میں ایٹم بم بنانے میں کامیاب ہو گیا۔ پاکستان کاایٹمی قوت بننا پورے عالم اسلام کے لیے باعث فخرتھا ۔لہٰذا اس بم کو”اسلامی بم” کانام دیاگیا۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب کو ”اسلامی بم کاباپ” قرار دیاگیا۔
ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے کارہائے نمایاں درج ذیل ہیں۔ ٭… آپ نے پہلی مرتبہ پلوٹونیم کی بجائے یورینیم کی افزودگی کرکے ایٹم بم بنایا۔ ٭… پوری دنیاکی جانب سے ایٹمی پروگرام پرلگائی جانے والی پابندیوں کے باعث آپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کسی بھی ملک کی تکنیکی مدد کے بغیر اس پروگرام کو کامیابی کے ساتھ پایۂ تکمیل تک پہنچایا۔ ٭… نہ صرف یورینیم کی افزودگی کی بلکہ سینٹری فیوجز اور ایٹمی ری ایکٹربھی ڈیزائن کیے۔ ٭… مارفالوجی اورمارلیکیولرفزکس کے شعبہ جات میں بھی نمایاں خدمات سرانجام دیں۔ ڈاکٹرصاحب بلاشبہ دنیاکے بہترین سائنسدانوں میں سے ایک اورپاکستانیوں کے لیے فخرکی علامت ہیں۔
Kerim Kerimov
جنرل کریم کریموف: جنرل کریم کریموف سوویت یونین کے دور میں روس میں پیداہوئے۔ آپ نہ صرف سائنسدان تھے بلکہ سوویت فوج میں جرنیل بھی تھے۔ سائنس کے شعبہ میں ان کا شعبہ میزائل سازی تھا۔سوویت یونین کی جانب سے چاند پر بھیجاجانے والا سپیس شپ کریم کریموف نے ہی ڈیزائن کیاتھا۔ مگر اس وقت مسلمان ہونے کی وجہ سے ان کانام منظرعام پرنہیں لایاگیا۔ بعدازاں ان کی خدمات کا اعتراف کیاگیا۔
ڈاکٹربشیراے سید: ڈاکٹربشیراے سید کراچی کے رہنے والے تھے اور انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم ڈی جے سائنس کالج کراچی سے حاصل کی۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھی اسی کالج میں زیر تعلیم رہے۔ ڈاکٹر بشیرایروسپیس اور کوسمولوجی (علم فلکیات) کے ماہرتھے۔ یہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے استاد بھی رہے۔ اس کے علاوہ پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے سربراہ بھی رہے۔ امریکی خلائی ادارے NASA میں اہم عہدوں پر خدمات سرانجام دیں۔ آپ کے کارہائے نمایاں درج ذیل ہیں۔ ٭… NASA کے مریخ پرجانے والے سپیس شپ MARS Pathfinder کو انہوں نے ہی نہ صرف ڈیزائن کیابلکہ اس کی تکمیل کے پورے عمل کی نگرانی بھی کی۔ ٭… پاکستان کے خلائی ادارے ”سپارکو” کی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ اس کو چلانے کے لیے پوری ٹیم کی تربیت بھی کی۔ ٭… دنیابھرمیں توانائی کے حل کے لیے شمسی توانائی اور ونڈ انرجی پرخصوصی کام کیا۔ آپ جون 2015ء میں وفات پاگئے۔ آپ کی خدمات ہمیشہ یادرکھی جائیں گی۔
Prof.Dr. Yunus Ali
پروفیسرڈاکٹر یونس علی سینجل: ڈاکٹریونس علی سینجل بنیادی طورپر مکینیکل انجینئر ہیں اور ان کی ڈاکٹریٹ بھی اسی شعبہ میں ہے۔ڈاکٹر صاحب ترکی سے تعلق رکھتے ہیں اور اعلیٰ تعلیم امریکی یونیورسٹیوں سے حاصل کی۔ اس وقت آپ استنبول کی انجینئرنگ یونیورسٹی میں مکینیکل انجینئرنگ کے شعبہ کے سربراہ (ڈین) کی حیثیت سے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ڈاکٹرصاحب ”اسلام اورعقیدہ” نامی کتاب کے مصنف بھی ہیں۔جس میں سائنس کوقرآن کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
