تحریر : سید کمال حسین شاہ نواب زادہ لیاقت علی خان نے علمائے کرام کے تعاون سے ایک قرارداد تیار کی جسے قرارداد مقاصد کا نام دیا گیا قراردادِ مقاصد ایک قرارداد تھی جسے پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے 12 مارچ 1949ء کو منظور کیا۔ یہ قرارداد 7 مارچ 1949ء کو وزیر اعظم پاکستان لیاقت علی خان نے اسمبلی میں پیش کی۔ اس کے مطابق مستقبل میں پاکستان کے آئین کا ڈھانچہ یورپی طرز کا قطعی نہیں ہوگا، بلکہ اس کی بنیاد اسلامی جمہوریت و نظریات پر ہوگی۔جس میں ،للہ تبارک و تعالیٰ ہی کل کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے ۔ اُس نے جمہور کے ذریعے مملکت پاکستان کو جو اِختیار سونپا ہے ، وہ اُس کی مقررہ حدود کے اندر مقدس امانت کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
مجلس دستور ساز نے جو جمہور پا کستان کی نما ئندہ ہے ،آزاد و خود مختار پا کستان کے لیے ایک دستور مرتب کر نے کا فیصلہ کیا ہے ۔ مملکت اپنے اختیارات و اقتدار کو جمہور کے منتخب نما ئندوں کے ذریعے استعمال کرے گی۔ اسلام کے جمہوریت،حریت،مساوات،رواداری اور عدل ِعمرانی کے اصولوں کا پورا اتباع کیا جائے گا۔مسلمانوں کو اس قابل بنا دیا جائے گا کہ وہ انفرادی اور اجتما عی طور پر اپنی زندگی کو قرآن و سنت میں درج اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق ترتیب دے سکیں۔ اس امر کا قرارواقعی اہتمام کیا جائے گا کہ اقلیتیں،اپنے مذاہب پر عقیدہ رکھنے ،عمل کر نے اور اپنی تقافتوں کو ترقی دینے کے لیے آزاد ہوں۔ وہ علاقے جو اب تک پا کستان میں داخل یا شامل ہو جا ئیں،ایک وفاق بنا ئیں گے صوبوں کو مقررہ اختیارات واقتدار کی حدتک خود مختاری حاصل ہو گی۔ بنیادی حقوق کی ضمانت دی جا ئے گی اور ان حقوق میں جہاں تک قانون واخلاق اجازت دیں، مساوات،حیثیت ومواقع کی نظر میں برابری،عمرانی،اقتصادی اور سیاسی انساف، اظہارِ خیال، عقیدہ، دین، عبادت اور جماعت کی آزادی شامل ہوگی۔ اقلیتوں اور پسماندہ و پست طبقات کے جائز حقوق کے تحفظ کا قرار واقعی انتظام کیا جائے گا۔ نظام ِعدل گستری کی آزادی پو ری طرح محفوظ ہوگی۔جس کی رو سے وفاق کے علاقوں کی صیانت،آزادی اور جملہ حقوق ،بشمول خشکی و تری اور فضا پر صیانت کے حقوق کا تحفظ کیا جا ئے گا۔ تاکہ اہل ِپاکستان فلاح وبہبود کی منزل پا سکیں اور قوام عالم کی صف میں اپنا جائز و ممتاز مقام حاصل کریں اور امن عالم اور بنی نوع انسان کی تر قی و خوش حالی کے لیے اپنا بھر پور کر دار ادا کر سکیں۔
قراردادِ مقاصد آئین پاکستان میں 2_مارچ 1985ء کو صدر پاکستان محمد ضیائالحق کے صدارتی فرمان کے ذریعہ آئین پاکستان میں آٹھویں ترمیم کی گئی جس کے مطابق قراردادِ مقاصد کو آئین پاکستان میں شامل کرلیا گیا۔ صدارتی فرمان 14 کے تحت آئین پاکستان کی دفعہ نمبر 2 کے بعد اُس کے ضمیمہ کے طور پر Article 2ـA کے نام سے شامل کرلیا گیا۔ اِس صدارتی فرمان کے آخر میں ضمیمہ کے مطابق کہا گیا تھا کہ قراردادِ مقاصد آئین پاکستان کے متن میں شامل سمجھی جائے گی۔اختیارات کے حقیقی حامل عوام ہیں‘۔مملکت تمام حقوق و اختیارات حکمرانی کو عوام کے منتخب کردہ نمایندوں کے ذریعے استعمال کرے گی‘۔ یہی جمہوریت کا نچوڑ ہے ، کیونکہ عوام ہی کو ان اختیارات کے استعمال کا مجاز ٹھیرایا گیا ہے …اختیارات کے حقیقی حامل عوام ہیں… قرارداد مقاصد میں جمہوریت، حریت، مساوات، رواداری، اور سماجی عدل کے اصولوں پر زور دیا گیا ہے ۔ اس کی مزید صراحت یہ کی گئی ہے کہ دستور مملکت میں ان اصولوں کو اس تشریح کے مطابق ملحوظِ نظر رکھا جائے ، جو وضاحت اسلام نے ان الفاظ کی بیان کی ہے ۔قرارداد کے مطابق طرز حکومت وفاقی ہونا چاہیے ، کیونکہ جغرافیائی حالات اسی قسم کی طرز حکومت کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس صورت میں، جب کہ ہمارے ملک کے دو حصوں کے درمیان ایک ہزار میل سے بھی زیادہ فاصلہ موجود ہے ۔مجلس دستور ساز، ان جغرافیائی وحدتوں کو ایک دوسرے سے قریب تر لانے اور بہتر رابطے پیدا کرنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے گی، جن سے ہماری قوم پوری طرح متحد و منظم بن جائے۔
