اسلام آباد (جیوڈیسک) سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر صدر مملکت کی منظوری کے بعد وزارت قانون نے متنازع خطاب پر اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے رواں سال 21 جولائی کو راولپنڈی بار میں خطاب کے دوران حساس اداروں پر عدالتی کام میں مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے اس بیان پر از خود کارروائی کی تھی اس حوالے سے ان کے خلاف ریفرنس بنایا گیا تھا جس میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے بھی جواب جمع کرایا گیا جب کہ چیف جسٹس پاکستان نے بھی ان کے بیان کا ریکارڈ طلب کیا تھا۔
جیونیوز کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل کی ایک میٹنگ یکم اکتوبر کو ہوئی جس کے بعد اب جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کی متفقہ سفارش کی گئی۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش صدر مملکت کو ارسال کی جس کی ایک نقل وزیراعظم ہاؤس اور ایک جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو بھی بھجوادئی گئی۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر صدر مملکت نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کی منظوری دے دی جب کہ وزارت قانون نے بھی جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل کی سفارش پر معطل ہونے والے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سینیئر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا رد عمل سامنے آگیا۔
جسٹس شوکت صدیقی کا کہنا ہے کہ ‘سپریم جوڈیشل کونسل کا میری معزولی کی سفارش کا فیصلہ غیرمتوقع نہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘تقریباً تین سال پہلے سرکاری رہائش گاہ کی مبینہ آرائش کے نام پر بے بنیاد ریفرنس بنایا گیا، سرکاری رہائش گاہ کی آرائش کے متعلق ریفرنس سے کچھ نہ ملا تو خطاب کو جواز بنا لیا’۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے مزید کہا کہ ‘میرے مطالبے اور سپریم کورٹ کے واضح فیصلے کے باوجود یہ ریفرنس کھلی عدالت میں نہیں چلایا گیا، نہ ہی میری تقریر میں بیان کیے گئے حقائق کو جانچنے کیلئے کوئی کمیشن بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ اپنا تفصیلی مؤقف بہت جلد عوام کے سامنے رکھوں گا۔
واضح رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے بیان پر آئی ایس پی آر کی جانب سے بھی رد عمل سامنے آیا تھا جس میں ریاستی اداروں پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
جسٹس شوکت عزیزی صدیقی اہم کیسز کی سماعت کرتے رہے ہیں اور انہوں نے ایک کیس کی سماعت کے سلسلے میں بینچ سے علیحدہ کیے جانے پر ناراضی کا بھی اظہار کیا تھا۔