ڈاکٹرصاحب کے بڑے کارناموں میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے انجینئرنگ کے ایک اہم مضمون ”تھرموڈٹنامکس” پرایک کتاب “Thermodynamics! An Engineering Approach لکھی جس کا 2010 ء میں لکھا جانے والا ساتواں ایڈیشن انتہائی مقبول ہے اور پوری دنیا کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے۔ ان کی یہ کتاب مکینیکل الیکٹریکل، سول، کیمیکل، پولیمر اور پیٹرولیم انجینئرنگ سمیت کئی انجینئرنگ کورسز میں پڑھائی جاتی ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹرصاحب ترکی کی وزارت توانائی کے وزیر بھی ہیں۔
ڈاکٹر احمدزوائل: مصرسے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر احمدزوائل نے اپنی صلاحیتوں کالوہا کیمسٹری کے میدان میں منوایا۔ اس شعبہ میں قابل قدر تحقیق کی بدولت نوبل پرائز حاصل کرنے والے یہ پہلے مسلم سائنسدان ہیں۔اس کے علاوہ انہوں نے سیکنڈ کاسب سے چھوٹا حصہ”فیمٹوسیکنڈ” کامیابی سے ماپاجس پرانہیں ”بنجامن فرینکلن” ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ڈاکٹرصاحب کو امریکہ نے اپنی قومی سائنس کو نسل کا رکن بھی منتخب کیا۔اس کے علاوہ انہوں نے علم کیمیاکے میدان میں بے شمار ریسرچ پیپرزبھی لکھے۔
Dr. Atta Ur Rehman
ڈاکٹر عطاء الرحمن: ڈاکٹرعطاء الرحمن نے اپنی ماسٹرز تک کی تعلیم جامعہ کراچی سے حاصل کی جبکہ پی ایچ ڈی کیمبرج یونیورسٹی سے کی۔ اس وقت آپ کاشمارپاکستان ہی نہیں بلکہ دنیاکے صف اول کے سائنسدانوں میں کیاجاتاہے۔ آپ کاتعلق آرگینک کیمسٹری کے شعبہ سے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس میدان میں بے پناہ تحقیق کی جس بنا پر پوری دنیامیں ان کی مہارت تسلیم کی جاتی ہے۔ انہوں نے آرگینک کیمسٹری کے شعبہ کے متعلق 113 کتابیں تحریر کیں ہیں۔ جبکہ ان کے نا م سے Patents 21 بھی رجسٹرڈ ہو چکے ہیں۔ Patent سے مراد ایسی ریسرچ ہے جو دنیا میں صرف کسی ایک شخص نے کی ہو اور ہرشخص اس تحقیق سے فائدہ اٹھانے سے پہلے متعلقہ سائنسدان سے اجازت لینے کا مجاز ہوتاہے۔
اس کے علاوہ ڈاکٹرصاحب نے سوسے زائد ریسرچ پیپرزلکھے ہیں جوکہ بین الاقوامی معیارکے سائنسی جرنلز میں چھپ چکے ہیں۔ ڈاکٹرعطاءالرحمن بہت اچھے استاد بھی ہیں۔ان کے زیرنگرانی 78 طلبا پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لے چکے ہیں۔ عالم اسلام اور پاکستان کے لیے آپ کی خدمات انتہائی قابل قدر ہیں۔ آپ مسلمان ممالک کی نمائندہ تنظیم او آئی سی کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی کمیٹی کے کوآرڈی نیٹر رہے ۔اس کے علاوہ ڈاکٹر صاحب پاکستان میں وزیر سائنس وٹیکنالوجی بھی رہے۔ پاکستان کے لیے ان کا سب سے بڑا کارنامہ اعلیٰ تعلیم کی ترقی کے لیے ایچ ای سی کے ادارے کا قیام ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی خدمات کے پیش نظر ان کو درج ذیل اعزازات سے نوازا گیا۔