ہماری سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے کو زچ اور امیدوار کی کردار کُشی کرنے کے لئے کیسے ہتھکنڈے استعمال کرتی تھیں۔ ان کی انہیں حرکتوں نے معاشرے میں ناسور کا بیج بو دیا۔ ایک الیکشن سے دوسرے کے درمیانی عرصے میں عوام کچھ کرتی نہ کرتی مگر مخالفین کو زچ کرنے کے لئے نئے نعرے ضرور یاد کرتی۔ سب حصہ داروں کو یاد رکھیں کہ ماضی میں انہوں نے کیسے کیسے ہتھکنڈے استعمال کر کے اس کلچر کو پروان چڑھایا ہے ۔ سیاسی پارٹیوں کے ماضی کو تھوڑا سا کھنگالیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس گالی کلچر اور جارحانہ انداز میں تقریریں کرنے کو کس کس جماعت نے اپنا کر ہم تک پہنچایا ہے۔
مخالف سیاستدانوں کی کردار کشی کرنے کا رواج کس نے عام کیا اور اس کے وارث کون بنے ۔ کس نے سیاسی انتقام میں ماؤں اور بہنوں پر کیچڑ اچھالے ۔سمجھ نہیں آتی کہ یہ سارے سیاست دان جو خود اس حد تک گندگی میں لتھڑے ہیں، جن کا اپنا اخلاقی معیار یہ ہے کہ مخالفت میں بیٹیوں کی کردار کشی کرنے تک گر جاتے ہیںانتخاب میں ہر شخص کو دخل ہو گا، جو حکومت چلانے کے لیے منتخب کیے جائیں گے ، تاکہ وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں حکومت کا نظم و نسق ہو…پاکستان کی بنیاد ایک خا لص اورپاک نظریعہ پر رکھی گی۔اس قردار میں تمام اختیارات عوام کے پاس اور عوام عوامی نمائندہ منتحب کرے ۔لیکن افسوس ۔ قانوں کے مطابق کچھ لاکھ مگر خرچہ کڑروں میں۔جس چیز کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جائے۔وہ اس جیسی مقصد قرداد کا احترام کر ے گے ۔یہ ہم سب کیلے الیمہ ہے۔
یاست کا چوتھا ستون میڈیا،جہاں معاشرے کے سنوار میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے ،وہیں کسی حد تک معاشرے میں بگاڑ پیدا کر رہا ہے ۔ فی زمانہ ملک کے بیشتر ٹی وی چینلز،ڈراموں اور اشتہارات کے ذریعے اس قدر فحاشی اور بے حیایٔ پیدا کر رہے ہیں کے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا محال ہے ۔ بعغ اوقات اچانک ایسی خبرناک خبر آتی ہے کہ سر شرم سے جھک جاتا ہے ۔ہمارے میڈیا میں دین کی اتنی فوقیت و اہمیت نہیں جتنی سیاست اور کھیل تماشا کو ہے ۔ ہمارے میڈیا میں دین سے زیادہ اہمیت کھیل ، شوبز، ناچ راگ اور فیشن کو دی جاتی ہے ۔ ہمارا میڈیا کھیل کے میدان کی تو لائیو کوریج دیتا ہے ، موسیقی کی دھنوں ، ڈرامہ و فلم سازی ، شوبز کی دنیا، فحاشی و عریانی اور فیشن کے شوز کو تو باقاعدہ ہر گھنٹہ بعد کی نیوز ہیڈ لائنز بنا کے پیش کرتا ہے ۔پہلے مایٔں بچوں کو سبق آموز کہانیاں سنایا کرتی تھیں جن کا بچوں پر اثر بھی بہت ہوتا ہے ۔ وہ وہی کہانیاں اپنے دوستوں کو سناتے تھے ۔ جب کہ آج کل اکثر پاکستانی ٹی وی چینلز پر جرایٔم پر مبنی پروگرامز اور ڈراموں میں جرایٔم کرنے کے ایسے ایسے گر بتایٔے جا رہے ہیں کہ جس سے معاشرے میں بجاے ٔ عبرت کہ روز بہ روز کرایٔم میں اذافع ہوتا چلا جا رہا ہے۔
لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ میڈیا اس جانب خصوصی توجہ دے اور اخلاقیات پر مبنی پروگرامز دکھاے ٔ جس سے معاشرہ بہتری کی طرف گامزن ہو کی آج اپنی سمت درست کر لیں گے تو تب کل اپنی بچوں کو ایک صحت مند پاک صاف معاشرہ دے پایٔں گے ۔استخارہ مافیا اور دیگر ما فیاز معرضِ وجود میں آ چکی ہیں اور یوں کمر شل مولویز کی بھرمار نے اسلام کی حقیقی روح کو تڑپا کے رکھ دیا ہے ۔میڈیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ملکی تہذیب و ثقافت کی نمائندگی کرتا ہے اور ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے پروگرامز سے یہ اندازہ لگایا جا تا ہے کہ جو کچھ دکھا یا جا رہا ہے وہ سب اس معاشرے میں وقوع پذیر ہو رہا ہے … باالفاظ ِ دیگر یہ پروگرام معاشرے کے رہن سہن ، بودو باش ،تمدّن و تہذیب ،رسم و رواج ، طور طریقے ، خوشی غمی گو معاشرت کے ہر پہلو کی عکاسی کرتے ہیںذرائع ابلاغ کے اوپر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خبروں کی فوری ترسیل کے ساتھ ساتھ عوام کا سہارا بھی بنیں اور مشکل حالات میں افراد کی ذہن سازی، سخت حالات میں حوصلہ افزائی اور ممکنہ مثبت طرزِ عمل کی طرف رہنمائی بھی کریں۔