اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ آسیہ بی بی کی سزائے موت کے خاتمے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک میں پرتشدد مظاہروں کے تناظر میں حکومت کا تحریک لبیک کی قیادت سے معاہدہ ’علاج نہیں بلکہ آگ بجھائی‘ گئی ہے۔
پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات نے برطانوی نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویو میں ہفتہ تین نومبر کے روز کہا کہ آسیہ بی بی کی سزائے موت کی منسوخی اور ان کی رہائی کے پاکستانی سپریم کورٹ کے بدھ اکتیس اکتوبر کے روز سنائے جانے والے فیصلے کے بعد ملک کے مختلف شہروں میں مذہب پسند عناصر، جن میں تحریک لبیک کے کارکن پیش پیش تھے، کی طرف سے جو احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے، ان پر قابو پانے کے لیے حکومت کے پاس زیادہ راستے تھے ہی نہیں۔
فواد چوہدری نےکہا کہ حکومت کے پاس ایک راستہ تو یہ تھا کہ وہ متشدد مظاہرین کے خلاف طاقت استعمال کرے لیکن اس میں مزید انسانی جانیں ضائع ہو سکتی تھیں۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ مظاہرین کی قیادت سے مذاکرات کیے جائیں، جن میں ’کچھ لینا اور کچھ چھوڑ دینا تو پڑتا ہی ہے‘۔
فواد چوہدری نے ان الزامات کی تردید کی کہ حکومت نے تحریک لبیک کی قیادت کے ساتھ جو سمجھوتہ کیا، اس کی صورت میں دراصل حکومت مبینہ طور پر اسلام پسند مظاہرین کے آگے جھک گئی تھی۔
وفاقی وزیر اطلاعات کے مطابق موجودہ پاکستانی حکومت نے یہ تہیہ کیا ہوا ہے کہ ملک میں پر تشدد مظاہروں کا کوئی مستقل حل نکالا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مظاہرین کے خلاف ریاستی طاقت کا استعمال موجودہ حکومت کے لیے کوئی ’ترجیحی حل‘ نہیں ہے۔
اس پس منظر میں فواد چوہدری نے علامتی سطح پر حکومت اور تحریک لبیک کے مابین مظاہروں کے خاتمےکی وجہ بننے والے سمجھوتے کا دفاع کرتے ہوئے کہا، ’‘یہ کوئی (مستقل) علاج نہیں ہے، ایسا کرتے ہوئے فوری طور پر محض آگ بجھائی گئی ہے۔‘‘