٭… نشان امتیاز ٭… ہلالِ امتیاز ٭… ستارہ امتیاز ٭… تمغہ امتیاز ٭… کامن ویلتھ سکالر ٭… فیلورائل سوسائٹی ٭… یونیسکوپرائز(پہلاانعام ) ٭… اسلامک آرگنائزیشن پرائز ٭… 53 سے زائد بین الاقوامی سائنسی فورمز کی رکنیت اور سربراہی ٭… اس کے علاوہ مزید 30 اعزازات آپ کے حصے میں آئے۔ ڈاکٹرعطاء الرحمن نے 111 بین الاقوامی سائنسی کانفرنسوں میں شرکت کی جبکہ ملک میں سائنس کے فروغ کے لیے 65کانفرنسیں منعقد کروائیں۔ آپ ابھی بھی پوری تندہی سے جامعہ کراچی میں کیمسٹری ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھارہے ہیںاور ملک و ملت کی خدمت میں مصروف ہیں۔
Dr. Riaz Uddin
ڈاکٹر ریاض الدین: ڈاکٹرریاض الدین پاکستانی سائنسدان ہیں جبکہ ریاضی اورفزکس ان کی مہارت کے شعبہ جات ہیں۔آپ نے ملکی اوربین الاقوامی سطح پرفزکس کے میدان میں بے شمار کام کیا جس بناپرآپ کو درج ذیل اعزازات سے نوازاگیا۔ ٭… تمغہ امتیاز ٭… ہلالِ امتیاز ٭… خوارزمی انٹرنیشنل پرائز ٭… البرٹ آئین سٹائن گولڈمیڈل برائے سائنس سرن لیبارٹری اورپاکستانی سائنسدان:
سوئٹزر لینڈ میں واقع نیوکلیئر لیبارٹری دنیا میں صف اول کی نیوکلیائی لیبارٹری ہے۔ اس لیبارٹری میں دنیا بھر کے ممالک سے سائنسدان آکر تحقیق کرتے ہیں۔ سرن لیبارٹری کے بڑے کارناموں میں”بگ بینگ” کا مصنوعی دھماکہ کرنا اور”ہگس بوسون” نامی خدائی ذرے کی دریافت ہے۔ مگریہ دونوں بڑے کارنامے بڑی حدتک پاکستانی سائنسدانوں کے مرہون منت ہیں کیونکہ ان تجربات میں استعمال ہونے والی زیادہ تر مشینری پاکستان کے ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا میں تیارکی گئی جبکہ ان تجربات میں تقریباً 27پاکستانیوں نے حصہ لیا جن میں فزکس، انجینئرنگ،کمپیوٹر اورلیزرآپٹکس کے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے سائنسدان شامل تھے۔ اسی بنا پر پاکستان کوسرن کاایسوسی ایٹ رکن بنادیاگیا ہے۔جبکہ جاپان، روس اور بھارت جیسے ممالک درخواست دینے کے باوجود اس کی رکنیت حاصل نہیں کر سکے۔
Pakistan’s Nuclear Program
اس مضمون میں طوالت کے خطرے کے پیش نظر محدود اعدادوشمارپیش کیے گئے ہیں۔ورنہ اس موضوع کا احاطہ کرنے کے لیے پوری کتاب درکارہے۔ان سارے حقائق سے کم ازکم یہ بات توضرور سمجھ میں آتی ہے کہ سائنس کے میدان میں اب ہم مغرب کے محتاج نہیں رہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال پاکستان کا نیوکلیائی پروگرام ہے جو کہ نہ صرف کسی بھی مغربی ملک کے تعاون کے بغیر بلکہ ان کی مخالفت کے باوجود پایۂ تکمیل تک پہنچایا گیا اور اس میں حصہ لینے والے سارے سائنسدان بھی ”دیسی” تھے۔
آج کے دور میں مسلمانوں کے زوال کاسبب سائنسی ترقی نہ ہونے اور Pamper تک نہ بناسکنے کے طعنے دینے والے دانشور حضرات کو مسلمانوں کے زوال کی نہ صرف دیگر وجوہات تلاش کرنی چاہئیں بلکہ ان کا حل بھی پیش کرناچاہیے۔